علاج بالکتاب /ناصر عباس نیّر

کتاب باقاعدہ معالج ہو سکتی ہے، اس کا یقین ہر اس شخص کے دل کے کسی کونے میں موجود ہوتا ہے جو کتابیں ” اپنے” لیے پڑھتا ہے۔
وہ دکھاوے، رعب ڈالنے، دھاک بٹھانے، ان تھک قاری کے طور پر شہرت و عزت پانے کے لیے نہیں، یعنی دوسروں کے لیے نہیں پڑھتا اور نہ محض عادت کے تحت پڑھتا ہے۔ عادت کے تحت پڑھنے سے، آدمی کتاب سے کچھ اخذ نہیں کرتا، محض اس بے چینی کا مداوا کرتا ہے جو “عادت پوری” نہ کرنے سے ہوتی ہے۔
اپنے لیے پڑھنے کا مطلب، اپنے کسی زخم، کسی الجھن، کسی جذباتی صدمے، تعلقات کی شکست وریخت، کسی نفسی پیچیدگی، کسی روحانی کرب، بے معنویت، بیگانگی، لغویت، کا سامنا کرنے اور نجات پانے کی سعی کرنا ہے۔ ان تمام صورتوں میں آدمی ( بہ طور معالج)، آدمی کو دھوکا دے سکتا ہے، ایک کتاب نہیں۔ علاج بالکتاب (bibliotherapy)محض ایک خیال نہیں، ایک حقیقت ہے۔
علاج بالکتاب اگرچہ مخصوص کتابوں پر مبنی نہیں، تاہم ادب کی کتابیں اس میں زیادہ کارگر ثابت ہوئی ہیں کہ وہ ہم انسانوں کی عام روزمرہ زندگی کی ملامت کرتی ہیں نہ اس میں ملنے والے دکھوں کی نفی کرتی ہیں، نہ اس سے جڑی لغویت ہی کا انکار کرتی ہیں اور نہ اسے ترک کرنے پر مائل کرتی ہیں۔ آدم کے قصے کو اسی زمین کا قصہ سمجھتی ہیں اور آدم کے درد و الم کا چارہ بھی اسی خاک اور انھی خاک بسر لوگوں میں تلاش کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ خاک کے خوابوں میں افلاک بستے ہیں مگر ان افلاک کی آگہی ” خاک آلود” ہوا کرتی ہے۔ ادب کا آدم کہیں بھی جائے، اپنی خاک، اپنے انگار، اپنے آنسو ساتھ لے جاتا ہے۔ اس لیے ادب میں آدمی، آدمی ہی سے ملتا ہے۔
علاج بالکتاب کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ جب ہم اپنی کسی الجھن، کسی بحران میں ہوتے ہیں تو ہم سمٹ کر رہ جاتے ہیں، اپنی انا میں۔
“ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟ “ہماری کل کائنات بس یہ سوال رہ جاتا ہے، اور یہ کائنات نہایت چھوٹی، قید تنہائی کے اس محبس کی مانند ہوتی ہے، جس میں آدمی نہ کھڑا ہوسکتا ہے، نہ بیٹھ سکتا ہے اور سو سکتا ہے۔
کتاب اس محبس سے آدمی کو دوسری اور دوسروں کی وضع کی گئی دنیا میں لے جاتی ہے۔ پہلا خیال ہی یہ راسخ کرتی ہے کہ کئی دنیائیں ممکن ہیں، یعنی صدمے یا بحران نے آدمی کوجس محبس میں مقید کردیا ہے، یہی واحد دنیا نہیں ہے۔
کتاب کے مطالعے سے آدمی اپنی انا کی سمٹی سکڑی، سیلن زدہ دنیا سے نکل کر دوسری دنیا میں پہنچ جاتا ہے؛ ہوسکتا ہے کہ یہ دنیا مختلف اور وسیع نہ ہو۔ اسی طرح لازمی نہیں کہ اس دنیا میں چہل پہل ہو، مثالی آزادی ہو ، ہر شے اعلا درجے کی ہو ، یہاں قاعدے قانون کی حکمرانی ہو۔ ایسا ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی، لیکن اس دنیا کی تعمیر انسانی تخیل نے کی ہوتی ہے جس کی رسائی سماج اور انسانی جسم و روح کی سب چھپی باتوں، سب اندیشوں، سب کڑی سچائیوں تک ہوتی ہے۔ جو باتیں ہم سے عام حالت میں مخفی رہتی ہیں اور بحران کی کیفیت میں غائب ہو جاتی ہیں، ادیب کا تخیل انھیں ہمارے روبرو لاتا ہے۔ ادب کا کمال یہ بھی ہے کہ وہ دنیا کی کوئی بھی تصویر پیش کرتا ہو، اسے فنکارانہ انداز میں، یعنی موزوں، بہترین، حسن افریں پیرائے میں پیش کرتا ہے۔ تاریک دنیا کا ہمیں احسن انداز میں سامنا کرنے کے قابل بناتا ہے۔ فنکارانہ انداز، معالجاتی اثر رکھتا ہے۔ غمگین نغمے جنھیں احسن انداز میں گایا گیا ہو، وہ ہمارے زخموں کے لیے پھاہا بنتے آئے ہیں۔
نیچے دیے گئے لنک میں علاج بالکتاب پر مضمون پڑھا تو یہ خیالات سوجھے۔ جی چاہتا ہے کبھی میں بھی ایسا ہی ایک کورس بناوں اور طلبا کو پڑھاوں، اس لیے کہ اس کورس میں طلبا علاج بالکتاب سے متعلق اپنے تجربات شئیر کریں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply