تعلیمی ابتری ۔ خواجہ احسان الحق

 گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک انتہائی پرلطف تصویر گردش کر رہی تھی جس میں ایک سکول کی ریسیپشنسٹ برخوادار کا ہاتھ تھامے والد کو ہدایت کرتی ہے کہ سکول کی پالیسی کے مطابق آپ کو کتابیں، یونیفارم اور بیگ سکول سے ہی لینے پڑیں گے۔ “اور تعلیم؟؟”” والد تھوڑی تشویش سے پوچھتا ہے۔ “اس کے لیے آپ انہیں ٹیوشن رکھوا دیں۔” بے رحمانہ حد تک درست اس چٹکلے میں نہایت ہی تلخ حقیقت کو سمو دیا گیا ہے۔

آج کے والدین کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ بچوں کو تعلیم کہاں سے دلوائی جائے۔ جس ادارے میں جائیں وہ اپنی غیر نصابی سرگرمیوں کا چرچا کرنے بیٹھ جاتا ہے مگر یہ نہیں بتاتا کہ نصابی سرگرمیوں کے لیے کہاں جا کر سر پٹخا جائے۔ سکول میں داخل کرانے جائیں تو قدم قدم پر سوالات کی ایسی بارودی سرنگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ پی ٹی سی ایل کی ہیلپ لائن یاد آجاتی ہے۔ آپ بچوں کو آکسفورڈ کا نصاب پڑھانا چاہتے ہیں یا قابل صد احترام گورنمنٹ آف پاکستان کا؟ اگر آکسفورڈ پر کلک کریں گے تو فیس سن کر بتیسی باہر نہ بھی آئی تو کم از کم ہوش ضرور ٹھکانے آجائیں گے۔ حکومتی نصاب پڑھوانا ہے تو انگلش میڈیم پسند فرمائیں گے یا اردو میڈیم؟ “مار نہیں پیار والا پیکج چاہیے یا مار ہی مار والا”، میٹرک میں او لیول پڑھوانا ہے یا پنجاب بورڈ کا۔ غرض حکومتی لیول پر کوئی تعلیمی پالیسی بنانے اور نافذ کرنے کی بجائے چکن، مٹن اور بیف کا گوشت لٹکا کر عوام کو قصابوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

ایک نیا ٹرینڈ “تخلیقی صلاحیت ” کی بڑھوتری ہے جس کا اصل طریقہ یہ کہ مختلف عنوانات کے تحت جماعت میں مکالمہ یا مباحثہ کروا کے طلبہ کو اپنے الفاظ میں لکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ لیکن ٹیچرز کلاس میں عنوان بتا کر ہوم ورک میں مضمون لکھنے کا کہہ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں پھر بچہ جانے اور اس کے غریب والدین۔ ایسے میں واحد سہارا ٹیوشن کا ہی رہ جاتا ہے۔ ویسے بھی نصابی کتب میں کچھ اسباق ایسے شامل ہوگئے ہیں جن کے متعلق بچہ کوئی سوال پوچھ بیٹھے تو والدین گھور کر کہتے ہیں۔ “جو کتاب میں لکھا ہے اسے یاد کرتے جائو۔ اوٹ پٹانگ سوال مت کرو۔”

حال ہی میں میٹرک کا ریزلٹ آئوٹ ہوا ہے۔ ہر ادارہ اس جشن میں مصروف ہے کہ اس کے طلبہ نے حیران کن حد تک زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں لیکن جس امر کی جانب کسی کی توجہ نہیں وہ یہ ہے کہ اٹھانوے اور ننانوے فیصد مارکس کے حامل ان نوجوانوں کی ذہنی استعداد کتنی ہے۔ ان میں سے کتنے اپنے گردو پیش کے حالات سے باخبر ہیں۔ کتنے نوجوان تین ہندسی اعداد کے زبانی حساب کتاب کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کتنے نوجوان نقشہ پڑھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ لیکن ان نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہائی گریڈز کے حامل کاغذ تھما کر والدین کو چین کی میٹھی نیند سلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ صرف سکول کی سطح کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ کالج اور پھر یونیورسٹی تک کا مسئلہ ہے کہ ہمارے نوجوان نصاب کے عملی پہلووں سے چنداں واقفیت نہیں رکھتے اور ہاتھ سے کام کرنے والوں کو ویسے ہی تحقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے سو ایسے میں کسی انجینیر کے سامنے کوئی مشین کھول کر رکھ دی جائے تو بجائے اس کا تکنیکی معائنہ کرنے کے ناک بھوں چڑھا کر کہا جاتا ہے کہ ہم کوئی مکینک یا ٹیکنیشن تھوڑی ہیں۔ اس باعث ایک بہت دلچسپ فضا سامنے آتی ہے۔

میٹرک کے بعد اچھے گریڈز کے حامل طلبہ باآسانی انٹرمیڈیٹ سائنس میں داخلے لے کر “ڈاکٹرز” اور “انجینیرز” جیسے باعزت شعبوں کی راہ پر چل نکلتے ہیں جبکہ نچلے گریڈز کے حامل طلبہ “پولی ٹیکنیک” اداروں میں داخل ہو کر الیکٹریشن، ریفریجریشن یا مکینک کا کورس کرتے ہیں۔ یونیورسٹی میں داخلے کے وقت ان نوجوانوں کو بھی خیرات میں چند فیصدی نشستیں الاٹ کر دی جاتی ہیں۔ لیکن یونیورسٹی کے سٹارٹ ہوتے ہی اکثر یہ رجحان دیکھنے میں آتا ہے کہ پولی ٹیکنیک والے طلبہ اپنے عملی تجربے کی بنیاد پر پری انجینیرنگ کے طلبہ سے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ انہیں اصل مشکل ریاضی میں آتی ہے جو انہیں تین سالہ کورس میں پڑھائی ہی نہیں جاتی یا انگلش کی وجہ سے وہ تھوڑا پیچھے رہتے ہیں۔ تو میرے خیال میں اگر انٹر میڈیٹ نصاب کو تکنیکی مہارتوں سے آراستہ کر کے ان دو مروجہ نظاموں کی بجائے ایک ہی نظام اوپن میرٹ کے تحت نافذ کر دیا جائے تو تعلیمی استعداد میں بہت بہتری لائی جا سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply