• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • امریکی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان ۔۔۔ توقعات اور متوقع نتائج/رانا اظہر کمال

امریکی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان ۔۔۔ توقعات اور متوقع نتائج/رانا اظہر کمال

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو آج پاکستان کا ایک روزہ مختصر دورہ مکمل کر کے بھارت سدھار چکے ہیں۔ ان کے اس دورے کا انتظار صرف اس لیے کیا جا رہا تھا تاکہ واضح ہو سکے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ تعلقات کو کس نہج پر رکھنا چاہتی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان اس وقت تعلقات جس سطح پر ہیں، ان کے متعلق تو ہم سب جانتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ افغان مسئلے کا حل نکالنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور دوسری جانب بھارت کو خطے میں قیادت کا جو کردار سونپا گیا تھا، اس میں پاکستان کو ایک رکاوٹ کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے وفد میں دو اہم ارکان جنرل ڈنفرڈ اور افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد بھی شامل تھے۔ آج کے دن کی تمام تر کارروائی کے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کے بیان اور ہمارے وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس کے متعلق تو آپ جان ہی چکے ہوں گے کہ دونوں اعلامیوں کے درمیان اختلاف واضح تھا۔ مثال کے طور شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکا نے ڈو مور کا مطالبہ نہیں کیا جبکہ امریکی ترجمان کے مطابق پومپیو نے “خطے کے امن کو نقصان پہنچانے والے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی پر زور دیا۔”
گویا امریکا نے اپنا پرانا مطالبہ دہرایا کہ افغان طالبان کے خلاف کارروائی جائے (تاکہ داعش کے لیے افغانستان میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے) جبکہ پاکستان نے واضح کیا کہ امریکا کا ہر مطالبہ پورا نہیں کیا جا سکتا (کیونکہ پاکستان کے علاوہ روس، چین اور ایران بھی ایسا نہیں چاہتے)۔
میرے لیے فریقین کے بیانات سے زیادہ دلچسپ امریکی وفد کی وزیر اعظم سے ملاقات والی ویڈیو تھی جو میڈیا کو جاری گئی۔
پہلی بات۔۔۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ امریکی وفد نے وزیر اعظم کے ساتھ صوفوں پر بیٹھ کر ملاقات نہیں کی جو اس سے قبل معمول تھا بلکہ ایک ورکنگ ٹیبل پر گفتگو ہوئی جس میں امریکی اور پاکستانی وفود آمنے سامنے بیٹھے تھے اور ہیڈ چئیر پر پاکستانی وزیر اعظم موجود تھے۔
دوسری بات، بہت عرصے بعد یہ دیکھا کہ ہمارے کسی سربراہ نے سُتے ہوئے چہرے کے ساتھ مصنوعی سنجیدگی (جو اکثر مضحکہ خیز معلوم ہوتی تھی) یا بالکل خاموش رہ کر ویڈیو نہیں بنوائی بلکہ ملاقات کے دوران عمران خان فطری انداز میں گفتگو کرتے ہوئے دکھائی دئیے۔
تیسری اہم بات، اس ملاقات میں وزیر اعظم کے ساتھ، وزیر خارجہ، سیکرٹری خارجہ اور آرمی چیف بھی موجود تھے یعنی مہمان وفد پر بھی یہ واضح کر دیا گیا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کے معاملے پر حکومت پاکستان کے تمام ادارے ایک ہی پالیسی پر گامزن ہیں۔
اب آئیے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی جانب ۔۔۔۔ اگرچہ اس مختصر گفتگو کو مذاکرات کہنا بھی تقریباً زیادتی ہے ۔۔۔۔ بہرحال پومپیو کی پاکستان آمد سے قبل ہی امریکی حکام نے اپنی پالیسی واضح کر دی تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ صرف اسی صورت چلیں گے جب پاکستان امریکی پالیسیوں کو من و عن قبول کرے اور ان پر عمل کرے۔ دوسری جانب پاکستان نے بھی آج واضح کر دیا کہ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان ماضی میں اچھے تعلقات رہے ہیں لیکن اب رسمی تعقات سے بڑھ کر کچھ صرف اسی صورت ہو گا جب ایسا کرنے میں پاکستانی مفادات کو ضرب نہ پہنچتی ہو۔ آسان الفاظ میں یوں کہہ لیجیے کہ پاکستان امریکا سے کشیدگی نہیں چاہتا لیکن اپنے مفادات کی قربانی بھی نہیں دے گا۔ پاکستان، امریکا کے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کو خوش آئند قرار دیتا ہے، افغانستان میں داعش کے اثر ورسوخ کو ختم کرنا چاہتا ہے، خطے میں بھارتی بالا دستی کو قبول نہیں کرتا ۔۔۔۔اور اپنے ہمسایہ اور خطے کے اہم ممالک چین، ایران اور روس کے ساتھ تعلقات کو امریکی مفاد کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتا۔۔۔۔ یہ ہے پاکستان کا دوٹوک موقف اور ان میں سے کسی بھی معاملے پر سمجھوتہ کیے بغیر امریکا کے ساتھ خوشگوار تعلقات صرف ہماری ہی نہیں بلکہ امریکا کی بھی ضرورت ہیں۔
پاکستان نے تو اپنا موقف واضح کر دیا ہے ۔۔۔۔ اب امریکا کو یہ سب قابل قبول ہے یا نہیں تو اس کا سنجیدہ جواب ہے ۔۔۔۔۔ نہیں! لہٰذا یہ سوچنا کہ مستقبل قریب میں پاک امریکا تعلقات بہتر ہو جائیں گے، ایک حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ قوی امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اور امریکا کے درمیان سرد مہری میں مزید اضافہ ہو گا اور ممکن ہے کہ یہ سرد مہری کشیدگی میں بھی تبدیل ہوجائے۔
یار زندہ صحبت باقی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply