فکسنگ بمقابلہ فکسنگ۔۔۔۔۔ مدثر ظفر

بر صغیر میں کرکٹ کا ورود انگریز کی آمد کے ساتھ ہو ا۔صاف ستھرا کھیل ہونے کی وجہ سے Gentleman’s Game کہلا یا اور حقیقت میں یہ جینٹل مینس گیم ہی رہا جب تاوقتیکہ کرکٹ کے ایوانوں میں میچ فکسنگ کی بازگشت سنائی دینے لگی ۔

کرکٹ میں فکسنگ کب شروع ہوئی اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن 1971 میں چونکہ ون ڈے کرکٹ کا آغاز ہوا اس لیے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ باقائدہ میچ فکسنگ 70 کی دھائی کے بعد ہی شروع ہوئی ہوگی کیونکہ محدود اوور کے میچ کو فکس کرنا بہ نسبت طویل دورانیہ کے پانچ دن پر محیط ٹیسٹ میچ فکس کرنے کے آسان ہے ۔ لیکن ماضی میں ٹیسٹ میں بھی میچ فکسنگ ہوتی رہی ہے ،باقائدہ میچ فکسنگ کا اسکینڈل 1981 میں ایشز کے دوران سامنے آیا جب آسٹریلوی کھلاڑیوں ڈینس للی اور روڈ مارش نے ایشز کے دوران میچ فکس کیا ، 1994 میں سری لنکا کے دورے کے دوران مارک وا اور شین وارن پر پانچ ہزار ڈالر کے عوض پچ رپورٹ ایک Bookie کو لیک کرنے کے الزامات لگے اس پر انہیں معمولی جرمانہ ہوا ۔ 1998 میں پھران ہی دو آسٹریلوی کھلاڑیوں مارک وا اور شین وارن پر ایک Bookmaker کو میچ اورموسم سے متعلق معلومات فراہم کرنے کا الزام لگا اور ایک بار پھر ان پر معمولی جرمانہ ہی ہوا، لیکن فی ذاتہ یہ اسکینڈل ایسے نہ تھے جو عالمی توجہ اپنی جانب مبزول کراتے ۔

کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا فکسنگ اسکینڈل اس وقت سامنے آیا جب 1999-2000 میں انڈیانے ساؤتھ افریقہ کے ساتھ Home-series کھیلی۔سیریز ختم ہونے کے معاً بعد 7 اپریل 2000 کو دہلی پولیس کو اس وقت کے ساؤتھ افریقہ کے کپتان ہنسی کرونیئے اور ایک Blacklilsted Bookie سنجے چاولہ کے درمیان روابط کے شواہد ملے ۔ تفتیش پر ہنسی کرونیئے نے جلد ہی پیسے لے کر میچ فکس کرنے کا اعتراف کر لیا ، اس میں تین اور کھلاڑیوں کا بھی نام لیا گیا جس میں معروف بلے باز ہرشل گبز ،نکی بوئیے،اور پیڑسٹریڈوم شامل تھے ۔

پولیس دیگر جنوبی افریقی کھلاڑیوں سے بھی پوچھ گچھ کرنا چاہتی تھی لیکن جنوبی افریقی حکومت نے اپنے کھلاڑیوں کو کسی بھی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے سے سختی سے منع کر دیا ۔

اعتراف جرم اور کنگ کمیشن کی انکوائری کے بعد ہنسی کرونیئے پر کرکٹ کے دروازے تا حیات بند کر دیئے گئے ۔کرونیئے نے اس فیصلہ کو عدالت میں چیلنج کیا لیکن 13 اکتوبر 2001 کو کرونیئے کی درخواست مسترد کر دی گئی ،عین ممکن تھا کہ کیس مزید چلتا اور دیگر کھلاڑیوں کے نام بھی سامنے آتے لیکن یکم جون 2002 کو ہوائی جہاز کے ایک المناک حادثہ میں ہنسی کرونیئے جاں بحق ہوگئے ۔

اپنی نوعیت کا یہ پہلا کیس تھا جس میں فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کو سزائیں ہوئیں ،ہنسی کرونیئے نے دو بھارتی کھلاڑیوں جن میں سابق کپتان محمد اظہر الدین، وکٹ کیپر بیٹس مین اجے جڈیجا اور ایک سابق پاکستانی کپتان سلیم ملک کا نام بھی لیا ،ہنسی کرونیئے کی نشاندھی پر ان کھلاڑیوں کے متعلق تحقیقات کے بعد یہ کھلاڑی بھی کسی نہ کسی رنگ میں میچ فکسنگ ملوث پائے گئے اور ان پر بھی کرکٹ کے دروازے بند کر دئے گئے ۔بعد ازاں ہرشل گبز نے بھی

میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا لیکن ہر شل گبز نے پیسے لینے کے باوجود جس طرح طے تھا میچ نہ کھیلا ، اس میچ میں گبز نے پچاس بال پر ستر رنز بنائے، جس بناء پر تا حیات پابندی سے بچ رہے لیکن انہیں ایک سال کے لیے کسی بھی قسم کی کرکٹ کھیلنے کی پابند ی کا سامنا کرنا پڑا۔یہ پہلا کیس تھا جس میں کھلاڑیوں کو تا حیات سزائیں ہوئی اور میچ فکسنگ کا جن بوتل سے باہر آیا ۔

اس اسکینڈل اور آئی سی سی کی جانب سے سخت اقدامات کی بدولت ایک عرصہ تک فکسنگ کے حوالے سے جمود طاری رہا گو کہ متعدد کھلاڑیوں پر فکسنگ کے الزامات لگتے رہے لیکن ثابت نہ ہو ئے ،(اس عرصہ کے دوران 2008 میں ’’جنت‘‘ کے نام سے بالی وڈ فلم کرکٹ میچ فکسنگ کے موضوع پر بنی )۔لیکن سال 2010 میں کرکٹ کی تاریخ کا دوسرا بڑا فکسنگ اسکینڈل سامنے آیا جس میں انگلینڈ کے خلاف چوتھے ٹیسٹ میں تین پاکستانی کھلاڑی اسپاٹ فکسن میں ملوث پائے گئے ، ان میں محمد آصف ،سلمان بٹ اور محمد عامر شامل تھے ۔جرم ثابت ہونے پر تینوں کو حوالہ حوالات کیا گیا اورپوری دنیا میں پاکستان کی شدید بد نامی و جگ ہنسائی ہو ئی۔پھر 2013 میں متعدد نیوزی لینڈ کھلاڑیوں پر فکسنگ کے الزامات لگے ، اور بھی چھوٹے چھوٹے اسکینڈل ہوتے رہے اسی طرح حال ہی میں آئی پی ایل لیگ اپنے آغاز سے ہی مسلسل فکسنگ کے الزامات اور تنازعات کی زد میں ہے اور بڑے پیمانہ پر اس میں فکسنگ ہو رہی ہے ۔

کرکٹ میچ اسپاٹ فکسنگ کا معاملہ گزشتہ تین دن سے ایک بار پھر موضوع بحث بنا ہواہے ۔اس گر ما گر می کا آغاز جاوید میانداد کے شاہد آفریدی کو فیئر ویل میچ دیئے جانے کے سوال پر ہو ا جب میانداد نے کہا کہ

“شاہد آفریدی نے میچ بیچے میں نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا ۔یہ چور کے بچے ہیں میں تمھیں شواہد لا دوں گا کہ انہوں نے کئی بار میچ بیچے، یہ میچ فکسر اور نمک حرام ہے” ۔

جس پر شاہد آفریدی نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا “میانداد نے ہمیشہ پیسوں کے لئے میچ کھیلے ۔میانداد کو ہمیشہ پیسوں کا مسئلہ رہا ہے اور اب بھی ہے” ،اتنے بڑے کرکٹر کو ایسی بات نہیں کرنی چاہئے تھی ۔

اس تنازعہ کے اٹھتے ہی دیگر سینئر کھلاڑی جن میں وسیم اکرم ، شعیب اختر ، انضمام الحق ، محمد یوسف وغیرشامل ہیں بیچ بچاؤ کرانے میدان میں اترے اور طرفین کو الزامات لگانے سے گریز اور صلح صفائی کے مشورے دینے لگے ۔

اس بحث نے نیا رخ اس وقت اختیار کر لیا جب آفریدی نے اس معاملہ کو عدالت میں لے جانے کا اعلا ن کیا ۔اس اعلان کے بعد جاوید میانداد نے سنگین الزامات اپنے اوپر لگنے اور لگانے کے باوجود شاہد آفریدی کو معاف کرنے کا اعلان کرتے ہو ئے کہا کہ “بڑا ہونے کے ناطے میں آفریدی کو معاف کرتا ہوں” ۔

لیکن یہ معاملہ اگر یہاں ختم ہو بھی جائے تو بہت سے لا ینحل سوال اپنے پیچھے چھوڑجائے گا ، میانداد کو اگر پتہ تھا کہ شاہد آفریدی میچ فکس کرتا ہے اور بقول اس کے آفریدی کو رنگے ہاتھوں پکڑا تو انہوں نے اس وقت آفریدی کے ہاتھ کیوں نہ روکے ؟اپنے سامنے جرم ہوتا دیکھ کر خاموش رہنا بھی شریک جرم ہونے کے مترادف ہے ۔پھر آفریدی کے معافی مانگنے سے قبل ہی میانداد کا آفریدی کو معاف کر دینا اپنی جگہ شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے ۔آفریدی نے گو کہ میانداد کے معاف کرنے کے عمل کو سراہا لیکن ساتھ یہ بھی شرط لگا دی کہ الزامات واپس لو ورنہ اپنے آپ کو کلیئر کروانے کے لیئے عدالت جاؤں گا ، لیکن عدالت میں آفریدی کو یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ کب کب اور کون کون سے میچ میانداد نے پیسوں کے لیئے کھیلے ۔

بقول شخصے فکسنگ کے اس حمام میں سب ننگے ہیں ،ماضی میں جن پر فکسنگ کے الزامات لگے لیکن ثابت کچھ نہیں ہوا عدالت میں کیس جانے پر اس حمام کی دواریں گرنے کا بھی اندیشہ ہے کئی سفید پوشوں کی دستاریں رل جائیں گی ، شاید یہی وجہ ہے متعدد سینئر کھلاڑی اس تگ و دو میں ہیں کہ معاملہ عدالت تک نہ جائے۔

اس ضمن میں ایک بات قابل غور ہے کہ دونوں کھلاڑیوں کا کیریئر میچ فکسنگ کے حوالے سے بے داغ رہا ہے ان کا شمار ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جن کے دامن پر فکسنگ کے الزامات نہیں، اس کیس میں بظاہر شاہد آفریدی کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے.

   اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ معاملہ یہیں ٹھپ ہو تا ہے یا کر کٹ کی تاریخ کے چند اور فکسنگ اسکینڈل ہمارے سامنے آتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

Let the cat out of the bag

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply