عدم تشدد کے علم بردار، بادشاہ خان۔۔آصف جیلانی

آج بادشاہ خان، عبدالغفار خان کی بتیسویں برسی ہے، اس موقع پر ان کی یادوں کا ہجوم امڈ آیا ہے۔ بلاشبہ یہ میرے لئے ایک اعزاز تھا کہ مجھے عدم تشدد کے علم برداررہنما کی میزبانی اوران کی صحبت نصیب ہوئی، جس کی یادیں ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی گراں قدر خزینہ کی طرح میرے ساتھ ہیں اور گلاب کی طرح تازہ ہیں۔
یہ 1946 کے اوایل کی بات ہے جب میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ابتدائی جماعت کا طالب علم تھا اور بچوں کی اقامت گا ہ محمود منزل کا مانیٹر تھا۔جامعہ سے بادشاہ خان کا دیرینہ تعلق تھا۔ وہ جب بھی دلی آتے ، جامعہ ضرور آتے تھے۔46ء میں جب وہ جامعہ آئے تو ان کے قیام کا انتظام محمود منزل میں بچوں کی اقامت گاہ میں کیا گیا تھا۔ مانیٹر کی حیثیت سے مجھے ان کی میزبانی پر مامور کیا گیا تھا۔مجھے تعجب ہوا کیونکہ عبدالغفار خان کو محمود منزل سے کہیں زیادہ آرام دہ جگہ ٹھہرایا جا سکتا تھا، لیکن مجھے بتایا گیا کہ باشاہ خان طلبا کی اقامت گاہ میں یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ طالب علم وہاں کیسے رہتے ہیں، ان کو کیا سہولیتیں حاصل ہیں اور وہاں کیسا ماحول ہے۔

بادشاہ خان جب محمود منزل آئے تو طلبا یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ملک کا ایک اہم رہنما ہاتھ میں کھدر کا صرف ایک تھیلا لئے چلا آرہا ہے۔ ایسی سادگی؟ بعد میں پتہ چلا کہ اس تھیلے میں ان کی شلوار قمیض کا صرف ایک جوڑا تھا۔ رات کو سونے سے پہلے وہ ایک جوڑا خود دھو تے تھے اور رات کو ٹانگ دیتے تھے اور صبح کو دھلا ہوا جوڑا پہن لیتے تھے۔ جتنے دن وہ محمود منزل میں رہے ان کا یہی معمول رہا۔

محمود منزل میں رات کو سونے سے پہلے ایک مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ بادشاہ خان کے غیر معمولی لمبے قد کی وجہ سے بچوں کی چارپائی چھوٹی پڑ گئی۔ آخر کار دو چار چارپائیوں کو ملا کر یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں بھی ناکامی ہوئی۔ آخر کار خود بادشاہ خان نے یہ مسئلہ حل کردیا اور کہا کہ وہ نیچے فرش پر بستر بچھا کر سوئیں گے۔ بچے رو ہانسےہوگئے اور سب نے اپنی چارپائیاں باہر رکھ کر نیچے فرش پر بستر بچھا دیئے۔

دوسرے دن جامعہ کی سیر کرنے کے بعد بادشاہ خان نے مجھ سے کہا کہ  مجھے گاندھی جی سے ملنے برلا مندر جانا ہے تم بھی چلو ،وہاں تمھاری گاندھی جی سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔ برلا مندر جامعہ سے دس بارہ میل کی دوری پر ہے۔ ہم نے بس لی۔ اس دوران مجھے بادشاہ خان سے خوب بات کرنے کا موقع ملا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے میرا  سکول تو دیکھ لیا۔ یہ بتائے کہ آپ نے کس  سکول میں تعلیم حاصل کی؟کہنے لگے ہمارے علاقہ اتمان زئی میں صرف ایک ہی اسکول تھا، ایڈورڈس مشن  سکول۔ اسی  سکول میں، مَیں دسویں جماعت تک پڑھا،جس کے بعد مجھے انگریزی فوج میں کمیشن کی پیش کش کی گئی جو میں نے مسترد کردی ،کیونکہ مجھے فوج بالکل پسند نہیں تھی اور نہ جنگ و جدل۔ ویسے بھی میں انگریزوں کی فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتا تھا۔ میں اور آگے یو نی ورسٹی کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میرے بڑے بھائی خان عبدالجبار خان لندن میں یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے۔ ہمارے علاقہ کے پادری نے مجھ پر زور دیا کہ میں بھی لندن جا کر اعلی تعلیم حاصل کروں۔ والد صاحب تو راضی ہوگئے لیکن والدہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کا دوسرا بیٹا بھی ان سے الگ ہو جائے۔ میں نے ماں کی خواہش کو ترجیح  دی اور میں نے والد کی زمینوں پر کام کرنا شروع کردیا۔

بادشاہ خان بولے بیٹا لوگ کہتے ہیں کہ ماں کے پیروں کے نیچے جنت ہوتی ہے۔ دراصل ماں کی خواہشات پر عمل کرنا ہی اصل جنت ہے۔
پھر بادشاہ خان بولے، میں نے سوچا کہ میں نے مشن  سکول میں جو تعلیم حاصل کی ہے اس کا فیض اپنے علاقہ کے بچو ں کو پہنچاؤں، چنانچہ میں نے اتمان زئی میں ایک مسجد میں  سکول کھولا لیکن انگریزوں نے اسے بند کردیا۔ کہنے لگے یہ میری انگریزوں کے ساتھ پہلی لڑائی تھی۔

میں نے بادشاہ خان سے پوچھا کہ آپ دھوتی نہیں باندھتے او ر کسی طور بھی گاندھی جی کی طرح نہیں لگتے پھر لوگ آپ کو سرحدی گاندھی کیوں کہتے ہیں۔ کہنے لگے،کسی کے بھیس اورشکل صورت سے مشابہت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اصل بات نظریات کی ہے، گاندھی جی تشدد کے خلاف نظریہ رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں اتنے مذاہب کے لوگ آباد ہیں ان میں امن و آشتی صرف تشدد کو ترک کر کے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔میں گاندھی جی کے عقیدہ سے متفق ہوں۔ ویسے بھی ہمارا مذہب اسلام بنیادی طور پر امن و آشتی کا درس دیتا ہے۔ اس لئے مجھے گاندھی جی کے نظریہ کو قبول کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔

جب ہم برلا مندرپہنچے تو اس وقت گاندھی جی کی پراتھنا سبھا ہو رہی تھی۔ گاندھی جی نے بڑے تپاک سے سرحدی گاندھی کا خیر مقدم کیا اور اپنے ساتھ بٹھایا۔ عجیب منظر تھا۔ منحنی سے گاندھی جی کے ساتھ بلند قامت غفار خان کو بیٹھے دیکھ کر ایسا لگا جیسے اونچے تاڑ کے درخت کے ساتھ بیر کی جھاڑی کھڑی ہے۔اس وقت بھجن گایا جارہا تھا۔ “ایشور اللہ ایکو ئی نام۔ سب کو سمتی دے بھگوان۔
پراتھنا سبھا کے بعد بادشاہ خان نے مجھے گاندھی جی سے ملوایا اور کہا کہ یہ جامعہ کا طالب علم ہے۔گاندھی جی نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ جامعہ بہت اہم قومی تعلیمی ادارہ ہے اور ذاکر حسین اسے بہت تیزی سے فروغ دے رہے ہیں۔ گاندھی جی سے ملاقات کے بعد بادشاہ خان بے حد خوش نظر آتے تھے۔ بس میں جب تراوٹ بھری ہوا لگی تو میں نے یہ محسوس کیا کہ بادشاہ خان پشتو میں کچھ گنگنارہے ہیں۔ واپسی پر انہوں نے سب بچو ں کوجمع کیا اور بڑی تفصیل سے گاندھی جی سے ملاقات کی داستان سنائی۔

گاندھی جی کے عدم تشدد کے نظریہ کی حمایت کی بنا پر پاکستان میں انہیں شک و شبہ کی نظر سے دیکھا گیا اور کھلم کھلا پاکستان کی وفا داری کے اعلان پر بھی انہیں حکمرانوں نے دشمن گردانا۔

مجھے یاد ہے کہ 1948میں 23جنوری کے دن پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں بادشاہ خان نے پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھااور اسی کے ساتھ اس زمانے کی حکومت پاکستان کی مکمل حمایت کا یقین دلایا تھا۔ جس کے بعد بادشاہ خان کی قائد اعظم سے ملاقات ہوئی تھی۔ پہلی ملاقات کراچی میں ہوئی تھی اور دوسری ملاقات پشاور میں خدائی خدمت گار تحریک کے صدر دفتر میں طے تھی۔لیکن خان عبدالقیوم خان نے قائد اعظم کے کان بھرے اور خبردار کیا کہ بادشاہ خان ان کے قتل کی سازش کر رہے ہیں،چنانچہ پشاور میں قاید اعظم اور بادشاہ خان کے درمیان طے شدہ ملاقات نہ ہوسکی اور پاکستان کی سیاست کی تاریخ نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔بادشاہ خان نے مایوس ہو کر پاکستان میں پہلی حزب مخالف پاکستان آزاد پارٹی کے نام سے قائم کی۔

اس وقت کے حکمران گھبرا گئے اور انہوں نے بادشاہ خان کو گرفتار کر لیا۔ ان کے خلاف کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا اور وہ بلا مقدمہ چلائے 1948 سے1954 تک اور ون یونٹ کی مخالفت میں ایک بار پھر 1958سے 1964تک پابند سلا سل رہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 1962میں بادشاہ خان کو سال کا بین الاقوامی قیدی قرار دیا تھا۔ 1964 میں حکومت پاکستان نے انہیں علاج کے لئے برطانیہ جانے کی اجازت دی تھی لیکن ان کے ڈاکٹروں نے انہیں امریکہ  میں علاج کا مشورہ دیا تھا لیکن بادشاہ خان نہ برطانیہ گئے اور نہ امریکہ۔ اس کے بجائے انہوں نے افغانستان میں جلاوطنی قبول کی۔

Advertisements
julia rana solicitors

1984میں انہیں امن کے نوبیل انعام کے لئے نامزد کیا گیا تھا۔لیکن یہ معاملہ نامزدگی تک رہا۔ہندوستان نے البتہ انہیں اپنا سب سے بڑا اعزاز”بھارت رتن“دیا۔
بر صغیر کی آزادی کی طویل جدوجہد اور پاکستان میں سیاسی حقوق سے محروم چالیس سال تک پابند سلاسل رہنے کے بعد بادشاہ خان 1988کو دار فانی سے کوچ کر گئے اور لاکھوں معتقدیں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ ان کو ان کی وصیت کے مطابق جلال آباد افغانستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ جب بھی مجھے بادشاہ خان کی یاد آتی ہے میں یہ سوچے بنا نہیں رہتا کہ ایک مخلص اور اپنے اصولوں سے صادق اصلاح پسند نایاب رہنما کی جو پاکستان کے عوام سے بے غرض اوربے پایاں محبت کرتا تھا اس کی پاکستان میں کوئی قدر نہیں کی گئی۔

Facebook Comments

آصف جیلانی
آصف جیلانی معروف صحافی ہیں۔ آپ لندن میں قیام پذیر ہیں اور روزنامہ جنگ اور بی بی سی سے وابستہ رہے۔ آپ "ساغر شیشے لعل و گہر" کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply