صدائے آفرینش: ناقابلِ فراموش دانیالہ

7 جولائی 2004 کو علی الصبح لیبیا کے شہر زلیتن سے ہم نے ایک چھوٹی سی کشتی کے ذریعے اٹلی جانے کے لیے سفر شروع کیا ۔ ہم کل پچیس افراد تھے اور سب کا تعلق سابقہ متحدہ ہندوستان سے تھا جو کہ اب منقسم کشمیر ، بھارت ، پاکستان اور بنگلہ دیش کہلاتے ہیں۔ہم دو دن سمندر میں بھٹکنے کے بعد اور اکثریت کی دلبرداشتگی کے بعد بالآخر 9 جولائی 2004 بروز جمعۃ المبارک بوقت سات بجے صبح باون گھنٹے کے بعد مالٹا کی سمندری حدود میں داخل ہوئے ، جہاں پہلے پہل تو اے ایف ایم مالٹا نے ہمیں ٹالنے کی کوشش کی کہ ہم ان کے متھے نہ ہی لگیں اور اٹلی ہی چلتے بنیں ، لیکن بعد میں ہماری بد قسمتی یا ان کی نیت کا فتور آڑے آیا کہ انہوں نے ہمیں اپنی تحویل میں لیا ، ہماری چھوٹی سی کشتی کو اپنی فیری کے ساتھ باندھا اور ہمیں وہاں سے مسلح گارڈ ،جیسے کہ انہوں نے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہو، کی موجودگی میں ہمیں اپنی فیری پر لادا اور سیدھے مالٹا پولیس ہیڈ کوارٹرز لے آئے ۔
جہاں مالٹا پولیس کی ایک ذمہ دار اور انسانیت سے بھرپور ارلی میری کیمولیری نے ہمیں ویلکم ٹو مالٹا کہہ کر سائیڈ لگا کر اپنا تعارف کروایا ۔مجھے اس وقت جب ہم مالٹا پولیس کی تحویل میں آئے تو اسیر مالٹا محمود الحسن دیوبندی صاحب بہت یاد آئے اور ان سے روحانی اور فکری تعلق کی بنیاد پر یہ قلق تھا اور اپنے ضمیر پر بوجھ محسوس ہوتا رہا کہ جہاں وہ جنہیں گورے نے ضمیر اور آزادی کی جدوجہد کی پاداش میں مالٹا کی قید میں ڈالا تھا اور کہاں ہم جو کہ آج رضاکارانہ طور پر یہاں اسیر بننے آ گئے ، لیکن اب یہ مالٹا وہ برطانوی کالونی نہیں ایک رپبلکن اور یورپی یونین کا ممبر ملک تھا ۔ ہمیں ابتدائی طبعی معائنہ کے بعد ہمیں گروپ نمبر الاٹ کیا گیا ، اور ہمارا گروپ تھا 04 ،یعنی 2004 کا او گروپ ۔ اس سال بہت لوگ غیر قانونی طور پر یورپ داخل ہو رہے تھے اور پھر گروپس ڈبل ڈبل زیڈ تک پہنچ گئے
ہمیں ایک سابقہ فوجی چھاؤنی میں ایک حصار میں رکھا گیا اور دن رات پہرے دار اپنی اپنی ڈیوٹی نبھاتے اور شفٹ وار کام کرتے ۔ابتدائی ایام بہت مشکل تھے ۔ تقریبا ًتین سو کے قریب لوگ ایک ہی جگہ پر رکھے گئے اور اکثریت افریقہ کے ممالک سے تھی ۔ شدید گرمی اور سہولیات نہ ہونے کے برابر ، اور اٹلی کے بجائے مالٹا میں پھنسنے کا دکھ الگ لیکن انہی مشکل ایام میں ہماری قانونی مدد کیلئے ایک این جی او JRS کے وکلاء کی ٹیم آئی اور ہمارا کہا سنا اور اس کےبعد vجہاں مایوسی ہی مایوسی ، تھکاوٹ اور پریشانی ہی پریشانی اور سمندر کے غیر محفوظ غیر قانونی اور مشکل ترین سفر جس میں آپ بے سرو سامانی میں موت سے ملتے ملتے بچے ہوں اور رفیوجی کیمپ جو دراصل ایک قید خانہ ہو اور میں اکثریت افریقہ کے بغض زدہ علاقوں سے آئی ہو ، وہاں بندے کا کیا حال ہوتا ہے، اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے ، لیکن ایسی صورتحال میں اس قید خانہ میں دنیا کی ایک خوبصورت ترین سفید فام اور نوجوانی سے جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتی طویل القامت گرین آنکھوں والی ایک لڑکی جو کہ دراصل پری تھی کا وزٹ اور ہر لمحہ مسکراہٹ لبوں پر سجائے اور آنکھوں میں بے مثل ہمدردی کا پانی سجائے آنکھوں سے دل میں اترنے کا ہنر لئیے ، یہ سب کچھ آپ پر کیسی کیفیت طاری کرسکتا ہے اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ہمیں اب بھی یاد ہے ذرا ذرا ۔۔
یہ خاتون تھیں”دانیالہ دیبونو ”
آپ اس وقت پچیس سال کی تھیں اور جے آر ایس نامی ایک این جی او کے ساتھ مہاجرین کےلیے رضاکارانہ کام کرتی تھیں ۔ ہمارا اس وقت اس خوبصورت ترین اور نفیس ترین دانیالہ سے تعارف ہوا ، اس گلاب سی خوبصورت اور ہمدرد انسان نے ہر ایک کی بات کو توجہ سے سنا اور کہنے والے کو یہ احساس دلایا کہ میں انہی میں سے ایک ہوں جو بلا تفریق مذہب و رنگ و نسل انسانیت کی خدمت پر یقین رکھتے ہیں۔ آنکھوں سے دل میں اترنے کا ہنر جاننے والی یہ خاتون اس کے بعد ہم نے مالٹا کے ریفیو جی کیمپ کے چکر پر چکر لگاتے دیکھی اور ہر ممکن مدد کے لیے ہمہ وقت تیار ، دانیالہ اور ریڈ کراس کے ساتھ کام کرنے والی خاتون “انتونیتےظیمت” المعروف ماما افریقہ جیسے مخلص لوگ اپنی زندگی میں ہم نے بہت کم دیکھے ہیں ۔ کیمپ میں مہاجرین کی ہر ممکن مدد اور ہر ضرورت کا خیال رکھا انہوں نے ۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا اور بے پناہ محبت پائی ۔
ہم انہیں کبھی بھی بھلا نہیں پائیں گے ، اسی پیار محبت اور خلوص کی بنیاد پر میں 2 مئی 2017 کو محترمہ دانیالہ دیبونو سے ملنے ان کے آبائی شہر برکرکارا مالٹا گیا جب کہ وہ اٹلی کے سفر کے لیے نکلنے والی تھیں ۔ لیکن نہ صرف آخری ڈیڑھ دو گھنٹے ساتھ گزارے بلکہ وہی پیار ، شفقت ،لگن اور خلوص، اور ایک ایک بندے کا حال احوال پوچھتی رہیں۔ میں نے انہیں بتلایا کہ میں ہوں یا ہمارے گروپ او کے ظفر علی چوہدری ، ملک ظہیر ہوں یا چاچا رضا گجر یا رانا نثار صاحب ہوں ہم تازیست آپ کے ممنون و مشکور ہی نہیں بلکہ آپ سے بہت پیار کرنے والے ہیں ۔ اس موقع پر میں نے انہیں سیّدنا امام حسین علیہ السلام کا یہ قول بھی سنایا کہ
“دو بندے زندگی میں کبھی نہیں بھولتے
ایک مشکل میں ساتھ چھوڑنے والا اور دوسرا مشکل میں ساتھ دینے والا
اور آپ تو مشکل میں ساتھ دینے والی ہیں ، نہ صرف یاد رہیں گی بلکہ بہت اچھے جذبے کے ساتھ

Facebook Comments

مصطفیٰ معاویہ
ہر قسم کی عصبیت سے بالا ، علم و انسانیت سے اپنی جان سے بڑھ کر پیار کرنے والا ایک طالب علم جو ہر وقت سیکھنے اور اس کو دوسروں سے شئیر کرنے کی جستجو میں ہوتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply