وہ فیصلہ جو محفوظ نہیں رکھا گیا

وہ فیصلہ جو محفوظ نہیں رکھا گیا
محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانامہ کیس مکمل ہوگیا، عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا، توقع ہے کہ اگلے چند دنوں میں اس کا اعلان کر دیا جائے گا۔عدالت کا فیصلہ کئی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور اس سے یقیناًملک میں ہلچل پیدا ہوگی، مگر اس پانامہ سکینڈل کے دوران بہت کچھ سامنے آیا ہے ، کئی باتیں صاف ہوگئیں اور عوام نے بعض فیصلہ کن آرا قائم کیں۔ فیصلے صرف عدالت ہی نہیں کرتی، کچھ فیصلے عوام بھی کرتے ہیں۔ عدالتوں کے فیصلے چونکہ ریکارڈ کا حصہ بنتے اور دنیا بھر میں حوالہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، اس لئے فطری طور پر وہ فیصلے زیادہ احتیاط ، سلیقے اور مہارت سے لکھے جاتے ہیں۔ عوام کی غیر رسمی عدالت کا فیصلہ غیر رسمی، بے باک اور صاف ہوتا ہے۔اسے محفوظ رکھنے کی کوئی زحمت نہیں کرتا۔ ایک عام آدمی لگی لپٹی رکھے بغیر اپنا فیصلہ سنا دیتا ہے۔
متحرک اور فعال میڈیا کی موجودگی میں روزانہ بے شمار سروے اور روڈ شو نشر ہوتے رہے ہیں، جن میں گلی کوچوں میں پھرنے والے عام آدمی سے سوال جواب کی تفصیل موجود تھی۔ ان کے جوابات اکثر اس قدر ہوش ربا اور تیکھے ہوتے ہیں کہ اگر حکمران چند منٹ بھی دیکھ لیں تو ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں ۔ دو تین دن پہلے ایک نجی چینل پر اینکر کا روڈ شو چل رہا تھا۔ ان کی ٹیم نے میاں نواز شریف کے حلقہ انتخاب این اے 120، لاہور کا انتخاب کیا۔ اس حلقہ کے مختلف بازاروں، سڑکوں پر گھومتے لوگوں سے سوال جواب ہو رہے تھے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ بیشتر لوگوں نے میاں نواز شریف صاحب کو کھری کھری سنائیں۔ اگرجواب زیادہ تیکھا ہوتا تو اینکر یہ ضرور پوچھتے ، آپ نے ووٹ کسے دیا تھا؟ دلچسپ بات یہ تھی کہ میاںصاحب پر تنقید کرنے والے اور ان کے استعفا کا مطالبہ کرنے والے اکثر لوگوں نے مئی تیرہ کے انتخابات میں میاں صاحب ہی کو ووٹ دیا تھا۔ ایک دو نے عمران خان پر تنقید بھی کی اور کہا کہ ہم مسلم لیگ ن کے ووٹر ہیں، مگر بات اصول کی ہے کہ جے آئی ٹی نے جو ثبوت پیش کر دئیے ہیں، ان کے بعد وزیراعظم نواز شریف کو استعفا دے دینا چاہیے ۔ اکثریت کا فیصلہ تھا کہ میاں نواز شریف نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ میرے خلاف ثبوت آ گئے تو فوری استعفا دے دوں گا، اب جبکہ جے آئی ٹی نے ثبوت پیش کر دئیے ہیں ،ا س کے بعداستعفا ہی بنتا ہے۔ یہ میاں نواز شریف کے اپنے حلقے کا حال تھا، جسے مسلم لیگ کا گڑھ کہا جاتا ہے ،جہاں میاں صاحب نے ہزاروں لوگوں کو ملازمتیں دلوائی ہیں ، دیگر حلقوں میں تو حالات اس سے زیادہ خراب ہیں۔
مسلم لیگ ن کی بدقسمتی یہ ہے کہ اپنا کیس وہ عوام میں ہار چکی ہے۔ قانونی طور پر ان کے کیس کا کیا انجام ہوتا ہے، یہ تو عدلیہ کے فیصلے کے بعد ہی اندازہ ہوپائے گا، مگر جوپے درپے تباہ کن غلطیاں ان سے ہوئیں، جھوٹ کی بنیاد پر دفاع کی پوری عمارت تعمیر کی گئی ، پھر ایک جھوٹ چھپانے کی خاطر کئی جھوٹ اور بولنے پڑے۔ دستاویزات چونکہ موجود نہیں تھیں، انہیں بنانے کی کوشش میں بہت کچھ ایسا ہو اجو دور سے دیکھنے ہی میں جعلی لگ رہا ہے۔ ان تما م جعل سازیوں کو کسی نے دل سے تسلیم نہیں کیا۔پانامہ سکینڈل اور عدالت میں اس کیس کی کارروائی کے تین چار پہلو ہی دیکھ لیجئے ، ان تمام میں حکمران خاندان کو سبکی اٹھانی پڑی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے پاس تمام ثبوت موجود ہیں
یہ وہ بات ہے جو مسلم لیگ ن طویل عرصے سے اپنے ناقدین کو کہہ رہی تھی۔ جب بھی کوئی اپوزیشن رہنما الزام لگاتا کہ شریف خاندان کے پاس لندن میں جائیداد ہے ، جو قومی خزانہ لوٹ کر اور منی لانڈرنگ کے ذریعے خریدی گئی ، اس پر ہمیشہ شریف خاندان اور ان کے حامی یہی کہتے کہ آپ کے پاس ثبوت ہیں تو عدالتوں میں جائیں۔ پانامہ سکینڈل آنے کے فوری بعد میاں نواز شریف نے بھی یہی دعویٰ کیا۔ اسی زعم میں انہوں نے قوم سے خطاب کر ڈالا، جس میں عدلیہ کے ذریعے احتساب کی پیش کش کی ۔ پھر قومی اسمبلی میں خطاب کیا ، وہاں کچھ مختلف دعوے کر ڈالے۔ تاثر یہی تھا کہ ہمارے پاس تمام ضروری دستاویزات موجود ہیں اور ہمارا کوئی بھی بال بیکا نہیں کر سکتا۔ جب کیس عدالت میں گیا تو ان سب کی سٹی گم ہوگئی ۔وکیلوں نے سمجھایا کہ اس طرح لفاظی سے تو کیس نہیں جیتا جا سکتا۔ پھر اچانک ہی کسی ”سیانے“کے مشورے سے قطری خط کی آمد ہوئی۔ قطری خط کے آنے سے میاں صاحب کے کیس کو تو ذرا برابر بھی فائدہ نہیں ہوا، سب سے بڑا نقصان یہ پہنچا کہ ان کے حامی، مخالف ہر ایک کو پتہ چل گیا کہ میاں صاحب کے پاس اپنے دفاع میں کچھ نہیں ہے، ورنہ بچکانہ حرکت نہ کی جاتی۔ جس مضحکہ خیز انداز میں قطری خط کا ڈرامہ رچایا گیا، داداکی جائیداد صرف ایک پوتے اور وہ بھی حسین نواز کو دینے کی کوئی تک تھی نہ منطقی دلیل۔کیس کے اگلے مراحل میں مزید واضح ہوگیا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے پاس جذباتی دلیلیں تو ہوسکتی ہیں، ٹھوس ثبوت وہ لانے میں ناکام رہے۔
یہ قانونی نہیں، سیاسی کیس ہے
یہ فقرہ تو شریف فیملی نے بیسیوں بار دہرایا اور ہزاروں بار اپنے حامیوں سے اس کی رٹ لگوائی۔ یہ بات مگر مطلق غلط تھی۔ پانامہ کیس عدالت میں گیا ہی اس لئے کہ قانونی معاملہ تھا۔ میاں نواز شریف اور ان کی اولاد نے سپریم کورٹ میں یہ کیس لڑ کر ثابت کر دیا کہ ایشو قانونی ہے، اس لئے وکیلوں کی فوج ظفر موج کھڑی کی گئی ، اپنے حق میں جو دستیاب دلائل ہوسکتے تھے، وہ سب دئیے گئے ۔ جے آئی ٹی کے سامنے بھی یہ خاندان پیش ہوا، اس سے ثابت ہوگیا کہ وہ عدالتی اور قانونی معاملے کی پیروی کر رہے ہیں۔ اگر یہ صرف سیاسی ایشو ہوتا تو شریف خاندان کبھی اس میں فریق نہ بنتا، کیس لڑتا اور نہ ہی اپنے دفاع میں شہادتیں جمع کراتا۔
ہم پر الزام کیا ہے؟
یہ عجیب وغریب بات وزیراعظم نواز شریف نے بھی کی، ان کی اولاد بھی بار بار اسے دہراتی رہی اور حواری وزرا نے بھی اس کی رٹ لگائی رکھی۔ لوگ حیران ہو کر دیکھتے رہے کہ آخر ہمارے حکمران عوام کوکس قدر بے وقوف سمجھ رہے ہیں؟ ہر کوئی جانتا ہے کہ الزام ہے ہی کرپشن کا۔ وہ کرپشن جو اپنے پہلے دور میں میاں نواز شریف نے کی اور پھر منی لانڈرنگ کے ذریعے اسے باہر بھیج کر لندن میں جائیداد خریدی۔ ہمارے سیاستدان اب بہت سمارٹ ہوگئے ہیں،یہ غلطی اپنے پہلے ادوار میں ان سے ہوئی ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے بھی سرے محل، قیمتی ہار اور سوئس اکاﺅنٹس والی غلطیاں شروع میں کیں، بعد میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ اور بات کہ اس طرح کی غلطی چھپتی نہیں اور کبھی نہ کبھی سامنے آتی
ہے۔ میاں صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ ان پر الزام کرپشن کا ہے ، مگر وہ اپنے ووٹروں کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ جیسے انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور وہ بھی بغیر کسی الزام کے ۔پچھلے ایک سال سے حکمران خاندان اپنی صفائی پیش کر رہا ہے ، اب اچانک وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ مجھ پر الزام کیا ہے؟ بھائی وہی الزام ہے، جس کی صفائی پیش کر رہے ہو، جس کی وضاحت کے لئے آپ نے قوم سے خطاب کیا اور پارلیمنٹ میں تقریریں کیں۔
جھوٹ تو بہرحال بولا گیا
عدالت میں اگروزیراعظم نواز شریف کی نااہلی ہوئی تو یہ ایک بنیادی نکتہ ہوگا کہ اس کیس میں جھوٹ بولا گیا، جھوٹی دستاویزات پیش ہوئیں اور اس جھوٹ بولنے کی بنا پر ہی نواز شریف وزیراعظم کے عہدے پر برقرار رہنے کے اہل نہ رہے۔ ایک بار پھر وضاحت کرتا چلوں کہ جھوٹ کا قانونی طور پر ثابت ہوجانا ایک الگ بات ہے، عدالتوں کا اپنا خاص طریقہ کار ہوتا ہے، کئی ایسے سچ ہیں جو اپنی صداقت کے باوجود ممکن ہے عدالتوں، قوانین کے خاص پیمانے پر پورا نہ اتریں، مگر ایک عام آدمی کے لئے وہ سادہ سچ اہم اور معتبر ہوتا ہے۔ اس کیس میں بہت سے ایسے جھوٹ بولے گئے ،جن سے میاں نواز شریف صاحب کی بھد اڑی۔ سب سے افسوسناک معاملہ تو ان کی تقریروں کے تضادات کا ہے۔ پاکستان کے عام شہری کے نزدیک یہ شرمناک بات ہے کہ کسی جائیداد کے بارے میں باپ کچھ اور کہے، بیوی کچھ اور ، بیٹی اور بیٹے الگ الگ ڈفلی بجائیں۔ عام زندگی میں لوگ اس سادہ بات سے نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ جھوٹ بولنے والے کی بات میں تضادات ہوتے ہیں، اس کا حافظہ بھی کمزور ہوتا ہے اور وہ ہر جگہ ایک نیا جھوٹ بول دیتا ہے جبکہ سچا آدمی ہر جگہ ایک ہی بات دہرائے گا۔ یہ دلیل عدالتو ں میں تسلیم ہو یا نہ ہو ، عوام کی عدالت اسے کسوٹی مانتی ہے۔ اس کسوٹی پر نواز شریف صاحب کا سونا ملاوٹی بلکہ جعلی ثابت ہوگیا ہے۔عدالت تو فیصلہ مناسب وقت پر سنا ہی دے گی، مگر کچھ فیصلے عوام سناتے ہیں، وہ سنائے جا چکے ہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply