اللہ کے مہمان۔۔نعیم اختر ربانی

مہمان اللّٰہ کی رحمت ہوتے ہیں اور مہمان کی خاطر مدارت کرنا ، عزت افزائی کرنا ہر انسان اپنا اوّلین فرض سمجھتا ہے۔ مہمانوں کی آمد پر گھر والوں کی باچھیں کھل جاتی ہیں ، خوشی سے پھولے نہ سماتے ہیں ، اپنی قسمت پر عش عش کرتے ہیں اور تواضع کے دسترخوان بچھا کر رحمت خداوندی کا خیر مقدم کرتے ہیں ( مذکورہ بالا حالت چند کشادہ دل انسانوں کی ہے کنجوس آدمی  اس خصلت کو دیکھ کر شادماں نہ ہوں ۔۔۔ ڈوب مرنے کا مقام ہے)۔ مہمانوں پر خرچ کیے جانے والے مال کی پوچھ گچھ بھی نہیں ہو گی۔ پہلے پہل جب مکان کچے اور لوگ سچے ہوا کرتے تھے۔ اپنے خرچ کے لیے دن رات محنت کر کے، خون پسینہ بہا کر جو دو چار کوڑیاں جمع کرتے وہ بھی مہمانوں پر پانی کی طرح بہانے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ نصف لیل کو اگر کوئی مہمان ٹپک پڑتا تو خواتین چولہا گرم کرنے میں تاخیر نہ کرتیں بلکہ ایک معمر خاتون تقسیمِ ہند سے پہلے کے واقعات سناتے ہوئے کہنے لگیں ” رات کو جب کوئی مہمان آتا تو خواتین کھانا پکاتے وقت شکرانے کی تسبیح بھی پڑھا کرتیں” جبکہ موجودہ صورتحال کافی گھمبیر ہے۔ادھر گھر میں کسی مہمان کے پاؤں پڑیں ،ادھر حلقہ خواتین سے صلواتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایک صاحب کی حالت بھی کچھ اس طرح کی تھی تو میں نے ان کے کان میں آہستہ سا کہا ” مہمان اپنا رزق ساتھ لاتا ہے ” فرمانے لگے ” پھر بھی مجھے اپنے حصے کا کھلانا پڑتا ہے”۔۔

حلقۂ مدارس میں رب کریم کے مہمان بھی کچھ ایسے کر و فر سے رہتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر دل ” سبحان اللّٰہ ” کی صدائیں بلند کرتا ہے۔ ایک صاحب جو ایک دینی ادارے کے منتظم تھے طلباء کو وعظ فرماتے ہوئے کہنے لگے” آپ لوگ( مدارس والے) گویا جنت میں رہتے ہیں اس انعام پر خداوند کا شکر ادا کیا کریں” طلباء اپنی خصلت سے مجبور تھے فوراً اعتراض داغ دیا ” حضرت! ہم یہاں اتنی پابندیوں میں رہتے ہیں۔ اہلِ فردوس تو آزادنہ طور پر جہاں چاہتے ہیں چلے جاتے ہیں” حضرت منتظم صاحب نے نہایت عمدہ جواب دیا ” آپ لوگ دنیا کے معاملات سے ناواقف ہوتے ہیں بلکہ روزمرہ کی استعمال ہونے والی اشیاء کے نرخ کا علم بھی نہیں ہوتا تو گویا آپ جنت میں قیام پذیر ہیں جہاں پر خرید و فروخت ، کمانا پکانا وغیرہ سے انسان مبراء ہوگا ۔

حالاتِ حاضرہ میں جہاں ایک گھر میں رہائش پذیر چار چھ افراد کا خرچ برداشت کرنا نہایت مشکل ہے۔ دو تین کمانے والے بھی اگر ایک گھر میں ہوں تب بھی کہیں نہ کہیں شکوۂ تنگ دستی ضرور وارد ہوتا ہے۔ ملازمین اس تگ ودو میں ہوتے ہیں کہ کہیں پارٹ ٹائم کام کرنے کا موقع مل جائے بس پھر ہاتھ سیدھا ہو جائے گا۔ جبکہ اہل مدارس کی فہرست میں کھانے کا نمبر تقریباً آخر میں ہوتا ہے ۔ کھانے کی فکر سے تو گویا آزاد ہوتے ہیں صبح، دوپہر ، شام تازہ گرما گرم کھانا کھانے کو ملتا ہے۔ اور اس قدر عمدہ ہوتا ہے کہ آپ کبھی اتفاق سے کھا لیں تو انگلیاں چاٹتے رہ جائیں گے۔ باسی کھانے کا تصور تو مدارس کی دہلیز سے باہر ہی رہتا ہے۔ یہ قال اللہ اور قال الرسول کے خدمت گاروں کے لیے عطیۂ خداوندی ہے جو کہ مدرسوں کی چار دیواری میں رب العالمین کے مہمان ہوتے ہیں اور فرمان نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا مفہوم ہے کہ” جو گھر سے تعلیم کے حصول کے لیے نکلا اور اسی راستے میں اسے موت نے آ گھیرا تو وہ شہید ہے” جب بھی مدارسِ دینیہ کے متعلق کسی دنیادار سے گفتگو ہوتی ہے اور جب انہیں اندرونی حالات اور معاملات کا علم ہوتا ہے تو ان کی انگشت لبوں پر حیرانگی کے لمحات کا تصور پیش کر رہی ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک صاحب جو کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے سے تعلق رکھتے تھے سفر میں میری بائیں طرف والی نشت پر براجمان تھے ۔گپ شپ کے دوران جب انہیں بتایا کہ جس مدرسے میں مَیں زیر تعلیم ہوں وہاں تقریباً تین سو سے زائد طلباء مفت تعلیم اور دیگر مراعات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ تو انہوں نے پہلا سوال یہ کیا کہ ” ہم ایک گھر کا نظام بمشکل چلاتے ہیں وہ اتنے طلباء کو اتنی مراعات کیسے دیتے ہیں؟ میرا ایک جملہ ان کے دیگر سوالات کا پیشگی جواب بنا کہ ” اللّٰہ تعالیٰ اپنے مہمانوں کی خود خاطر مدارت کرتے ہیں ہم جس کی ضیافت سے کھاتے ہیں اس کے خزانوں کا کوئی مثل نہیں”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔