ہماری ناکامیاں اور مغربی تعلیم

ہمارے بعض علما کرام اور ان کے کچھ ماننے والے اکثر ہماری ناکامیوں کی وجہ مغربی تعلیم کو قرار دیتے ہیں۔ بات بات پر اس بات کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں کہ مغرب نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مغربی تعلیم کو ہمارے نصاب کا حصہ بنایا ہے تاکہ مغربی ثقافتی یلغار سے ہماری اسلامی اقدار کو تباہ کیا جا سکے۔ ہمیں اپنے موجودہ حالات اور دنیا میں مسلمانوں کی معاشرتی حیثیت کو دیکھنا چائیے۔ مغربی تعلیم ہم خود پڑھ رہے ہیں کوئی ہم سے زبردستی نہیں پڑھوا رہا۔ مغربی تعلیم دنیا میں رہنے اور دوسری اقوام سے مقابلہ کرنے کے لیئے ضروری ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اسلامی تعلیم بھول جائیں۔پاکستان کو آزاد ہوئے 70 سال ہو گئے ہیں اور ابھی تک ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ہمارا ملکی آئین مکمل اسلامی ہونا چاہیے یا سیکولرازم پر مبنی۔ طرز حکومت جمہوریت ہونا چائیے یا ڈکٹیٹرشپ۔ مالی بدعنوانی ہماری جڑوں کو دن بدن کھوکھلا کر رہی ہے اور اس کام میں حکومتی ایوانوں سے لے کرعام آدمی تک زیادہ تر لوگوں کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ مالی بدعنوانی ایک ایسا ناسور ہے جو معاشرے کو ذلت کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے۔ مغربی ممالک نے تعلیم پھیلا کر اور مالی بدعنوانی پر قابو پا کر ترقی کی ہے۔ پاکستان کے ترقی نہ کرنے کی وجہ مالی بدعنوانی اور ہمارے اندر کی منافقت ہے۔ ہمارے اندر ہٹ دھرمی اور نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ہم اپنے آپ کو ٹھیک اور باقی سب کو غلط سمجھتے ہیں۔
ہم بے شمار فرقوں, ذاتوں, معاشی درجوں, علاقائی تعصب اور خود پسندی کے خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اسلام میں قوم پرستی اور ذات پرستی سے منع کیا گیا ہے مگر ہم ہر وہ چیز زوروشور سے کرتے ہیں جو اسلام میں منع کی گئی ہو۔ پاکستانی لوگ کبھی بھی ایک قوم نہیں ہو سکتے۔ قوم ہونے کے لیئے شرط ہوتی ہے کہ لوگ اپنے انفرادی مفادات اس وقت قومی مفادات پر قربان کر دیتے ہیں جب ملک کے اجتماعی مفاد کی بات ہو۔ ہمارے لوگوں کو کبھی ایسی باتوں کی تربیت ہی نہیں دی گئی۔ میر جعفر ,میر صادق نےسراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کو شکست سے دو چار کروا دیا تھا،آج ہمارے ملک میں ہر دوسرا بندہ میر جعفر ومیر صادق ہےاور خود پسندی اور خود غرضی کی زندگی میں اتنے مگن ہیں ہم کہ اس بات کا احساس ہی نہیں کہ قوم اور اسلام کے کچھ اجتماعی مفادات بھی ہیں۔ہم اپنی ناکامیوں کا الزام مغربی ممالک پر نہیں لگا سکتے اور نہ ہی مغربی تعلیم کو مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں۔ جس ملک میں انصاف نہیں ہوتا تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ تمام مغربی ممالک اپنے ملکوں میں اپنے شہریوں کو انصاف دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں کبھی انصاف نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں قاتل توشوت دینے کے لیئے پھرتا ہی ہے مگر جن کا قتل ہوا ہوتا ہے وہ بھی ایک ہاتھ میں لاش اٹھائے اور دوسرے ہاتھ میں رشوت کے لئے پیسے لیے ڈاکٹروں کے پیچھے ہوتے ہیں کہ کہیں ڈاکٹر کمزور نتیجہ نہ دے دے اور قاتل چھوٹ جائے۔ اس سب کے باوجود آپ اپنے اردگرد نظر اٹھا کر دیکھ لیں کتنے لوگوں نے قتل کیے اور ڈاکے ڈالے اور کتنوں کو سزا ہوئی ہے؟
پاکستان میں عملی طور پر پیسے والے اور طاقتور کے لئے الگ قانون ہے اور غریب اور عام آدمی کیلئے الگ قانون ہے۔ عدالتیں اور وکیل لوگوں کو انصاف دینے میں مدد دینے کی بجائے انہیں مالی طور پر کنگال کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے سیاست دان لوگوں کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں اور بےانتہا مالی بدعنوانیاں کرتے ہیں مگر ہم ووٹ بھی انہی چوروں اور لٹیروں کو ہی دیتے ہیں۔ ہمیں اپنی اسلامی تاریخ کا وہ واقعہ نہیں بھولنا چاہیے جس میں جب قریش کی ایک امیر عورت چوری کرتی ہے اور جب اسے چھڑوانے کیلئے سفارش کی جاتی ہے تو نبی پاک صلی اللہ و آ لہ وسلم کھڑے ہوکر ارشاد فرماتے ہیں”اے لوگو! تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوئے کیونکہ ان میں سے جب کوئی معزز چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور ان میں سے کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد جاری کر دیتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی چوری کرتی تو بھی میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا”۔امریکہ، مغربی ممالک یا مغربی تعلیم ہمیں یہ نہیں کہتے کہ بجلی چوری کریں رشوت لیں قومی خزانے کے ٹھیکوں سے کمیشن کھائیں جائیدادوں میں بہنوں اور بیٹیوں کا حصہ کھائیں۔ اپنے دلوں میں دوسروں کے لیے نفرت پالیں اور لوگوں سے اگر ہاتھ بھی ملائیں تو مطلب کے لیے اور لوگوں کی عزت صرف پیسے اور عہدے کو دیکھ کر کریں چاہے وہ دو نمبر طریقے سے ہی حاصل کیے گئے ہوں۔ آپ مغربی تعلیم کی کسی ایک کتاب میں یہ سب لکھا ہوا دکھا دیں تو میں بھی یہ بات مان لوں گا ہماری تمام ناکامیوں کی وجہ مغربی ممالک اور مغربی تعلیم ہے۔
ہمارے ملک میں اکثر لوگ اور ہمارے زیادہ تر سکالرز اور مذہبی عالم کنویں کے مینڈک کی طرح سوچ رکھتے ہیں ان میں یونیورسل سوچ اور ریسرچ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ لوگ جس فرقے کے سکولوں سے پڑھے ہوئے ہوتے ہیں اسی فرقے کی عینک لگا کر چیزوں کو دیکھتے ہیں۔ ہمارے سکالرز ہمیں اپنی تحریروں سے جوش تو دلاتے ہیں مگر ان کے پاس کوئی حل نہیں ہوتا اور آنکھیں بند کر کے اپنی ساری ناکامیوں کا الزام مغربی ممالک اور مغربی تعلیم پر دھر دیتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی نوجوان نسل کو مخاطب کرکے مغربی تعلیم کے بارے میں کچھ ایسے کہتے ہیں۔
تم شوق سےکالج میں پھلو ،پارک میں پھولو
جائزہے غباروں میں اڑو،چرخ پہ جھولو
بس اک سخن بندہ عاجزکی رہے یاد
اللہ کو اور اس کی حقیقت کو نہ بھولو
خدارا اپنی آنکھیں کھولیں قرآن اردو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں اور غور کریں کہ اللہ تعالیٰ کیا چاہتے ہیں اور ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہر چیز کا حل قرآن میں ہے مگر کوئی اس پر غور کرنے کو تیار نہیں۔

Facebook Comments

طارق محمود
سویڈش پاکستانی ویب ڈویلپراردو لکھنے کا شوق ہے اور اردنامہ ڈاٹ ای یو کا اڈیٹر انچیف اور سٹاک ہوم سویڈن میں رہائش ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply