زندگی کے خلاف مظاہرے میں شرکت۔۔صفی سرحدی

یہ اس بستی کا قصہ ہے جہاں لوگ غربت کی وجہ سے ناستک ہورہے تهے اور آج اسی بستی میں ناستک برادری زندگی کے خلاف پہلا مظاہرہ کررہی تھی، میں یہ سوچ کر وہاں چلا گیا  کہ شاید دنیا کو وجود میں آنے کے بعد یہ زندگی کے خلاف انسانوں کا پہلا مظاہرہ ہوسکتا ہے۔ وہاں ایک میلا کچیلا مریل جوان میرے قریب آکر کہنے لگا، غریب کی زندگی کالی چھپکلی کی  مانند ہوتی ہے، کالی چھپکلی جو مر کر بھی دیوار سے چپکی رہتی ہے ، گھناونی ہمیں ڈراتی ہے۔
“صاحب مجھے جاگیرداروں سے ڈر لگتا ہے۔ اس لیے میں انکے خلاف دھرنا نہیں دیتا، بس تماشا دیکھتا ہوں، اور پهر جاگیردار تو دیوتا سمان ہوتا ہے جسے پوجا جاتا ہے۔ دیوتاوں کی طرح اس کے قدموں میں لکشمی ہوتی ہے، اور لکشمی جندگی ہے۔ لکشمی دیوی ہے۔ یہ دیوی جب جاتی ہے تو جندگی ہمیں گِروی رکھ لیتی ہے۔ یونہی ہوتا آیا ہے، یونہی چلتا رہے گا۔۔
صاحب.. میں خود بھی لکشمی کا پریمی ہوں۔
جگ سارا ہے۔۔کیا تم نہیں ہو، صاحب؟
صاحب۔۔۔ لکشمی کے واسطے مجھے ہر غلامی منجور ہے۔ مجھے اس مریل سے بدبو آرہی تھی اس لیے میں نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا چل دفع ہو جا، تجھ ڈھانچے کو کون غلام رکھے گا۔
یہ سنتے ہی وہ مریل جوان کھانستے کهانستے غوطے میں چلا گیا۔ کچھ لڑکوں نے اسے وہاں سے گھسیٹ کر پرے کردیا۔

اتنے میں ایک لاغر بوڑھا جس کے منہ میں صرف ایک دانت لٹک رہا تھا میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہی بکنے لگا. ‘حجور۔۔۔۔ لکشمی اُس طوائف جیسی ہے، جسے دلال نے پکار کر کہا، تمهارا یار آیا ہے، تو وہ بول اٹھی کون سا یار؟ میرے تو ہجاروں یار ہیں!’
لیکن حجور یہ لکشمی کس کس کی باہوں میں جائے گی مریل بڈها بولتا چلا گیا، ‘لکشمی کے تو پریمی بہت جیادہ ہیں نا!۔۔ جو بھی ہو حجور، لکشمی سب کو مل جاوے میرے کو کوئی اعتراج نہیں رہے گا، بس کسی نامرد کو کبھی نہ ملے۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے، ایک اجڑے حلیے والے ہیجڑے نے قدرے غصے سے مداخلت کرتے کہا،
‘ابے بڈھے سالے کیوں نہ ملے؟ کیا ہم اپنا علاج لکشمی سے نہ کریں گے؟
لو حجور۔۔ ایسے ہی ایک کمینے نامرد کی وجہ سے میری بیٹیا رانی گھر واپس آکر بیٹھ گئی ہے۔
مریل بڈهے کی آواز شور میں دبنے لگی۔

اتنے میں مظاہرے کی قیادت کرنے والا ناسکت برادری کا بوڑھا ناستک جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ اس بستی کا پہلا ناستک تھا وہ بهونپو تھام کر بول اٹھا’
ہمیں لکشمی چاہیئے۔ خدا نہیں۔۔ اگر ہم خدا کو ماننے والے ہوتے تو پھر آج جندگی کے بجائے ہم خدا کے خلاف دھرنا دیتے۔ دھرتی پر  خدا نہیں، لکشمی ہے اور لکشمی بنا ہماری کوئی جندگی نہیں، اس لیے ہم ایسی جندگی کو نہیں مانتے ہیں۔ ہم لکشمی کو دہائی دینا چاہیں گے۔ لکشمی بڑی مہان دیوی ہے، ہمارے لیے اب لکشمی دیوی ہی سب کچھ ہے۔
بهیڑ میں سے ٹوپی والا بولا، سچ میں ناستک ہے، سالا۔۔۔
ناستکوں کے نیتا کا بیان جاری رہا۔۔

‘لکشمی، اے دیوی، تم سنو تو، جن پر تمھاری کرپا ہے، وہ تمهاری شکتی دکھا کر، ہماری پتریوں کو اٹھا لیتے ہیں۔ ان کے ڈوپٹے چھین لیتے ہیں۔ ان کی عجتیں کهراب کرتے ہیں اور پھر انہیں گندی نالیوں میں چھوڑ آتے ہیں۔ ہے لکشمی سنو! پھر ہماری یہی نا چار پتریاں، تمھاری چاہ میں کوٹھوں کی گالی بن کر رہ جاتی ہیں۔ ہے لکشمی یہی نہیں، تن بیچ کر جو کماتی ہیں، اس میں سے خدا کو ماننے والا بهڑوا اپنے حصے سے جیادہ لے اڑتا ہے۔ افسوس ہماری مجبور سیاہ کار پتریاں، پھر اپنے آپ کو خرید نہیں سکتیں؛ کیوں کہ وہ بِکنے کے لیے ہیں‘‘۔؟
ناستک کا گرم بهاشن جاری تها، کوئی چلایا، ہمیں چنتا ہے کچھ حرام جادوں نے کھوٹے پر ہماری مری پتریوں کے ساتھ بھی میل کیا ہے.. یہ بڑا پاپ ہے ہمیں اس کا لگان بھی چاہیئے۔

دھرنے کا نیتا اپنی کہتا رہا، ساتھیو!۔۔۔آج جندگی کے خلاف دهرنا اس لئے دیا جارہا ہے  کہ۔۔ کہ کسی حرام جادے نے میری پتری کو جس کا مہینہ چل رہا تھا اسے زبردستی کرنے کی کوشش میں مار ڈالا۔ برادری والوں نے اسے کل شام میں دفنایا تھا، لیکن رات کو کسی حرام جادے نے قبر سے نکال کر اس کے ساتھ۔۔۔ ‘بوڑھا ناستک رونے لگا، سسکیوں کے بیچ میں منمنایا، ‘اور پھر جاتے سمے کفن بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ کچھ نہیں تو میری پتری کو واپس تو دفن کرتا، میں اس کا بھڑوا نہیں کہ اب اس کا مول مانگوں۔ میری تو ایک ہی پتری تهی، لیکن آپ سب کی تو اور بهی پتریاں ہیں۔’ یہ کہہ کر وہ دھاڑیں مارنے لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاس کھڑے دوسرے دھرم نیتا نے اس سے بھونپو لیتے ہوئے ناستکوں کی  بھیڑ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، آج کے بعد سبھی ناستکوں کے لئے ہمارے شمشان گھاٹ کھلے ہیں۔ آپ میں سے جو سندر اور جوان ناریوں کے باپو ہیں، انھیں آگیا دی جاتی ہے، وہ اپنی پتریوں کو ہمارے شمشان گھاٹ میں جلانے کے لیے لا سکتے ہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply