چودہ اگست۔۔ یوم عہد

آزادی کامبارک ماہ شروع ہوچکا ہے ہر سو سبز پرچموں کی بہار ہے۔ اپنی استطاعت کے مطابق ہر پاکستانی آزادی کا جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ گھروں، دفتروں اور گاڑیوں کو جھنڈوں اور رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجایا جارہا ہے۔برقی قمقمے لگائے جارہے ہیں۔یوم آزادی بلاشبہ قوموں کی تاریخ میں اہمیت کا حامل دن ہوتا ہے۔ اس دن کو باشعور قومیں یوم عہد کے طور پر مناتی ہیں۔ اپنی شناخت اور حقوق ملی جوش و جذبے کے ساتھ پہچاننے کا یوم عہد۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں جشن آزادی ایک عجیب ڈھنگ سے منانے کی ریت پڑتی جارہی ہے۔ رنگ برنگے کپڑے پہنے جائیں گے، سینوں پر بڑے بیج لگائے جائیں گے، سر اور چہروں کو رنگا جائے گا، موٹر سائیکلوں سے سائلینسر اتار کر سارے شہر کا سکون غارت کیا جائے گا، ٹیلی ویژن پر دن بھر نشریات چلیں گی جن میں سارا دن ملی نغمے چلیں گے۔
یوں چودہ اگست کا دن گزر جائے گا۔ پھر جھنڈے چھتوں سے اتار دئیے جائیں گے، جھنڈیاں ہواؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی جائیں گی۔ جذبات ٹھنڈے ہوجائیں گے اور مادر وطن ہمیشہ کی طرح ایک ٹھنڈا سانس لے کرپھر کسی مسیحا کے انتظار میں لگ جائے گا کہ شاید کوئی اٹھے اور اس وطن کی تقدیر بدلنے کیلئے کسی قسم کی عملی جدوجہد کرے۔ اگر ون ویلنگ، لاؤڈ میوزک، ہلڑ بازی اور جشن کے نام پر سڑکیں بلاک کرنا ہی ہمارایوم عہد ہے تو ہمیں واقعی سوچنے کی ضرورت ہے۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جس میں دہشت گردی کی شکار لاشیں اٹھاتے اٹھاتے ہمارے قبرستان بھر چکے ہیں، ہسپتالوں کی حالت ابتر ہے، پڑھے لکھے نوجوان بیروزگار پھر رہے ہیں، آدھی سے زیادہ آبادی سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، مہنگائی نے معیشت کی کمر توڑ رکھی ہے تو ایسی صورت میں محض پرچم کشائی اور پندرہ بیس منٹ کی تقریریں بالکل جائز نہیں لگتیں۔
تقریبات کے اہتمام پر اعتراض نہیں مگر ان تقریبات میں ہمیں جشن کے ساتھ ساتھ ان عوامل پر بھی توجہ دینی ہے جو آج ستر سال گزرنے کے باوجود بھی ہماری جڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ہمیں ان وجوہات کے بارے میں سوچنا ہے جن کی وجہ سے آج تک ہم آزادی کی حقیقی روح کو نہیں پہچان پائے۔ اس آزادی کے دن کو صرف تفریح یا تہوار کے طور پر منانے والے وہ لوگ ہیں جنہیں آزادی کی قیمت کا احساس نہیں اور نہ انہوں نے کبھی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے کہ کس طرح یہ مملکت خداداد وجود میں آئی تھی کہ جس پر دشمن آج سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی دانت گاڑے بیٹھا ہے۔
یہ آزادی جن قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی تھی ان دل دہلادینے والی داستانوں کو آج شاید ہم میں سے بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ آگ اور خون کے دریا کو عبور کرکے جب ہم نے یہ وطن حاصل کیا تھا تو مقصد اور نعرہ صرف ایک ہی تھا:
پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔۔ لاالہ الا اللہ
لیکن ہم اس عہد کو پورا نہ کرسکے جسکی خاطر ہماری ہزاروں ماؤں، بہنوں، بھائیوں اور بیٹوں نے اپنی حیات تک وار دی تھی۔ جس پاکستان کو اسلام کا مضبوط قلعہ بننا تھا اسی پاکستان میں اسلام اجنبی معلوم ہوتا ہے۔ ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ جس نظریے کے تحت قائد اعظم ؒ نے آزاد ممللکت تشکیل دی تھی نوجوان نسل کو اس نظریے سے واقف کروائیں۔میڈیا کو اپنے کردار کا رخ از سر نو متعین کرنا ہوگا کہ وہ کب تک دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بناکر دکھاتا رہے گا۔؟ کشمیر میں جاری ظلم و ستم سے کب تک آنکھیں چراتا رہے گا؟
ہماری آزادی تب تک ادھوری ہے جب تک ہم پاکستان میں سماجی مساوات، اسلامی اخوت، معاشی عدل اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ یقینی نہیں بنا لیتے۔ آزادی کا حقیقی جشن تب ہوگا جب ہم ایک آزاد معاشرہ تشکیل دینگے جس کے تعلیمی نظام میں طبقاتی تفریق ختم ہوگی، جب کرپشن، اقربا پروری اور لوٹ کھسوٹ کا بازار بند ہوگا، جب کروڑوں روپے معاف کرانے والوں اور چند سو روپے لوٹنے والوں کو ایک ہی اصول پر سزا دی جائے گی، جب نجی و سرکاری اداروں میں خواتین خود کو محفوظ سمجھیں گی، جب تعلیم ہر بچے کو ملے گی، جب پاکستان کے تمام ادارے اپنے پیروں پر کھڑے ہونگے، جب نوجوان نسل امریکی ویزہ ہاتھوں میں ہونے کے باوجود اپنے دیس میں رہنے کو ترجیح دے گی، جب دہشت گردی کی سلگتی ہوئی آگ مکمل طور پر بجھ جائے گی، جب ہم ٹریفک قوانین کا احترام کرینگے، جب ہم حقدار تک اس کا حق پہنچانے لگیں گے اور جب ہمارے حکمران غیر ملکی آقاؤں کو سیاہ و سفید کا مالک سمجھنے کی بجائے اپنے حقیقی پروردگار کی خوشنودی کے حصول میں لگ جائیں گے۔
تمام حالات خراب سہی مگر آج بھی ہم آزادی کی نعمت سے مستفید ہورہے ہیں اور آزادی ایک ایسی نعمت ہے جس کے ایک لمحے کی خوشی کو ساری زندگی بھی منایا جائے تو کم ہے۔ آج یوم آزادی کا دن ہم سے تقاضا کرتاہے کہ ایک بار پھر ہم اسی جذبے کے ساتھ کھڑے ہوں جسکے ساتھ ہمارے اسلاف قیام پاکستان کے وقت کھڑے تھے، جب ملک قرضوں کے بوجھ میں ڈوبا ہوا تھا،مہاجرین کی آبادکاری کا مسئلہ درپیش تھا، وسائل نہ ہونے کے برابر تھے مگر ایک عزم تھا، خواب کو حقیقت میں بدل دینے کا عزم۔ ہمارے پاس آج وسائل بہت ہیں، کچھ حصہ تباہ ہوا ہے تو بفضل الہیٰ بہت بڑا حصہ سلامت ہے۔ آج اگر ہم سندھی، پنجابی، بلوچ اور پختون کی بجائے ایک سچا پاکستانی مسلمان بن کر سوچیں تو بہت جلد حالات بدلیں گے اور وطن عزیر امن کا گہوارہ ہوگا۔ کھیت ہرے بھرے اور بازار پررونق ہونگے۔ ہر لب خندہ اور ہر چہرہ شاداب ہوگا۔ (انشاء اللہ)
آئیے عہد کریں کہ وطن پاک کو جنت بنانے میں ہم اپنا کردار ضرور ادا کرینگے۔
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل کہ جسے اندیشہ زوال نہ ہو

Facebook Comments

توقیر ماگرے
"جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں، میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply