فراغت اور مصروفیت۔۔ ڈاکٹر اظہر وحید

راولپنڈی سے ماہتاب قمر نے ۔۔ ذرا نام پر غور کریں‘ ماہتاب بھی اور قمر بھی، گویا چاند دوچند۔۔ ایک سوال پوچھا۔ سوچا ‘ اسے فون پر جواب دینے کی بجائے تحریر کی صورت میں جواب دیا جائے تاکہ افادِ عامہ کے کام بھی آئے۔ فون پر کہی ہوئی باتیں کچھ لمحوں میں ہوا ہو جاتی ہیں۔ لکھی ہوئی بات ‘باامراللہ اَمر ہو سکتی ہے۔ نوجوان دریافت کرنا چاہتا ہے کہ ایک سالک کیلئے فراغت کیا معنی رکھتی ہے۔ موصوف اٹلی سے سٹرکچرل انجینئر نگ میں بھاری بھرکم ماسٹرز کرنے کے بعد آج کل فارغ شد بیٹھے ہیں۔

چیزیں اپنے تقابل سے پہچانی جاتی ہیں اور اُن کی قدر باہمی موازنے سے متعین ہوتی ہے۔ فراغت کا ’’مقابلہ‘‘ مصروفیت سے ہے۔ اس مقابلے کی دنیا میں مصروفیت کی قدرو قیمت ہے‘ لیکن فراغت کی کوئی جگہ نہیں۔ اس تیز رفتار زندگی میں مصروف انسان ہیرو ہے اور مصروفیت سے فارغ ٗ زیرو۔ یہاں مصروفیت کا مصرف صرف معاش ہے۔ ہمارا بے سمجھ اور بے رحم معاشرہ ہمیں ایک پرزے کی طرح استعمال کرنا چاہتا ہے، بس چھکا چھک تین شفٹوں میں مشین کے ردھم کے ساتھ چلتے رہو، معاشیات کی اس میگا مشین کا ایک کل پرزہ بن کر اپنی صبح شام اِس میں جھونک دو، تاکہ معاش کی بھٹی چلتی رہے… اور اِسی مصروفیت سے ہماری’’کامیابی‘‘ کا تعین کیا جاتا ہے، ہم معاش کے پہیے کو جس قدر زیادہ گریس دینے کے قابل ہو جائیں‘ اس قدرہی گریس فل کہلاتے ہیں۔ قدر کی بجائے قیمت کی اہمیت نے ہماری مصروفیت کو معزز بنا کر پیش کر دیا گیا ہے۔ اس ناشناس معاشرے نے شناسائی کا جوہر چھین لیا ہے۔ مردم شناسی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ابھی ہم ایک دوسرے سے شناسا نہیں ہونے پاتے کہ ہمیں معاشیات کے بازار میں ایک جنس کی طرح بکنے کیلئے بھیج دیا جاتا ہے، جاؤ! اپنی قیمت لگوا کے آؤ، تب یہ خاندان تمہیں کوئی اہمیت دے گا۔ گویا گھر اور بازار میں فرق ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ ایک بھائی جو زیادہ سکے پیدا کرتا ہے‘ اس کی تجوری کی کھنکھناہٹ سب کو متوجہ کرتی ہے… وہ خاندان بھر میں معزز فرد شمار ہوتا ہے اور بے روزگار کی قدر روز بروز گرتی چلی جاتی ہے۔ ایک مصروف ترین ڈاکٹر کو اپنے شعبے میں کامیاب ترین سمجھا جاتا ہے… اور یہ دریافت کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ اِس سے مخلوقِ خدا کا کچھ بھلا ہو رہا ہے ‘ یا پھر بے تحاشا استحصال۔ ایک مقرر کے سامنے بیٹھے ہوئے سامعین کی تعداد کو اُس کی کامیابی کا ایک عدد قرار دیا جاتا ہے۔ اس مقدار کی دنیا میں گویا ساری گیم نمبروں کی ہے، یوٹیوب یا فیس بک کی کسی پوسٹ پر نمبر آف کلک کسی کی کامیابی کا معیار ہے، اِسی سے نیلا ، پیلا بٹن کسی نشانِ امتیاز کی طرح الاٹ ہوجاتا ہے۔ سائلوں کی بھیڑ کسی کے سخی ہونے کی دلیل نہیں۔ کہتے ہیں‘ کسی نے حاتم طائی کی سخاوت کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اتنا سخی ہے کہ اگر ایک سائل اُس کے گھر کے چالیس دروازوں سے صدا دیتا‘ تو وہ اسے ہر دروازے سے دان کرتا تھا۔ سننے والا درِ علمؑ کا سائل تھا، سخاوت کے اصل مفہوم سے آشنا تھا، خاندانِ صفا و سخا سے فیض یافتہ تھا، سائل کو اونٹوں کی قطار عطا کرنے کا منظر دیکھ چکا تھا، اُس نے جواب میں کہا ‘یہ تو کوئی سخاوت نہ ہوئی، سخاوت کی اصل تو یہ ہے کہ ایک دروازے سے سائل کو اس قدر مل جائے کہ وہ دوبارہ کسی اور دَر پر صدا لگانے کی ضرورت سے بے نیاز ہو جائے۔

آمدم برسر مطلب! مصروفیت ایک عامی کیلئے شاید نعمت ہو لیکن خواص کیلئے ایک مصیبت اور آفت سے کم نہیں۔ مصروفیت ایک عامی کیلئے اس لیے ضروری متصور ہوتی ہے کہ “خانہ خالی را دیو می گیرند” ، جسے انگریزی میں کہا جاتا ہے an empty mind is a devil’s workshop ، وہ مصروف رہے تاکہ مخلوق اس کے شر سے محفوظ رہے۔ شرارتی بچہ جتنی دیرتک اسکول میں ہوتا ہے ‘ماں سکون کا سانس لیتی ہے۔ اس کے برعکس ایک صاحب ِ فکر کیلئے مصروفیت اس کے فکری سفر میں ایک رکاوٹ نہیں تو بے وجہ مشقت ضرور ہے۔مشقت و ریاضت بھی ایک حد تک روا ہوتی ہے، حد سے ورا مشقت جوہرِ قابل کو بھی اپنی چکی میں پیس کر رکھ دیتی ہے۔ چکی کی مشقت کے ساتھ مشقِ سخن جاری رکھنے کی حسرت میں کتنے ہی کلام قرطاس و قلم کے سپرد ہونے سے رہ گئے۔ بہت سے شاعر ادیب اور مصور ایسے دیکھے ہیں‘ جنہیں معاش کی مصروفیت چپکے سے نگل گئی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔

مصروفیت کا تعلق بیرونی دنیا سے ہے ، فراغت کا تعلق ہمارے اندر کی دنیا سے۔ فراغت ہمیں اندر کی دنیا سے متعلق کرتی ہے۔ چمکتے ہوئے آفتاب اور دمکتے ہوئے ماہتاب کا مشاہدہ کرنا ایک مصروف آدمی کے بس کی بات نہیں۔ گھڑی کی سوئیاں دیکھ کر چلنے والا ‘ممکن ہے کچھ لوگوں کی نظرمیں قابلِ تحسین ہو لیکن ہماری دانست میں گھڑی کی سوئیوں سے بندھے ہوئے بندے کی سوئی کہیں اٹکی ہوتی ہے۔ وہ روٹین سے ہٹ کر معاملات کا شاہد نہیں ہوتا۔بروقت موجود ہونا اپنی جگہ ‘ لیکن اقبال دیر سے ہی آتا ہے۔ گھڑیاں ، کلینڈر اور پھر ایئر پلانرز ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو نگل گئے۔

جنہیں باطن سے رغبت ہوتی ہے‘ وہ فراغت کو نعمت سمجھتے ہیں۔ جو ظاہر میں مشغول رہنا چاہتے ہیں‘ وہ مصروفیت ڈھونڈتے ہیں۔ فکرِ معاش سے آزاد طبقے کو بھی مصروفیت چاہیے ، اور کچھ نہیں تو لیٹ نائٹ پارٹیاں، باربی کیو ہنگامے ، لانگ ڈرائیو کے ہلے گلے اور ایسی بے شمار نان اسٹاپ تفریحات کی شکل میں مصروفیت کا جِنّ انہیں قابو کیے رکھتا ہے۔ فراغت تو بس انہیں راس آتی ہے جو کسی راز اور آشنائے راز کی تلاش میں ہوتے ہیں، جنہیں کوئی فکری نکتہ رات بھر جگائے رکھتا ہے، جو کسی نظریے سے وابستہ ہوتے ہیں… درست یا غلط‘ اس کی تفریق بعد کی بات ‘ صاحب ِ فکر بہرطور قابل ِ توجہ ہے…مرشدی حضرت واصف علی واصف ؒ فرمایا کرے کہ انکار بھی اقرار کی ایک حالت کا نام ہے… جنہیں کسی مصرعے کی بحر ‘ بحر اوقیانوس سے گہری دکھائی دے ،جنہیں کسی فقرے کا وزن‘ مشتری کی ثقل سے زیادہ بھاری محسوس ہو … یہ صاحبانِ اِحساس ہیں، صاحبانِ غور و فکر… غوّاصانِ بجر معانی…جن کی شب بیداریاں قوم کو بیدار کرنے کے باعث ہوتی ہیں۔ یہ جاگتے میں خواب دیکھنے والے لوگ ہیں… خواب اور حقیقت کا فرق جانتے ہیں۔ لفظوں سے معانی کا سفر کرنے والوں کی مصروفیت کچھ اور ہے، اس کیلئے انہیں فراغت چاہیے۔ باطن کی دنیا کے سیاح فراغت سے رغبت رکھتے ہیں۔

جسے اپنے کاموں سے فراغت ہوگی‘ وہی دوسروں کے کام آسکے گا، وہی دوسروں کی بات سن سکے گا۔ مصروف آدمی کو اپنے پاس کھڑا شخص نظر نہیں آتا‘ وہ دُور جاتے ہوئے کو کیسے روک پائے گا۔ مصروف شخص اپنا ورک مینوئل تو پڑھ سکتا ہے، آس پاس کوئی چہرہ نہیں پڑھ سکتا۔ اپنی خواہشوں کا غلام مصروف رہے گا، اور اپنی خواہشات سے فارغ ہونے والا فراغت ایسی نعمت کا مفہوم جان سکے گا۔ خدمت ِ خلق کیلئے خود سے فارغ ہونا پڑتا ہے۔ مصروف آدمی اپنی معاش کی کلیں سیدھی کرنے میں مصروف رہتا ہے‘ اسے خدمت اور محبت کی دنیا سے آشنائی نہیں۔ مشینوں کی گڑگڑاہٹ میں فطرت کی سرگوشی نہیں سنی جا سکتی ہے۔ مشینوں کے شور نے انسان سے معصومیت کا شعور چھین لیا ہے۔ فطرت اپنا راز معصوم صفت لوگوں پر کھولتی ہے۔ معصوم کو کوئی مصروفیت خود سے غافل نہیں کرتی۔ جو اپنی حاجات سے فارغ ہوتا ہے ‘وہی دوسروں کی حاجت روائی کر سکتا ہے۔

دنیا دار کا وقت بہت ’’قیمتی‘‘ ہوتا ہے،اس نے اپنے وقت کو بیچ کر دنیا کا اثاثہ بنانا ہے، اس لیے غریبوں کے درمیان اس کا بہت سا وقت ضائع ہوتا ہے۔ جسے امیر لوگوں کی صحبت کی ہوس ہو‘ غریب اس کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ جہاں اس کا مفاد وابستہ نہیں ہوتا‘ وہاں جا کر اس کا وقت ضائع ہوتا ہے۔درویش کے پاس بے انت وقت ہوتا ہے‘ اس کا وقت کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ جب وہ عام اور خاص کی تخصیص ترک کر دیتا ہے تو اس کے پاس کوئی امیر بیٹھے یا غریب‘ اسے اُس سے کیا غرض؟۔۔۔۔ وہ تو دینے کے مقام پر ہے، لینے کے مقام سے وہ کب کا فارغ باشد ہو چکا۔ درویش جانتا ہے کہ وقت اگر قیمتی ہے تو قیمتی چیز قیمتی لوگوں کیلئے ہی ہوتی ہے، اور انسان سے بڑھ کر اس کائنات میں اور چیز کیا چیز قیمتی ہو سکتی ہے؟ انسان ہی تو اِس کائنات کا محور و مرکز ہے، جو مرکز و محور کے قریب ہوتا ہے‘ اُس کی گردش رک جاتی ہے۔ مرکز میں جاگزیں شخص حرکت کیے بغیر سفر میں ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بات سند سے ہونی چاہیے، قرآن و حدیث سے بڑھ کر کیا سند ہو سکتی ہے۔ کلامِ پاک میں ایک آیت ہے، انشراح صدر والوں کیلئے ایک اہم سبق ‘الم نشرح سورت میں… فاذا فرغت فانصب، والیٰ ربک فارغب… اور جب تم فراغت میں آجاو تو خوب جم کر (اپنے رب کا ذکر کرو) اور اپنے رب کی طرف رغبت کرو۔ قولِ رسولِ کریمﷺ ہے کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جان … اپنی جوانی کوبڑھاپے سے پہلے ، اپنی صحت کو بیماری سے پہلے ، اپنی خوشحالی کو بدحالی سے پہلے ، اپنی فراغت کو مصروفیت سے پہلے، اور اپنی حیات کو موت سے پہلے۔ سبحان اللہ وبحمدہٖ… گویا فراغت مصروفیت کے مقابلے میں ایک نعمت بھی ہے اور غنیمت بھی! نعمت عافیت ہوتی ہے… اور عافیت کا چھن جانا آفت بھی ہے اور مصیبت بھی!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔