برطانیہ میں تارکین وطن کا بحران ۔۔ فرزانہ افضل

24 نومبر بروز بدھ ایک دل دہلا دینے والا حادثہ رونما ہوا، فرانس کے ساحل سمندر سے 29 عدد غیر قانونی مہاجرین ایک چھوٹی سی کشتی میں سوار ہو کر برطانیہ آ رہے تھے کہ ان کی کشتی ایک مال بردار جہاز سے ٹکرا کر الٹ گئی، ان میں سے 27 افراد سمندر کے یخ بستہ پانیوں میں ڈوب کر اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ دو افراد کو بچا لیا گیا، ان کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ اس حادثے سے جہاں انگلینڈ اور یورپ بھر میں تہلکہ مچ گیا وہاں عوام الناس کو بھی اس المناک حادثے سے بہت گہرا صدمہ پہنچا۔ برطانیہ اور فرانس دونوں ممالک کے درمیان اس مسئلہ پر سنگین بحث چھڑ گئی ہے دونوں حکومتیں اس طرح کے حادثات اور غیر موثر کارکردگی کے لئے ایک دوسرے کو مؤردِ الزام ٹھہرا رہی ہیں جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں خاصی کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔

برطانیہ کے ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل کے مطابق فرانسیسی حکومت اور بارڈر ایجنسیاں انسانی سمگلنگ کو روکنے میں ناکام رہی ہیں جبکہ فرانسیسی حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ انسانی سمگلروں کے گروہوں کے نیٹ ورک کے سرداران تو انگلینڈ میں رہائش پذیر ہیں لہذا برطانوی حکومت کو انہیں گرفتار کرنا چاہیے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے 5 پانچ نکاتی منصوبہ فرانس کے وزیراعظم ایمینول میکرون کو بذریعہ خط تجویز کیا مگر ساتھ ہی عوام کی آگاہی کے لیے ٹوئٹر پر بھی اپ لوڈ کر دیا جس سے وزیراعظم میکرون جو پہلے ہی خار کھائے بیٹھے تھے مزید برہم ہوگئے انہوں نے کہا کہ یہ کوئی طریقہ کار نہیں، حکومتیں اس طرح سے آپس میں معاملات طے نہیں کرتیں۔

اس پانچ نکاتی منصوبے میں جہاں سمندری حدود پر کنٹرول رکھنے اور آپس میں تعاون کرنے کا ذکر ہے وہاں ایک کڑی شرط یہ بھی رکھ دی گئی کہ فرانس برطانیہ سے معاہدہ کرے کہ وہ ان تمام غیر قانونی مہاجرین کو واپس قبول کرےگا جو فرانس کے ذریعے برطانیہ میں داخل ہوئے ہیں فرانس کے وزیراعظم میکرون نے اس شرط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور بروز اتوار 28 نومبر 2021 کے طے شدہ اجلاس جس میں برطانیہ کے ہوم سیکرٹری اوریورپی یونین کے چند ممالک کے وزراء داخلہ شرکت کرنے والے ہیں، اس اجلاس میں برطانوی ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل کا دعوت نامہ منسوخ کر دیا ہے اور انہیں اس میٹنگ میں آنے سے منع کر دیا ہے۔ یہ خبر سن کر پریتی پٹیل کا تو پتہ نہیں لیکن مجھے بطور برطانوی شہری بہت شرمساری محسوس ہوئی اور دل میں خیال آیا، “اے تے بستی جی نئیں ہوگئی ” ۔

گزشتہ دنوں مجھے ٹیلی ویژن پر ہونے والی پارلیمانی بحث دیکھنے کا موقع ملا جس میں محترمہ ہوم سیکریٹری صاحبہ سے سوال و جواب کی نشست جمی ہوئی تھی۔ ان کا اندازبرطانوی امیگریشن پالیسی کے بارے میں انتہائی جارحانہ تھا کبھی کبھار تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کاشجرہ نسب کہیں نہ کہیں فرعون سے جا ملتا ہے یا پھر رومی بادشاہوں سے کوئی دور پار کی رشتہ داری ہے کہ ان میں انسانی ہمدردی اور رحم دلی کا اس قدر فقدان ہے۔

مہاجرین سے تعصب کا رویہ اکثر میرے مشاہدے میں آتا ہے۔ کون ہے جو اپنا گھر بار، ملک اور وطن چھوڑ کر خالی ہاتھ بے سروسامانی کی حالت میں اپنی جانوں کومشکل میں ڈال کر غیر قانونی راستوں سے، غیر قانونی ایجنٹوں کو بھاری رقوم ادا کرکے دوسرے ملک میں ہجرت کے لئے چل پڑیں گے۔ کون سے ایسے حالات ہیں جو ان کو ایسا کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک لوگ ٹرکوں میں چھپ کر مختلف راستوں سے برطانیہ آیا کرتے تھے پھر ان ایجنٹوں کی فیسیں آسمان سے چھونے لگیں  تو یہ بے سہارا لوگ سستے ایجنٹوں سے رابطہ کرکے سمندر کے راستے چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں آنے لگے۔ برطانیہ مہاجرین کے لیے اس وجہ سے پرکشش ہے کہ یہ ایک محفوظ پناہ گاہ ہے اور روزگار بھی مل جاتا ہے۔

رواں سال 2021 میں فرانس کے سمندری راستے غیر قانونی طور پر برطانیہ آنے والوں کی تعداد 25،776 ہیں جو گزشتہ برس سے تین گناہ زیادہ ہے۔ حقائق کے مطابق زیادہ تر مہاجرین کی تعداد جن ملکوں سے ہے وہ ایران، عراق اور شام ہیں لہذا یہ سب وہ ممالک ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے بڑی طاقتوں کی لگائی ہوئی جنگوں کی آگ کی وجہ سے برباد ہوگئے ان مظلوم لوگوں کے گھر بار خاندان اجڑ گئے، کجا روزگار، کوئی تو پناہ دے، کہیں تو ٹھکانا ہو۔
بقول علامہ اقبال،
نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس، نہ آشیانہ

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری گاڑی پر بھی اگر خراش آجائے تو کئی دن تک دل میں ملال رہتا ہے جن لوگوں نے اپنا سب کچھ کھو دیا ذرا ان کے بارے میں سوچیں۔
یہی ظالم حکمران ان ممالک میں اپنی  فوجیں بھیج کر گولہ بارود سے بمباریوں سے ان کو تہس نہس کرتے ہیں، ان کی نسلیں ختم کرکے رکھ دیتے ہیں اور پھر ان برباد اور اجڑے ہوئے انسانوں کو زمین پر کوئی ٹھکانہ بھی نہیں عطا کرتے۔ بریگزٹ کے بعد مہاجرین کا مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہو گیا ہے۔ مگر سب سے پہلے تو اس مسئلے کی جڑ کو ختم کرنا ہوگا انسانی حقوق کی تمام تنظیموں کو عملی طور پر مل کر کام کرنا ہوگا دنیا میں ہر ملک کے عوام کو پوری آزادی اور تحفظ سے جینے کا حق حاصل ہونا چاہیے انسانی قتل و غارت بند ہونی چاہیے مقبوضہ کشمیر میں ظلم 1947 سے جاری ہے اور آج تک اس مسئلہ کو سلجھایا نہیں جا سکا۔
ظلم کے ہوتے امن کہاں ممکن یارو
اسے مٹا کر جگ میں امن بحال کرو
( حبیب جالب)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply