ہاں ! میں بے وفا تھا۔۔۔چوتھی آخری قسط/عثمان ہاشمی

لگا کہ وقت کچھ تھم سا گیا ہے ۔۔۔۔ میں جو صوفے پر اکڑوں بیٹھا تھا ،ایک دم پیچھے کو ہو لیا اور سر صوفے کی پشت کے ساتھ ٹکا لیا ۔۔ مگر نظریں اس کی نظروں سے آزاد نہ کروا پایا ۔ وہ ایسے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھے جا رہی تھی کہ جیسے کچھ ڈھونڈ رہی ہو ۔ میں نے اس کے نچلے ہونٹ میں جنبش محسوس کی جیسے کچھ کہنے لگی ہے ۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا اور میری ” عینک ” درمیاں سے پکڑ کر اتار لی ۔

میں اس کی اس حرکت پر تھوڑا گڑبڑا سا گیا ، شاید اس نے بھی میری آنکھوں میں ہوتی ” اقرار و انکار ” کی جنگ دیکھ لی اور فورا ً ہی بات کو یوں گھمایا کہ جیسے میں اس کی آنکھوں سے چھلکتے پیغامات سے یکسر بے خبر ہوں ۔۔۔

میرے والد کی وفات سے کچھ روز قبل میں نے ان کے ساتھ جا کر ان کیلئے بالکل ایسی ہی عینک کا ” آرڈر ” دیا تھا عینک مجھے گزشتہ ہفتے ملی لیکن تب تک والد نہیں تھے ، یہ کہتے ہوئی اس کی آنکھیں کچھ بھیگ سی گئیں ۔۔

کیا ؟ میں نے بالکل بے یقینی کے عالم میں پوچھا   اور مجھے ساتھ ہی اندازہ بھی ہو گیا کہ اس کے والد بابت میرے سوال پر وہ کیوں خاموش سی ہو گئی تھی ۔۔ اس نے زبردستی مسکراتے  ہوئے مجھے کہا،ہاں ! پاپا کی دو ہفتے قبل وفات ہو گئی ہے ۔۔اس کے ساتھ ہی وہ اپنے عقب میں کھڑی الماری کے ایک دراز پر جھک گئی جیسے کچھ ڈھونڈ رہی ہو ۔۔

میں نے فیس بک پر ” ڈاکٹر ناصر ” کو تلاش کیا اور میسنجر سے اسے کال کرنے لگا ۔۔وہ ” رند برباد ” کسی نئی حسینہ سے محبت کی ” کاروائیاں ” کرنے کے بعد بے سدھ سویا پڑا تھا مگر بھلا ہو کہ اس نے میسج دیکھ لیا اور مجھے کال ملا لی ۔شاید اس لیے بھی کہ وہ ” ساندرا ” کی آئی ڈی سے کی گئی تھی ۔ دو چار منٹ میں، مَیں نے اسے شروع تا آخر ساری روداد سنائی ۔ مجھے اسے یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑی کہ اسے کیا کرنا ہے ۔۔۔ وہ خود ہی بول پڑا کہ ٹھیک ہے اگر کوئی رش نہ ملا تو تین سے چار گھنٹے میں تمہارے پاس ہوں گا ۔۔خدا حافظ کہنے سے پہلے اس نے اپنی “احساس محرومی” میں لپٹی ہوئی مغلظات بکیں اور فون بند کر دیا ۔۔۔

میں نے کال رکھ کر ساندرا کی جانب نظر اٹھائی تو وہ ہاتھ میں واقعی میری عینک جیسی ہی  ایک عینک   تھامے کھڑی تھی ۔ اس نے دونوں ہاتھوں میں عینکیں تھام رکھیں تھیں اور مسکراتے ہوئے بولی ۔۔۔ اب بتاؤتمہاری کون سی ہے ؟

گو کہ میں اس کے بائیں ہاتھ میں تھامی ” موٹے شیشے ” والی عینک کو دیکھ کر بتا سکتا تھا کہ میری نہیں لیکن میں نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ میری ہے ۔۔۔ وہ پھر سے مسکرائی اور بولی غلط ! یہ پاپا کی تھی اور دوسرے ہاتھ سے میری عینک مجھے لوٹاتے ہوئے بولی یہ رہی تمہاری ۔۔۔

میں نے اس کے پوچھنے سے قبل ہی اسے بتا دیا کہ ناصر سے میری کیا بات ہوئی ۔۔۔ ” گڈ” وہ صرف اتنا بولی اور مجھ سے تھوڑا ہٹ کر میرے دائیں جانب صوفے پر ہی بیٹھ گئی ۔۔۔

اس نے اپنی نظریں سامنے ٹی وی پر گاڑ لیں لیکن واضح تھا کہ وہ کہیں دور سوچوں کے صحرا میں بھٹک رہی ہے ۔۔

میں آٹھ سال کی تھی جب میری ماما کام سے واپس گھر آتے ہوئے ایک ٹریفک حادثے میں فوت ہوگئیں ۔۔۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاپا بھی اسی دن فوت ہوگئے تھے لیکن دو ہفتے قبل تک صرف میرے لیے وہ زندہ رہنے کی ایکٹنگ کرتے رہے ۔۔۔ ماما کی وفات کے بعد پاپا ہی میری ماما بن گئے ، بلکہ وہ میری سہیلی بھی بن گئے ، انھوں نے اپنی بہت محنت سے بنائی ” فرم ” کو صرف اس وجہ سے بیچ دیا کہ ” سیلف ایمپلائمنٹ ” کے ساتھ وہ مجھے ماں اور باپ دونوں کے حصے کا وقت نہیں دے سکتے تھے ۔۔۔ انھوں نے اپنی ہی فروخت شدہ فرم میں جزوقتی ملازمت اختیار کر لی اور باقی کا سارا وقت میرے لیے وقف کر دیا ۔۔۔

میری ماں کی یوں اچانک موت نے کچھ ہفتے مجھے سخت بے چین رکھا لیکن پاپا کی غیر معمولی توجہ اور محبت نے یہ زخم جلد ہی بھر دیا ۔ وہ میرے سامنے کبھی ماما کا ذکر نہیں کرتے تھے لیکن ان کے موبائل میں محفوظ ماما کی تصاویر کو چھپ چھپ کر دیکھتے اور روتے ہوئے میں نے انھیں کئی بار دیکھا ۔۔ لیکن ہم دونوں ایک دوسرے کے سامنے ہمیشہ مضبوط ہی رہے ۔۔

میں دو سال قبل تک پاپا کے ساتھ اسی گھر میں رہتی رہی جہاں میں پیدائش سے رہ رہی تھی ، لیکن دو سال پہلے جب میرا یہاں کی یونیورسٹی میں داخلہ ہوا تو میں یہاں شفٹ ہو گئی اور پاپا گھر میں اکیلے رہنے لگے ۔

گو کہ ان کی باقاعدہ رہائش ” میونخ” میں تھی لیکن وہ زیادہ وقت میرے ہاں ہی پائے جاتے تھے   اور جب یہاں نہ بھی ہوتے تو میرے ناشتے اور شام کے کھانے کا پوچھنے کیلئے بلکہ مجھے کھلانے کیلئے اتنی دفعہ فون کرتے کہ مجھے کبھی نہیں لگا کہ وہ میرے پاس نہیں ہیں ۔

ماما کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے ” سگریٹ نوشی ” شروع کر دی تھی لیکن مجھ سے چھپ کر ، گو کہ میں شروع سے جانتی تھی مگر آخری وقت تک بے خبر ہی بنی رہی ۔۔

وہ جب بھی میرے ہاں آتے تو شام کے بعد ٹھیک اسی جگہ جہاں تمہاری گاڑی کھڑی ہے سپر مارکٹ کی اوٹ میں جا کر سگریٹ پیتے اور پھر کچھ دیر میں واپس چلے آتے اور کہتے جاتے کہ آج واک نہیں ہوئی مجھ سے اس لیے جلدی آ گیا ۔۔۔۔ میں بھی کمال بے خبری کا اظہار کرتے ہوئے مسکرا دیتی ۔۔۔۔ یہ جملہ کہتے ہوئے وہ ہنس پڑی اور پوری گفتگو میں پہلی دفعہ میری جانب دیکھا ۔۔۔ میں کہ صرف سنے جا رہا تھا اور اس کے چہرے کے تاثرات دیکھے جا رہا تھا یہ فیصلہ ہی نہ کر پایا کہ مجھے بھی ہنسنا چاہیے کہ نہیں ۔۔۔

وہ اب تھوڑا نارمل ہو چکی تھی اور مجھ سے بالکل نارمل انداز میں گفتگو کر رہی تھی ۔۔۔۔ جانتے ہو ! پاپا اپنی وفات سے دو دن پہلے جب میرے ہاں آئے تو ٹھیک اسی جگہ بیٹھ کر سگریٹ پیتے رہے جہاں آج رات تم بیٹھے تھے ۔۔۔ میں اپنے ٹیرس پر کھڑی انھیں دیکھے جا رہی تھی اور انتظار میں تھی کہ کب وہ وہاں سے اٹھ کر اوپر کی جانب آئیں اور میں ان کے ساتھ ” کافی ” پیوں ۔۔۔

یہ ہمارا معمول تھا کہ جب بھی وہ میرے ہاں ہوتے ہم اکھٹے شام میں کافی ضرور پیتے چاہے گھر پر یا چاہے باہر ۔۔

وہ جب میرے ہاں سے واپس لوٹے تو اگلے روز مجھ سے کافی لمبی فون پر بات کی ۔۔۔۔ مجھے اپنے لاؤنج میں اپنی کتابیں رکھنے کیلئے ایک الماری چاہیے تھی اور وہ دلانے کی حامی پاپا نے بھر لی تھی وہ مجھے کچھ لنکس بھیجتے رہے اور میں دیکھتی  رہی کہ مجھے کون سی الماری پسند ہے ۔۔۔

اگلے روز مجھے ہسپتال سے کال آئی اور پتہ چلا کہ پاپا کو کام کے دوران ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی ان کی وفات بھی ہو گئی ۔۔۔۔۔۔

یہاں تک بات مکمل کرکے وہ اپنے آنسو نہ روک پائی اور تقریبا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔۔ شاید میری صورت اسے پہلا شخص میسر آیا تھا کہ جس کے ساتھ وہ اپنا درد بانٹ رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے اسے یوں بچوں کی طرح روتے دیکھا تو فورا اس کے تھوڑا قریب ہو کر اسے تسلی دینے لگا ۔۔۔۔ اور یہاں میری سب سے بڑی ” بیماری ” آڑے آئی کہ مجھے آج تک تعزیت کرنا نہیں آتی ۔۔۔۔ تعزیت کے دو بول میرے سارے لفظ کھا جاتے ہیں ۔۔۔۔ میں اسے سوائے اس کے کہ “مجھے افسوس ہوا ” اور کچھ نہ کہہ سکا ۔۔۔۔

اسی بیچ وہ بھی تھوڑی اور میری جانب سرکی اور کچھ کہے ، یا مجھے دیکھے ، یا کوئی جواب دیے بنا میرے کاندھے پر سر ٹکا دیا ۔۔۔۔ شاید میں شدید جھٹکے سے پیچھے کو ہٹ جاتا لیکن اس کی حالت نے مجھے ایسا کچھ نہ کرنے دیا ۔۔۔

میں خاموش ٹی وی پر نظریں جمائے جوں کا توں بیٹھا رہا اور اس نے اپنی آنکھیں موند لیں ۔۔۔۔ وہ اپنے والد کی بابت کچھ اور باتیں کرتے کرتے خاموش ہوگئی ۔۔۔مجھے لگا کہ شاید کسی سوچ میں ہے لیکن دو چار منٹ تک جب وہ کچھ نہ بولی تو مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ سو چکی ہے ۔

اب حالت یہ تھی کہ میں اکڑوں بیٹھا تھا اور سانس بھی دھیان سے لیے جاتا تھا کہ کہیں اس کی آنکھ نہ کھل جائے تقریبا ً۔۔۔۔ تیس سے چالیس منٹ وہ اسی حالت میں سوئی رہی اور میں ان سوچوں میں غلطاں کہ ہمارے ہاں اہل یورپ کے بارے جو قصے مشہور ہیں کہ ” خاندانی نظام تباہ ” نفسا نفسی کا عالم ” والدین اولادوں سے یکسر لاتعلق ” وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور حقیقت اگر کبھی قریب سے دیکھی جائے تو کس قدر مختلف ہے ۔

بُرا ہو ” ناصر ” کا کہ جس نے ساندرا کے میسنجر پر کال کر دی یہ بتانے کیلئے کہ وہ روانہ ہو چکا ہے ، اور اب تک روڈ صاف ہیں یعنی اسے کوئی رش نہیں ملنے والا ۔۔۔

کال کی آواز سنتے ہی ” ساندرا ” ہڑبڑا کر سیدھی بیٹھ گئی ۔۔۔ کیا میں سو گئی تھی ؟ اس نے شرمندگی و ہچکچاہٹ کے کچھ ملے جذبات کے ساتھ مجھے پوچھا ۔۔۔۔ مجھے اس کی آنکھ میں کسی مشرقی لڑکی جیسی حیا اور ادائے شرم دکھائی دی ۔۔۔۔ میں نے صرف اتنا ہی کہا کہ ہاں لیکن بہت کم وقت ۔۔۔ اس نے فورا ًمجھے فون تھمایا اور کہا تمہارے دوست کی کال ہے ۔۔۔

میں ناصر سے بات کر کے جیسے ہی اس کی جانب پلٹا تو وہ شدید بے چینی و اضطراب کے عالم میں بولی اوثمان! مجھے اب یہ مت کہنا کہ میں تین چار گھنٹے سوتی رہی ہوں ۔۔۔۔ اور تمہارا دوست نیچے آ چکا ہے اور اب تمہیں جانا ہے ۔۔۔

میں نے بناوٹی سنجیدگی سے فوراً جواب دیا ۔۔۔اگر ایسا ہی ہو تو ؟
تو میں تمہیں نہیں جانے دوں گی ۔۔۔ وہ کمال ہمت سے بول گئی ۔۔۔ کیا ؟ میں نے عالم استعجاب میں مسکراتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ تم مجھے کیوں نہیں جانے دو گی ۔۔۔ ؟

میں اس کے بدلتے و بے چین رویے پر سخت حیران تھا ۔۔۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ بالکل میرا سامنے آ کر نیچے بچھے کارپٹ پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی
۔۔۔۔۔ شاید تین سے چار منٹ وہ کچھ نہیں بولی جو بولیں اس کی درد و محبت کے خمیر سے بنیں مخمور آنکھیں بولیں ۔۔۔۔

مجھے تم سے ملے کچھ گھنٹے ہوئے ہیں ۔۔۔لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں تمہیں صدیوں سے جانتی ہوں ۔۔۔ جانتے ہو میرے پاپا کی وفات کے دوسرے روز ان کی جیکٹ سے ان کے سگریٹس کی ڈبیا نکلی تو میں نے پہلی دفعہ اپنے ٹیرس پر آ کر سگریٹ سلگائی ۔۔۔۔ میں نہیں پیتی تھی اب پیتی ہوں ۔۔۔۔ جب میں نے شام میں تمہیں ٹھیک اسی جگہ اسی شغل میں مشغول دیکھا کہ جس جگہ میرے پاپا نے مجھ سے چھپ کر سگریٹ پی تھی تو ۔۔۔ نہ جانے کیوں میں کافی دیر تمہیں دیکھتی رہی ۔۔۔

کیا تمہیں مجھ میں اپنے والد دکھ رہے ہیں ؟؟؟؟
میں نے غصے و محبت کے ملے جلے انداز میں اس سے پوچھا تو وہ تقریبا ً چلاتے ہوئے بولی .
Nein man was sagst du ???

ارے نہیں ۔۔۔۔ یہ کیا کہ رہے ہو تم ؟

مجھے تمہارے چہرے ، تمہاری بات ، تمہارے انداز میں صرف وہ اپنائیت دکھی ، اپنا پن دکھا جو صرف کسی اپنے بہت ہے پیارے اور قریبی میں دکھتا ہے ۔۔۔ مجھے تمہیں اپنے گھر میں لاتے کوئی خوف محسوس نہیں ہوا ، تم سے بات کرتے اور تمہارے سامنے روتے ایسا نہیں لگ رہا کہ تم اجنبی ہو۔۔۔۔۔ بتاؤ ! ایسا کیوں ہے ؟؟؟؟

وہ بھیگی آنکھوں سے میرے سامنے بیٹھ کر کچھ ایسے بول رہی تھی کہ اس کا سارا وجود ہی سراپا سوال تھا ۔۔۔۔میں کہ جس کہ دل میں بھی یہ ہی سب سوال تھے ، میں کہ جو شاید اسے پہلی نظر دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں غرق ہو گیا تاھا ، یہ سب ہی کیفیات لیے ہوئے تھا ۔۔۔ اسے کیا جواب دیتا ۔۔۔یا اس سے کیا سوال کرتا ۔۔۔

ایسے مواقع پر مذہب و معاشرے کی قیود پامال ہوا کرتی ہیں مگر میں کہ بہت سے وعدوں میں بندھا تھا ۔۔۔ چاہ کر بھی اسے گلے نہ لگا سکا ۔۔۔ اسے نہ بتا سکا کہ میری حالت بھی کچھ مختلف نہیں ۔۔۔۔

تم چونکہ ابھی ایک صدمے سے گزری ہو ، اور شکستہ دل ہو شاید اس لیے تمہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے ۔۔۔ شاید میری جگہ اگر کوئی اور شخص بھی ہوتا تو تمہیں اس کے لیے ایسا ہی محسوس ہوتا ۔۔۔۔ میں نے اپنے دل کی حالت کو کلیتا چھپاتے ہوئے بلکل بے تاثر چہرے کے ساتھ مگر ہمدردی سے اسے جب کچھ ایسے جواب دیا تو اس نے ” شدت بیچارگی ” سے اپنی بھیگی آنکھیں میری آنکھوں میں گاڑتے ہوئے پھر سے کہا ۔۔۔ تم کیا کہ رہے ہو؟
اب کی دفعہ اس کی آواز میں شکستگی و بیچارگی تھی ۔۔۔تمہیں کیا لگتا ہے ؟ میں انسانوں میں نہیں رہتی یا انسانوں کے ساتھ کام نہیں کرتی کہ مجھے تم پہلے انسان دکھے اور میں تمہارے بارے ایسا سوچنے لگی ؟

مجھے یہ سب ان بیسیوں لوگوں میں سے کسی اور کے بارے کیوں محسوس نہیں ہوا جن کے ساتھ میں پڑھتی یا کام کرتی ہوں ؟ صرف تم ہی کیوں کہ تم سے تو پہلے کبھی ملی تک نہیں؟
وہ صرف سوال نہیں کر رہی تھی بلکہ مجھے اپنی محبت کی دلیلیں دے رہی تھی ۔۔۔ اور میں کہ جسے ” نظر شناسی ” کا دعوی ہے کب کسی دلیل کا محتاج تھا ، کس جذبے کا اظہار تھا جو اس کی نظروں سے ابھی تک نہ ہو پایا تھا ، یا کون سی” ادائے فریفتگی ” تھی جو اب تک اس سے سرزد نہ ہوئی تھی ۔۔۔ میں کہ سب جانتا تھا ، سب سمجھ رہا تھا ، اسے صرف ” واپسی ” کا کوئی معقول رستہ فراہم کر رہا تھا ۔۔۔۔ گو کہ معلوم تھا کہ اس ” دشت غیر مہمان نواز ” سے آج تک کسی آنکھ نے کوئی مسافر ” ثابت و سالم ” لوٹتے نہیں دیکھا ۔۔۔ اور جو لوٹتے دکھے بھی وہ صرف ” وجود ” تھے اور ” بے روح ” تھے ۔

میری حالت کہاں مختلف تھی ، وہ سر تا پا خوبصورتی کا پیکر تھی، اپنے ساڑھے پانج فٹ کے وجود میں وہ سب خواص لیے ہوئے تھی کہ جو کسی بھی با ذوق شخص کو اس کا دیوانہ کر دیں ۔۔۔۔ اور جس طرح سے وہ پچھلے کئی گھنٹوں سے میرا خیال رکھ رہی تھی اور دل و جان سے میری مہمان نوازی کیے جا رہی تھی اس کی یہ سب ادائیں اس کی ” سیرت ” اور ” باطن ” کی خوبصورتی پر بھی دال تھیں ۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر اس کی ” دل شکستگی ” جو مجھ ایسے ” شکستہ دل ” کے ساتھ خوب میل کھاتی تھی ۔۔۔ یہ سب عوامل مل کر مجھے اس کا گرویدہ بنا چکے تھے ۔۔۔ میں صرف ایک ” لفظ اقرار ” کہ کر اسے اور خود کو ” شاد ” کر سکتا تھا مگر کیسے کرتا ؟

میں ” اقرار ” کی قیودات اور مطالبات سے مکمل واقف تھا ، مجھے علم تھا کہ یہ ” اقرار ” ابتدا ثابت ہو گا اس ” انتہا ” کا کہ جس پر میں اسے کبھی نہیں لے جا پاؤں گا ۔

وہ اب تک میری جانب سوالیہ نظروں سے تکے جا رہی تھی ، وہ بالکل میرے سامنے نیچے اس طرح سے بیٹھی تھی کے اس کا چہرہ میرے سینے کے  سامنے تھا ، اور وہ سر اوپر کو اٹھائے ایسے میرے جواب کی منتظر تھی کہ جیسے بوڑھا کسان خشک سالی کی بنا پر اپنی اجڑتی کھیتی کے بیچ بیٹھا ہو ، اور دامن اٹھا اٹھا کر خدا سے مانگنے کے بعد اب ” امید طلب ” نگاہوں سے اوپر آسمان کی جانب دیکھ رہا ہو کہ اب بارش آئی کہ اب آئی ۔۔۔

میں کہاں اتنا سنگ دل تھا کہ اپنی اس مہربان کو مزید جھٹکتا ، لیکن اتنا باہمت بھی نہیں تھا کہ ” کیفیت دل ” اسے بتا دیتا ، مجھے کوئی بیچ کی راہ دیکھنا پڑی ۔۔۔

میں نے خود کو آہستہ سے صوفے سے اتار کر اس کے سامنے بالکل اسی کے ہی انداز میں بٹھا دیا ، میں اسی کی طرح گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا بالکل اس کے سامنے اب میں اور وہ  آمنے سامنے تھے ، میں نے اپنے دونوں ہاتھ آہستگی سے اس کے کاندھوں کے بیرونی حصوں پر رکھے اور ہلکا سا دبایا وہ میرا اشارہ سمجھ گئی اور بالکل ” تشہد ” کی سی کیفیت میں دو زانوں بیٹھ گئی ، میں بھی ویسے ہی بیٹھ گیا ، وہ کچھ نہیں کہہ رہی تھی صرف اس کی آنکھوں سے وقفے وقفے سے آنسو نکل رہے تھے جنھیں وہ اپنی ہتھیلیوں سے پونچھے جا رہی تھی ، اس نے اپنی نظریں اپنے گھٹنوں پر گاڑ رکھی تھیں ، وہ صرف اور صرف میرے جواب اور رد عمل کی منتظر تھی ، بہت کٹھن تھا وہ لمحہ کہ میرا کوئی بھی عمل یا تو اسے بری طرح رنجیدہ کر سکتا تھا یا پھر امید کی چھتری تلے کسی سراب میں مبتلا کر سکتا تھا ، مجھ سے اس کے معصوم اور گلاب جیسے چہرے پر چھائی یہ اداسی و بے بسی دیکھی نہیں جا رہی تھی ، گو کہ اس سے کوئی لمبی شناسائی نہیں تھی لیکن پچھلے تھوڑے سے وقت میں وہ اپنی محبت کا بیج میرے دل میں کچھ اس طرح سے بو چکی تھی کہ میں چاہ کر بھی خود کو یہ نہیں سمجھا پا رہا تھا کہ یہ صرف اس کی یک طرفہ محبت یا احساسات ہیں ۔۔۔ اس کا ایک ایک آنسو میرے دل پر خنجر مانند وار کر رہا تھا ۔۔۔ میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ خود کو سنبھالوں یا اسے سنبھالوں ۔۔۔

میں نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا ، اسے مجھ سے اتنی ” خطا” کی شاید امید نہیں تھی وہ بلک کر رو پڑی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو میرے ہاتھوں پر رکھ لیا جیسے اسے ڈر ہو کہ  میں کہیں ہاتھ واپس نہ اٹھا لوں ۔۔۔۔ میں نے نرمی سے اپنے ہاتھ اس کے چہرے سے واپس اٹھائے اور اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے ۔۔۔۔ وہ مجھ سے کچھ سننے کو بے تاب تھی بلکہ شاید وہ پچاس فیصد اندازہ بھی لگا چکی تھی کہ میں کیا کہنے جا رہا ہوں ۔۔۔ اس کے چہرے پر اب تذبذب کی جگہ قدرے طمانیت کے آثار ابھر رہے تھے ، میں اس کے مخملی ہاتھوں کو پوری احتیاط سے تھامے ہوئے آہستہ آہستہ کھڑا ہو گیا ، وہ بھی میری تقلید میں کھڑی ہو گئی ، کچھ لمحوں کیلئے میں نے زبان پر تو قابو رکھا کہ کچھ نہ کہوں مگر نظروں کو آزاد چھوڑ دیا ، وہ جواب جو اس کی سماعتیں کبھی نہ سن پائیں آنکھوں ہی آنکھوں میں ” مراحل انتقال” طے کر گیا ۔۔۔ وہ کہنے کو تو کچھ ہی لمحے تھے ، مگر ” بالحاظ لطافت ” صدیوں پر محیط تھے ، میں تو کوئی درمیانی صورت نکالنے کا خواہاں تھا مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا کہ میں ” ساندرا “کو کچھ ایسا جواب دوں کہ وہ عمر بھر “میان اقرار و انکار ” اک ایسے بھنور میں گھومتی رہے کہ جس کی انتہا تو کئی نہیں ہوتی لیکن ہر آتا چکر جاتے چکر سے کہیں زیادہ تلخیاں لے کر آتا ہے

سو امر قدرت ہی یہ تھا کہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے کھڑا تھا ، وہ دھیرے سے آگے بڑھی ، میں جان گیا کہ وہ اپنا سر میری سینے پر ٹکانے جا رہی ہے لیکن یہ میرے لئے ناقابل قبول تھا کہ میں اسے صرف ” کچھ ” دیر کیلئے اپنی پناہ میں لوں ۔۔۔۔اور پھر چھوڑ دوں ۔۔۔ میں عمر بھر اسے اپنی بانہوں میں نہ رکھ سکتا تھا اور نہ ہی کسی جھوٹی امید کے چکر میں اسے یا خود کو ” ابتلائے سراب ” کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ  اس کا ” وجود ” بھی میرےوجود کے اتنے قریب آجاتا کہ جتنی قربت اس کی “روح” کو میری روح سے ہو چکی ۔۔۔ میں نے اسے  دونوں ہاتھوں سے ویسے ہی پکڑے ہوئےاس کے بیڈ روم کی جانب گھسیٹ لیا ۔۔۔۔ قبل اس کے کہ وہ میری اس حرکت سے کوئی ” اور ” مقصد اخذ کرتی میں نے اسے کہہ دیا کہ ۔۔۔ چلو تمہارے ” ٹیرس ” پر چلتے ہیں ۔۔۔۔

وہ ایک دم بولی مگر تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ۔۔۔ہم یہاں ہی بات کرتے ہیں ۔۔۔ نہیں تمہارے پاپا کا نسخہ میری طبیعت میں کافی بہتری لے آیا ہے میں نے مصنوعی ہنسی کے ساتھ کہا تو وہ بھی مسکرا پڑی ۔۔۔۔

میں خود کو اور اس کو ” جذباتیت ” کی اس کیفیت سے کسی طور نکالنا چاہ رہا تھا کہ جس میں ہم پچھلی کچھ دیر سے تھے ، وگرنہ پیمانہ صبر کے چھلکنے کو بے تاب تھا ۔

وہ پیچھے کو پلٹی اور راہداری سے دو جیکٹیں اٹھا لائی ایک میرے لیے اور ایک خود کیلئے ۔۔۔۔ مجھے اسے کہنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی کہ اسے مزید کیا ساتھ لانا ہے ۔۔۔ وہ لائیٹر اور سگریٹ لے آئی تھی ۔

میں ناصر کے آنے تک کا وقت یہاں ہی گزارنا چاہتا تھا ، ہم قریب دو گھنٹے ٹیرس پر کھڑے رہے ۔۔۔۔ میں نے برابر احتیاط رکھی کہ  اس کا چہرہ نہ دیکھوں ۔۔۔ میں اسے اپنی بابت بہت کچھ بتاتا رہا اور وہ اپنے کام کے حوالے سے گفتگو کرتی رہی ۔۔۔

نہ جانے اسے کہاں سے لگا تھا کہ میں ” سنگل” ہوں ۔۔۔ اور معلوم نہیں میری کون سی حرکت کو اس نے ” اقرار ” سمجھ لیا تھا وہ کمال اطمینان سے آخری کچھ منٹوں میں ” ہمارے ” مستقبل بارے بولنے لگی ۔۔۔۔ ” اب تو مجھے پاکستانی کھانے بنانا سیکھنا پڑیں گے ” ، ” تم جب آؤ تو گاڑی نیچے گیراج میں کھڑی کر لینا ” وغیرہ وغیرہ

اس کی اطمینان اور خوشی سے بھرپور باتیں جیسے میرے دل پر خنجر برسا رہی تھیں ۔۔۔ کیا یہ پاگل ہو گئی ہے ؟ اسے کیوں لگ رہا ہے کہ میں اس کا ” بوائے فرینڈ ” بننے جا رہا ہوں ۔۔۔ مجھ میں ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی کہ اس ٹوک دوں اور بتاؤں ۔۔۔۔ میرے گھر میں ” کوئی ” میرا منتظر ہوگا ۔۔۔۔ میں اکیلا نہیں ہوں ۔۔۔ میں کبھی اس کا نہیں ہو سکتا ۔۔۔ مگر کہاں ؟ کیسے ؟ کہاں سے بات شروع کرتا ،کیسے کہتا ؟ وہ خوشی میں سرشار تھی ، ہنس رہی تھی ۔۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیسے اسے رلاؤں ۔۔۔

تم اپنے بال کبھی مت سنوارنا ۔۔۔۔۔ مجھے ایسے بکھرے بال بہت اچھے لگ رہے ہیں ۔۔۔ وہ یہ کہہ کر میری طرف دیکھنے لگی ۔۔۔ میں جو کب سے خاموش تھا ۔۔۔ صرف اتنا ہی بولا ۔

چلو ساندرا ! آخری سگریٹ سلگائیں۔۔۔۔ کیا مطلب ؟ وہ تقریباً چلائی ۔۔۔ میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا ۔۔ کچھ دیر میں ناصر پہنچتا ہوگا ۔۔۔ پھر میں فورا ًنکلوں گا صبح میری اور میری ” وائف ” کی ایک جگہ اکھٹی اپائنٹمنٹ ہے ۔

مجھے معلوم تھا اس کا رد عمل کیا ہوگا ۔۔۔۔ وہ ایک دم بیٹھ گئی ۔۔۔ بالکل خاموش ۔۔۔ جیسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔۔۔۔۔۔ معلوم نہیں کتنی دیر لیکن جب تک مجھے نیچے ” ناصر ” کی گاڑی رکتی نہیں دکھی تب تک نہ وہ کچھ بولی نہ میں کچھ مزید بولا ۔۔۔ شاید میری ایک ” سچائی ” نے اس کو توڑ ڈالا تھا ۔۔۔۔۔۔

Sandra! Nasir ist schon da …

ساندرا ! ناصر پہنچ چکا ہے ۔۔۔ میں نے اسے دیکھے بنا کہا تو وہ آہستہ سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔

واقعی تم نے جو کہا وہ سچ تھا ؟ وہ کچھ ایسے انداز میں پوچھ رہی تھی کہ جیسے اسے کہیں نہ کہیں امید ہو کہ میں کہ دوں گا کہ نہیں ! مذاق تھا ۔

ہاں ساندرا ! یہ سچ ہے ، میں کسی اور سے کیے وعدوں میں بندھا ہوا ہوں میں چاہوں بھی تو کوئی نیا وعدہ نہیں کر سکتا ۔۔۔۔

اس نے سن لیا ۔۔۔مگر کچھ نہ بولی ۔۔۔۔

میں تمہارے لیے چائے بناتی ہوں ایک دفعہ اور پی لو پھر جاؤ۔۔۔ مجھے اس کے جملے کے آخری لفظ کی آواز کسی کنویں سے آتی سنائی دی ۔۔۔

نہیں! مجھے جلدی نکلنا ہے اب میں ٹھیک ہوں ۔۔۔ مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ اسے دیکھتا ۔۔۔ ورنہ بندھ ٹوٹ جاتا شاید اور دل کی جو کیفیت میں اب تک زبان پر نہیں لا رہا تھا شاید آنکھوں سے بہہ جاتی ۔۔۔

اس نے اصرار نہیں کیا ۔۔۔۔
ہم کمرے میں لوٹ آئے ، میں نے جوتے پہنے اور اس سے کہا تم یہاں ہی رکو باہر سردی ہے میں چلا جائوں گا ، اور اس کی جیکٹ اسے لوٹانے کیلئے اس کی طرف بڑھائی ۔۔۔

اس نے جیکٹ نہیں لی ۔۔۔۔ اور آخری امید کے طور کہنے لگی نہیں اوثمان ! تم یہ جیکٹ پہن کر جاؤ ۔۔۔۔ بعد میں مجھے لوٹا دینا ۔۔۔

کب ؟ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کیا ۔۔

ساندرا ! میں کبھی نہیں واپس آؤں گا ، میں تم سے کوئی رابطہ نہیں رکھوں گا ۔۔۔ اور تم بھی مجھے اس آزمائش میں مت ڈالنا مجھ سے کبھی رابطہ مت کرنا ۔
لیکن تمہاری قسم ! تمہارے ساتھ بتائے کچھ گھنٹے کبھی نہیں بھول پاؤں گا ۔۔۔۔ وہ شاید یہ ہی سننا چاہتی تھی پھوٹ پھوٹ کر روپڑی اور تقریباً مجھ پر گر سی گئی ۔۔۔۔ میں نے اس کو آرام سے پیچھے کیا ۔۔۔ اور ” خدا حافظ ” کہے بنا ہی تیز قدموں سے ” لفٹ ” میں داخل ہو گیا ۔۔۔۔

نیچے ناصر انتظار میں تھا ، میں نے اس سے صرف اتنا کہا مجھے چابی دو ۔۔۔۔ اور کوئی بات کیے بنا اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔وہ پنجابی میں پتہ نہیں کیا بڑبڑانے لگا لیکن یقیناً کچھ اچھا نہیں بولا ۔۔۔ میں نے گاڑی موڑتے ہوئے جان کر اوپر ٹیرس کی جانب نہیں دیکھا کہ مجھے معلوم تھا کہ وہ وہاں کھڑی ہوگی ۔۔۔ اور مجھ میں ہمت نہ تھی کہ اسے آخری نظر دیکھ پاتا کیوں کہ میں بے وفا تھا ۔

اس کی جیکٹ اب بھی میرے دفتر میں میری نشست کے عقبی حصے کے ساتھ لٹکی رہتی ہے ۔۔۔۔ جب جب اس کی خوشبو محسوس کرتا ہوں ۔۔۔ تو بس یہ ہی کہتا ہوں ۔۔۔ ساندرا ! ہاں میں بے وفا تھا ۔۔۔ کہ کبھی پلٹ کر تمہارا حال تک نہ پوچھا ۔۔۔۔۔ اور تم با وفا تھی کہ میری خواہش کا مان رکھا اور مجھے کسی بھی طرح دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش نہ کی ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شاید وہ آج بھی اسی دریچہ نما ” ٹیرس ” پر گہری راتوں میں بیٹھتی ہوگی ۔۔۔اور میرے بارے سوچتی ہوگی ۔۔۔ مگر میری خواہش کے احترام میں مجھ سے رابطہ نہ کرتی ہوگی ۔۔۔۔ٹھیک میری ہی طرح کہ جب بھی کہیں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا چہرے سے ٹکرائے تو ۔۔۔۔ اسی ” ادرک ” والی چائے کی طلب ہوتی ہے مگر کچھ ” وعدوں ” کے احترام میں کبھی اس جانب رخ کرنے کا بھی نہ سوچا ۔۔۔کہ شاید اب کی دفعہ واپسی نہ ہو پائے ۔

Facebook Comments

عثمان ہاشمی
عثمان ھاشمی "علوم اسلامیہ" کے طالب علم رھے ھیں لیکن "مولوی" نھیں ھیں ،"قانون" پڑھے ھیں مگر "وکیل" نھیں ھیں صحافت کرتے ھیں مگر "صحافی" نھیں ھیں جسمانی لحاظ سے تو "جرمنی" میں پاۓ جاتے ھیں جبکہ روحانی طور پر "پاکستان" کی ھی گلیوں میں ھوتے ھیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply