پڑھا لکھا حادثہ۔۔ملک اکبر اقبال

پڑھا لکھا حادثہ۔۔ملک اکبر اقبال/ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ دنیا ایک عظیم حادثے  کی صورت   وجود میں آئی ،جسے وہ بگ بینگ (bigbang) کا نام دیتے ہیں۔ اور جب سے انسان اس دنیا کا مکین بنا ہے ، آئے دن وہ کسی نہ کسی حادثے  کا مشاہدہ کرتاہے۔ حادثہ جو کبھی کسی  اکیلے شخص کے ساتھ پیش آتا ہے تو کبھی کوئی پورا خاندان اس  کا شکار بن جاتا ہے۔ کبھی کوئی خاص کمیونٹی (community) اس سے متاثر ہو تی ہے تو کبھی پورا معاشرہ یا پورا ملک کسی حادثے کی  زد میں آجاتا ہے۔ اور یوں وہ حادثہ تاریخ بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک کے ساتھ سب سے بڑا حادثہ سقوطِ ڈھاکہ کی شکل میں پیش آیا جس نے ملک کے دو ٹکڑے کر دیے۔ جو ایک تاریخ بن گئی۔ بعض حادثے قدرت کے تعمیر و تخریب کے اصولوں پر ہوتے ہیں یعنی قدرت کے تخریبی اصول کے تحت کوئی شہر ملیا میٹ ہو جاتا ہے تاکہ اس کے مکین دوبارہ اس کی شاندار تعمیر کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔ لیکن یہ میرا موضوع نہیں ہے کہ قدرت کے اس تعمیر و تخریب کے عمل میں انسان کے لیے کیا سبق موجود ہوتا ہے۔ میرا مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ ہمارا ملک پچھلے کئی سالوں سے پڑھے لکھے حادثے کا شکار ہے یعنی ہمارے ملک کی  موجودہ صورتحال کے  ذمہ دار پڑھے لکھے لوگ ہیں۔

اس سے پہلے کہ آپ مجھے لکھنے پڑھنے کا مخالف تصور کریں ،میں چاہتا ہوں کہ اس کی توضیح کردوں۔ جیسا کہ ہر پاکستانی پر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے ملک کا جو سب سے طاقتور ادارہ ہے اس کو صرف وہ طلبہ اپروچ (approach) کر سکتے ہیں جو سب سے زیادہ قابل اور ذہین ہوں ، یعنی طلبہ میں سے جو کریم   ہوتے ہیں جنہوں نے زیادہ مارکس لیے ہوں، صرف وہ طلبہ وہاں اپلائی   کرسکتے ہیں۔ اور جن کے  نمبر  ان کے معیار کے مطابق نہ  ہوں،وہ طلبہ دیگر اداروں کی طرف اپنا رخ کرتے ہیں۔ یہ وہ ادارہ ہے جسے عام اصطلاح میں سلیکٹرز اور اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے ۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ اس انتہائی پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ادارے نے آج ملک کا اقتدار ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں  دے دیا ہے جس نے اپنی پوری زندگی میں بال پھینکنے اور وکٹوں  کے درمیان بھاگ بھاگ کر رن بنانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا تھا۔ جس نے نہ کبھی کسی یونین کونسل میں خدمات انجام دی  تھیں  اور نہ کسی شہر کا میئر  رہا تھا۔ اور نہ کبھی کسی وزیر یا مشیر کی حیثیت سے سسٹم  کا حصہ رہا تھا۔ تو اب آپ بتائیں کہ یہ پڑھا لکھا حادثہ نہیں ہے تو کیا ہے؟۔ اس کے بعد میں ملک کے دوسرے پڑھے لکھے ادارے کو داد دیتا ہوں جسے میڈیا کہا جاتا ہے۔ جس نے عمران خان کی سیاست کو اتنی کوریج   دی ،جو تاریخ میں کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ الغرض ٹی وی چینلز کے اینکرز سے لیکر اخبارات و رسائل کے کالم نگاروں اور دانشوروں پر مشتمل ایک فوج روزانہ صبح وشام ایک ہی راگ الاپتی رہی کہ عمران خان ہی اس ملک کا واحد نجات دہندہ ہے۔ اور بد قسمتی سے اس میڈیا پراڈکٹ کو تیار کرنے کے لیے بڑے بڑے ٹی وی چینلز پر 24 گھنٹے مہم  کے علاوہ صحافت کی  بڑے اور نامور شخصیات نے اپنی طرف سے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جن میں حامد میر، جاوید چودھری، مبشر لقمان، حسن نثار، کامران شاہد اور ارشاد بھٹی وغیرہ جیسے صحافت کے افلاطون شامل تھے۔ جو سمجھتے تھے کہ عمران خان باہر سے پڑھ کر آیا ہے، کرکٹ ورلڈکپ جیت چکا ہے اور شوکت خانم اور نمل جیسے ادارے اس کی  اچیومینٹس  ہیں۔ لہذا یہ ملک کی بھی تقدیر بدل دیگا۔

اب آپ غور کریں کہ کیا ورلڈکپ جیتنا اور شوکت خانم ہسپتال کے لیے چندہ اکٹھا کرنا وزیراعظم بننے کے لیے معیار بن سکتا ہے؟

اگر آپ کا جواب “نہیں” ہے تو پھر یہ پڑھا لکھا حادثہ نہیں ہے، تو کیا ہے؟ اس میڈیا پراڈکٹ عمران نیازی کو مظلوم عوام کے اوپر مسلط کرنے میں اعلیٰ عدلیہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور اس بڑے منصف ( بابا رحمتے) نے عمران نیازی پر صادق اور امین کا لیبل چسپاں کر کے تاریخ کا عظیم ظلم کیا۔

قارئین! عمران خان کی شکل میں یہ عذاب ہم پر اِن پڑھے لکھے لوگوں نے مسلط کیا ہے ان پڑھے لکھے اداروں نے یہ حادثہ کروایا ہے۔ اب اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ  ہماری پڑھی لکھی اپوزیشن یا پڑھی لکھی پی ڈی ایم ہمیں اس سے نجات دلاسکتی ہے تو یہ اس کی نادانی ہوگی۔ کیوں کہ اگر آٹے کا ایک کلو 500 روپے کا ہوجائے تو اس سے فضل الرحمان، بلاول اور شہباز شریف کو کیا فرق پڑتا ہے انہوں نے تو اپنی آنے والی سات نسلوں تک کے لیے دولت اکٹھی کی ہوئی ہے۔ ہر مرتبہ جب پی ڈی ایم کا اجلاس ہوتا ہے تو سڑکوں پر نکلنے کے لیے صرف تاریخیں دیتی رہتی ہیں اور اتفاق صرف اس بات پر کرتی ہیں کہ ہم حکومت کو اسمبلی میں ٹف ٹائم   دیں گے۔ اور اپوزیشن کا ٹف ٹائم کیا ہوتا ہے اسمبلی میں صرف شور شرابہ کرنا، ڈائس بجانا اور آخر میں واک آؤٹ کرنا ۔ کوئی بھی بل ہو اسے تو حکومت منظور کر دیتی ہے لیکن اپوزیشن کا ٹف ٹائم واک آؤٹ پر جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ حکومت ہی اس لیے کرتی ہیں کہ ان کو عددی برتری حاصل ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ نہ کرے اگر ڈالر 500روپے تک بھی پہنچ جائے تب بھی اپوزیشن،عدلیہ اور میڈیا کچھ نہیں کر سکیں  گے،اور صحافت کے یہ افلاطون ریٹنگ بڑھانے کے لیے صرف تجزیے کرتے اور سنسنی پھیلاتے رہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں سمجھتا ہوں کہ آج ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ صرف اور صرف مہنگائی ہے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید ہو یا ندیم انجم، ہمیں اس سے کوئی فائدہ نہیں کہ نیب کا چیئرمین جاوید اقبال ہو یا کوئی اور ہو، ہمیں شریف خاندان یا زرداری خاندان کے جیل میں جانے یا نکلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،ہمیں فرق پڑتا ہے تو صرف مہنگائی سے۔ عمران خان صاحب جتنے شوگر مافیا، آٹا مافیا اور رئیل اسٹیٹ مافیا ہے وہ تو آپ کے گرد طواف کرتے پھر رہے  ہیں اور آپ کو یہ جھوٹ بولتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی کہ ادھر چور ہے اور اُدھر چور ہے۔ آج میں عوام سے مطالبہ کرتا ہو کہ یہ ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی وغیرہ کے لیبل اپنے ماتھے سے صاف کر لیں اور صرف اور صرف ایک پاکستانی کی حیثیت سے اس مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں ،گلی گلی، قریہ قریہ اور شہر شہر مہنگائی کے خلاف احتجاج کریں، کیوں کہ یہ ظالم حکومت اسمبلی میں ٹف ٹائم دینے سے نہیں جائے  گی ،عوامی سیلاب کے ریلے میں بہہ کر ہی جائے  گی۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اور جمہوریت کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ عوام پر حکومت صرف عوام کی ہوگی کسی مخصوص ٹولے کی نہیں۔ تو پھر آئیں سب مل کر نکلیں، ایک قوم بن کرنکلیں ،   آئین کے دیے ہوئے حقوق کوحاصل کرنے کے لیے نکلیں، تاکہ آئندہ ہمارے ساتھ ایسے پڑھے لکھے حادثے نہ ہوں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply