پوتن کا دورہ جنوبی ایشیا

روسی صدر ولادیمیر پوتن کا اس سال مئی میں جنوبی ایشیا کا دورہ متوقع ہے۔ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ دورہ صرف پاکستان تک محدود نہیں جیسا کہ سمجھا جارہا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کا بیک وقت دورہ ہوگا اور شائد پہلے دہلی کا دورہ ہو۔ مذکورہ دوے کا کیا ایجنڈا ہوسکتا ہے، یقیناً یہ ایک بہت اہم دورہ نظرآتا ہے جو ایشیا کی سیاست میں ایک بہت بڑا موڑ لانے کا اہل ہے۔
اس سلسلہ میں کچھ اشارہ روسی سرکاری خبررساں ایجنسی سپوتنک میں ایک معروف روسی تھینک ٹینک کے تجزیہ کار اینڈریو کوربائکو کے تجزیہ سے ملتا ہے۔ محتاط زبان لئے ہوئے یہ تجزیہ ایک طرح کا سفارتی اشارہ ہے جس کے مطابق روس جنوبی ایشیا کی طرف اپنا معاشی، تجارتی اور سٹریٹیجک تعاون بڑھانا چاہتا ہے اور سی پیک کے متوقع فوائد سے بہرہ آور ہونے کا خواہشمند ہے۔
انڈیا اور پاکستانی میڈیا میں روس کے ساتھ تعلقات کو زیرو سم گیم کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ ایک کے ساتھ دوستی کا مطلب دوسرے سے دور جانا ہے۔ لیکن روسی ایسا نہیں سمجھتے۔ وہ اور چین خطے میں امریکہ کا کردار محدود تر کرنا چاہتے ہیں اس لئے روسی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ اپنی نئی اور انڈیا کے ساتھ پرانی دوستی کے ناتے وہ ان دونوں ملکوں کے آپسی مسائل حل کراکے ایک یوریشیائی بلاک میں دونوں کو شامل کرسکتے ہیں۔
کشمیر کے علاوہ جو معاملات زیر غور آسکتے ہیں اس میں نیوکلیر سپلائی گروپ ، سارک اور سی پیک ہیں۔
نیو کلیئر سپلائی گروپ میں انڈیا کی شمولیت کے ضمن میں روس بھی سٹیک ہولڈر ہے جس کا ہمارے ہاں احساس موجود نہیں ہے۔ پچھلے سال کے وسط تک انڈیا کو اسلحہ کی فروخت اور سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی پہ روس کو اجارہ داری حاصل تھی۔ لیکن ۲۰۱۶ میں انڈیا امریکہ معاہدہ کے بعد روس کی یہ حیثیت نہ رہی اور اب امریکی فرموں کے لئے انڈیا کی مارکیٹ کھلی ہے۔ اسی طرح نیوکلیئر کا معاملہ ہے اب تک انڈیا کے تمام نیوکلیر پاور پلانٹس روس کے تعمیر کردہ ہیں لیکن انڈیا کی این ایس جی میں شمولیت سے روس کی یہ اجاراداری بھی ختم ہوجائے گی۔
یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ روس وسطی ایشیا اور سائیبیریا کے تیل اور گیس کے ذخائر کی بین الااقوامی منڈی کو فروخت کے لئے پاکستانی ساحلوں کی طرف دیکھ رہا ہے اور اس اہم تجارتی راستہ میں شمولیت کا خواہاں ہے۔ لیکن انڈیا کی طرف سے سی پیک کی بھرپور مخالفت بلکہ ایک طرح کی میڈیا اور پراکسی وار پہ چین کی طرح روس بھی پریشان ہے۔
حیرت انگیز طور پہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس صورت میں سارک کا یوریشین یونین سے آزادانہ تجارت کا معاہدہ طے پاسکتا ہے۔ یوریشین یونین روس، بیلاروس،کرغیزستان، قزاقستان اور آرمینا پہ معاشی یونین ہے۔
انڈیا اور پاکستان کے مابین معاملات کی حساسیت دیکھتے ہوئے روسی اپنی سفارتی زبان میں بہت محتاط ہیں ان کا پہلے والا انداز اب نہیں رہا جس کو ہمارا میڈیا بھی اکثر غلط پیش کرتا ہے۔ مثلاً پچھلے دنوں جب روسی سفیر نے کہا تھا کہ ہم سی پیک کو خوش آمدید کہتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ایک سی پیک یوریشین یونین میں ضم ہوجائے گا تو اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ وہ سی پیک کا حصہ بننے والے ہیں۔ اس کا مطلب کافی وسیع تھا کہ وسیع تر یوریشیائی معاشی یونین میں روس، بیلا روس اور وسطی ایشیا کے ساتھ پاکستان اور چین کا مشترکہ معاشی بلاک بنایا جاسکتا ہے۔
یوریشیائی یونین کے ممالک کی کل آبادی ۱۸۳ ملین نفوس پہ مشتمل ہے اور چار ٹریلین ڈالر کی سالانہ معیشت کی حامل ہے۔ ان ممالک کے افراد کو آزدانہ سفر، کام اور تجارت کی آزادی حاصل ہے۔ یقیناً یہ ایک بہت بڑا ایشیائی بلاک ہوگا اگر اس میں چین اور پاکستان بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ ایران اور ترکی بھی اس میں شمولیت کے خواہاں ہیں۔ چاہ بہار سے ماسکو تک براستہ آذربائیجان پہلے ہی ایک تجارتی راستہ پہ نارتھ ساؤتھ کاریڈور کے نام سے کام ہو رہا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس سال مئی تک انڈیا کی طرف سے کیا رویہ سامنے آتا ہے۔ کیا انڈیا سارک کو یوریشین یونین کے ساتھ ملانے پہ تیار ہوتا ہے؟ انڈیا اس سے پہلے چین کو سارک میں شامل کرنے کی سختی سے مخالفت کرتا آیا ہے۔ اس نے چین، نیپال انڈیا کاریڈور اور چین، انڈیا بنگلہ دیش کاریڈور کی بھی ابھی تک مخالفت کی ہے۔ اگر انڈیا اس میں شامل ہوتا ہے تو اسے پاکستان اور چین کے ساتھ اپنی سٹریٹیجک نفرت کو ختم کرنا ہوگا اور تمام مسائل کو دوستانہ طور پہ حل کرنا ہوگا۔
اگر اس کی سی پیک اور ان ٹریڈ روٹس کی مخالفت جاری رہتی ہے تو ایشیا میں ایک نئی گروپنگ وجود میں آجائے گی جس کی وجہ سے افغانستان میں جاری کشمکش میں بہت تیزی آجائے گی۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ بعینہ انہی دنوں روس نے افغانستان کے شمال میں تاجکستان میں ایک بڑے فوجی ہوائی اڈے کی تعمیر کا آغاز کردیا ہے مستقبل میں داعش سے نمٹنے کے لئے۔
پچھلے دنوں اسی سلسلہ میں روسی ڈپٹی وزیراعظم دمیتری روگوزین نے مودی سے بھی ملاقات کی لیکن کوئی خبر سننے میں نہ آئی جس سے تاثر یہی ملا کہ مودی ڈونلڈ ٹرمپ کا انتظار کررہا ہے۔ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکی پالیسی کے خدوخال واضح ہونا شروع ہو جائینگے اور اگلے چند ماہ اس سلسلہ میں پس منظر پہ سفارتی کاروائیاں بھی تیز ہو جائینگی۔
لگتا ہے کہ یہ سال ایشیا کی سیاست کو کوئی بنیاد موڑ دینے والا ہے

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply