چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔۔۔سائرہ نعیم/اختصاریہ

چین کے انتہائی مغربی صحرا کنارے لوہے کے تاروں سے گھری ایک نمایاں عمارت کھڑی نظر آتی ہے۔ جہاں بڑے بڑے لال چہرے چینی زبان سیکھتے، قانون پڑھتے، لیکچرز سنتے، ملی ترانے گاتے اور خود تنقیدی مضامین لکھتے نظر آتے ہیں۔ یہاں عام افراد کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہ ہوٹن کا قید خانہ ہے۔  یہاں سیرو تفریح ممنوع ہے۔ تمام قیدی یغور مسلم ہیں اور یہی ان کا جرم ہے۔  ۴۱ سالہ عبدالسلام مہمت نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ پولیس نے ان کو ایک جنازے پر قرآن پاک تلاوت کرنے پر گرفتار کرلیا تھا۔ یہ کوئی انتہا پسندی ختم کرنے کی جگہ نہیں بلکہ یہ اپنی نسلی شناخت یغور مٹانے کی جگہ ہے۔ ہم لوگ ایک پوشیدہ فوج کے محاصرے میں رہتے ہیں۔ان سب کا مقصد اسلام کی عقیدت کو ختم کرنا ہے ’۔موجودہ ہوٹن میں لوگ سیکولر، نقاب و ڈاڑھی کی پابندی سے آزاد، مسجدوں میں جانے کے لئے رجسٹریشن کروا کر کیمروں کے سامنے عبادت کرتے ہیں۔کہیں بھی  آنے جانے میں یوغر افراد کو شناخت کے سخت مراحل سے گزارا جاتا ہے۔
چین کافی عرصے سے سنکیانگ میں اسلام کو دبانے اور اپنا رسوخ بڑھانے پر کوشاں ہے۔ جس کے لیے وہ یغور قوم پر اس ڈوب کے ظلم کرنے پر اتر آیا ہے۔ سنکیانک کی آبادی کا بیشتر حصہ مسلم نسل پرست ہیں۔جن کی تاریخ میں مذہب، زبان، تہذیب اور کہیں کہیں آزادی کی تحاریک نے چینی بادشاہوں اور بیجنگ کو غیر محفوظ کردیا ہے۔ ہم اسلام اور علیحدگی کی جنگ جیت چکے ہیں ۔ چینی حکومت کا ہوٹن میں یہ اعلان اس بات کا ثبوت ہے۔  بڑے پیمانے پر یغور مسلمانوں کی گرفتاریوں کے علاوہ ارباب اختیار نے لوگوں کے گھروں میں شک کی بنیاد پر کیمرے بھی نصب کئے ہیں۔ ایک طرف یہ ستم اور دوسری طرف چین نے ان سب کی اقوام متحدہ میں تردید کی ہے۔ حالاں کہ حکومت کے اپنے ذرائع ان سب کی تصدیق کرتے ہیں۔ اخبار نیو یارک ٹائمز نے کچھ لوگوں کے خفیہ انٹرویوز کئے جن کو زبردستی ان کیمپس میں رکھا گیا اور عقائد بدلنے کے معاہدے پر دستخط لئے گئے۔ سنکیانگ میں اب  بڑے پیمانے پر ایسے اداروں کا قیام وقوع ہورہا ہے جہاں تعلیم دینے کے نام پر تبدیلی عقیدہ اور ہدف بنا کر مسلم یغور کو قید کرنا شامل ہے۔
مسلم ممالک خصوصاً پاکستان کو اس معاملے میں مداخلت اور احتجاج کرنا چاہیے۔ کیونکہ ایک تو وہ مظلوم مسلمان ہیں دوسرے ہمارے پڑوسی ہیں۔ بظاہر چین کا رویہ ایک امن پسند، دوست اور مددگار کا لگتا ہے لیکن درون خانہ معاملے  ذرا پیچیدہ ہیں اور ان پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔  (نیو یارک ٹائمز: ۸ ستمبر ۲۰۱۸ سے ماخوذ)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply