اللہ کریم کی فرمانبرداری اور سکون۔۔ شاہد محمود ایڈووکیٹ

روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ بچے کو اس کے والدین غصہ ہوں تو وہ انہی کی گود کی طرف پناہ لینے کے لئے بھاگتا ہے اور اپنے والدین ہی سے لپٹ لپٹ جاتا ہے۔ والدین کی گود اس کے لئے ساری کائنات میں محفوظ ترین جگہ ہوتی ہے۔ والدین کے ذریعے ہی وہ اس کائنات سے رابطے میں ہوتا ہے اور والدین سے ہی اسے کائناتی یا اجتماعی شعور ملتا ہے۔

دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مکمل عافیت اللہ کریم کی پناہ میں ہے۔ کسی کی بھی پناہ حاصل کرنے کے لئے اس کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا ہوتی ہے۔ جب اولاد نافرمان ہو جائے تو والدین بھی تعلق توڑ کر اسے عاق کر دیتے ہیں۔ پوری کائنات اللہ کریم کے طابع ہے۔ انسان کو جو خیر و شر میں چناو کا اختیار دیا گیا ہے تو انسان خیر کے چناو پر اللہ کریم کی پناہ میں داخل ہو جاتا ہے اور شر کا ساتھ دینے کی صورت وہ شیطان لعین کا کھلونا بن جاتا ہے۔

اس تمہید کے بعد بات یہ عرض کرنا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض گھرانے، بعض لوگ غربت و کم وسائل میں بھی خوشیوں بھری زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اور بعض لوگ دولتمند ہوتے ہوئے بھی بے سکون ہوتے ہیں۔ تو اس کا راز بزرگ یہ بتاتے ہیں کہ جو اللہ کریم کی پناہ میں آ جاتے ہیں وہ پر سکون رہتے ہیں اور جو ابلیس لعین کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں وہ بے سکون رہتے ہیں۔ گھروں کا سکون تک چھن جاتا ہے۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ اگر ان کا گھوڑا یا اونٹ بھی سرکشی کرتا تو وہ اپنے اعمال پر نگاہ کرتے کہ کہیں ہمارے سے بھول چوک میں اللہ کریم کے کسی حکم کی خلاف ورزی تو نہیں ہو گئی؟ اللہ کریم اپنے فرمانبردار بندوں کی محبت اپنی مخلوق میں ڈال دیتا ہے اور نافرمان بندوں کے تو اپنے گھر والے اذیت کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس لئے زندگی میں اگر پریشانیاں و بے سکونی ہے تو اللہ کریم کی پناہ میں آ جائیں اور اپنے معمولات پر نظر دوڑا کر اللہ کریم کی ناپسندیدہ چیزوں، مصروفیات و اعمال سے دور ہو جائیں۔ جو لوگ اپنے کاروباری حالات یا گھر والوں اور دوست احباب کے رویے سے نالاں ہیں انہیں وقت نکال کر اپنی اداؤں پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ وہ کس کس جگہ اللہ کریم اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کے مرتکب ہو رہے ہیں؟ انسان کے اپنوں کی سرد مہری اور نافرمانی انسان کے لئے تکلیف دہ ہے تو اللہ کریم کیا اپنے بنائے خلیفہ کی زمین پر نافرمانیوں سے خوش ہوتا ہو گا؟ البتہ اللہ کریم کے حضور توبہ کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں۔ اللہ کریم تو ہے ہی پیار ہی پیار۔ بس اس کی طرف رجوع کر کے چلنے کا ارادہ بھی بنا لیں تو راستے و اسباب وہ خود بخود پیدا کر دیتا ہے۔
اللہ کریم کو اپنی طرف رجوع کرنے والے اور اس کا شکر بجا لانے والے لوگ بہت پسند ہیں۔ شکر اللہ کریم کے قرب کا سب سے آسان ذریعہ ہے۔ شکر کا عملی مفہوم یہ ہے کہ ہم اللہ کریم کے عطاء کردہ وقت، صلاحیتوں اور وسائل کو پریشان حال ساتھی انسانوں اور مخلوقات کی خدمت میں لگا دیں اور لوگوں کی زندگیوں میں دکھوں کے جو اندھیرے ہیں ان کو اپنی خدمت سے اجالوں میں، خوشیوں میں، راحتوں میں بدلنے کی کوشش کریں۔ اسی لئے اقبال رح نے کہا تھا؛
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھِرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

اور اللہ کی طرف رجوع کا عملی مفہوم یہ ہے کہ ہم اگر کسی کی حق تلفی، پریشانی یا کسی بھی قسم کے نقصان و دل آزاری کا باعث بنے ہیں تو ہم اس کی عملی طور پر تلافی کریں، نقصان پورا کریں اور دل آزاری کی معافی مانگ لیں۔

درج ذیل خوبصورت دعا پر تحریر ختم کرتا ہوں؛

الٰہی میں تیرے غصے سے تیری رضا کی پناہ مانگتا ہوں اور تیری بخشش کی تیرے عذاب سے اور تجھ سے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں ۔مجھ میں طاقت نہیں کہ میں تیرے شایان شان تیری تعریف کر سکوں تو ایسا ہی ہے جیسی کہ تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply