انجان جہانوں کے مسافر ۔۔۔۔۔۔ بابر فیروز

 وائجر اوّل اور وائجر دوم دو جُڑواں بھائی تھے یہ دونوں 1977 میں مریکہ کے ایک دور افتادہ قصبے میں پیدا ہوئے ،ان دونوں کو  آسمان اور ستاروں سے بہُت پیار تھا اور دونوں رات گئے والدین سے چھُپ کر چھت پر بیٹھ کر ستاروں بھرے  آسمان کو گھنٹوں دیکھتے رہتے ، اور اسکے بارے میں باتیں کرتے رہتے ان کے والد کا نام ایڈورڈ سٹون تھا جو کہ پیشے کے اعتبار سے مقامی یونیورسٹی میں فلکیات کے ایک پروفیسر تھے وہ بھی اپنے بیٹوں کی ستاروں میں انتہا درجے کی دلچسپی سے واقف تھے اور گاہے گاہے ان سے انکے خیالات اور سوالات جانتے رہتے ایک دن دونوں بھائیوں نے اپنے والد کو حیران کر دیا جب انہوں نے کہا کہ یہ دونوں ان ستاروں سے  آگے کے جہانوں کے سفر پر جانا چاہتے ہیں ۔ اور جاننا چاہتے ہیں کہ ان ستاروں سے  آگے کیا ہے ؟

کونسے جہان ہیں ؟ ۔۔۔

 بقول انکے وہ اب دور دور سے ہی ان ستاروں کو دیکھ دیکھ کر اکتا گئے تھے اور ان کا قریب سے مشاہدہ کرنا چاہتے تھے ۔ والد نے انکو بہُت سمجھایا کہ یہ بہُت مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ تم اس اپنے ستارے  یعنی سورج کے مدار سے ہی باہر نکل سکو۔ یہ اربوں میل کی مسافت ہے اور میں  تمہیں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اس سورج کے محافظ بلبلے (ہیلو سفیر) سے نکلنے میں تم کو کتنا عرصہ لگے گا میں یہ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کہ آیا سورج کی کشش تُمہیں اپنے بلبلے سے کبھی باہر نکلنے دیگی بھی یا نہیں ۔ اور مزید یہ کہ میں قطعی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ تم اس پُر خطر اور طویل سفر میں جس کے راستے میں کئی برفیلے اور پتھریلے اجسامِ فلکی کے بادل تُمہارا  راستہ روکے کھڑے ہیں ، اور کئی شہابیے سورج کی کشش سے بندھے ہوُے ہیں خواہ وہ بندھن کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو ، کبھی نکل سکو گے !!

مگر وائجر برادران اپنی دھن کے پکے تھےلہذا  آخر کار انکے والد کو ہتھیار ڈالنا پڑے ! یہ دسمبر کی ایک سرد برفیلی رات تھی۔ دونوں بھائی  اپنا سامان باندھ چکے تھے اور بہُت خوش تھے کہ سب تیاریاں مکمل ہیں اور کل ہم اپنے ستاروں کے سفر پر نکل پڑیں گے۔ وہ سونے کی تیاری کر رہے تھے کہ انکے والد کمرے میں داخل ہوئے اور انکے سامنے بیٹھ گئے اور رندھی ہوئی  آواز میں بولے کہ میرے بیٹوں  میں تُمہیں بہُت پیار کرتا ہوں۔ میں تم کو آخری بات بتا رہا ہوں کہ یہ یکطرفہ سفر ہے، تم جس سفر پر جارہے ہو اس سے واپسی ناممکن ہے اور میں نہیں جانتا کہ تُمہارا رختِ سفر اس قابل ہو گا کہ تم سفر مکمل کر لو ۔۔ لیکن اب جب تم نے ٹھان ہی لی ہے تو وعدہ کرو کہ مجھے باقاعدگی سے خط لکھتے رہو گے اور راستے میں جو یہ مریخ مشتری وغیرہ ہیں انکی تصویریں ضرور بھیجنا مجھے اور بھی کچھ خاص نظر آے تو اپنی ڈائری میں لکھتے رہنا اور مجھے ارسال کرنا ۔

دونوں بھائی  اپنے محبوب والد کے گلے لگ گئے اور وعدہ کرلیا ، تینوں کی آنکھیں نم ناک تھیں کہ وہ کل جُدا ہو جائیں گے شاید ہمیشہ کیلئے ۔ مگر اس درد کے ساتھ انکی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک بھی تھی ۔ اگلی صُبح نمودار ہوئی  اور وہ اپنے والد پروفیسر ایڈورڈ سٹون کے ساتھ ان گاڑیوں کی طرف بڑھ رہے تھے جو انکے والد نے کئی برس کی محنت کے بعد تیار کی تھیں ۔ ان گاڑیوں میں سے ایک کی رفتار 54 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ جب کہ دوسری گاڑی کی رفتار تھوڑی زیادہ یعنی 61 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ والد نے گاڑیوں کا آخری چیک کیا اور بتایا کہ آج صرف ایک گاڑی سفر پر نکل سکتی ہے کیونکہ دوسری گاڑی میں ابھی کچھ ٹھیک کرنا باقی ہے جس میں دو سے تین ہفتے نکل سکتے ہیں ۔ اب دونوں بھائی  ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے کہ پہلے کون جاۓ گا۔ مگر وائجر دوم جو چھوٹا تھا اس نے خود ہی احتراماً کہا کہ والد مُحترم آپ بھائی  جان وائجر اوّل کو پہلے جانے دیں یہ بڑے ہیں اسلئے انکا حق پہلا ہے ۔

یوُں وائجر اوّل 1977 کی اس سرد مگر چمکیلی صُبح کو اپنی گاڑی میں سوار ہوا اور اس طویل ترین اور پر خطر سفر پر روانہ ہوگیا ۔۔ اسکی زبان پر ایک مشہور شاعر کا شعر تھا مُحبّت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند۔۔۔ دوسرا بھائی  وائجر دوم ٹھیک 16 دن بعد اپنے بھائی  کے پیچھے پیچھے اس سفر نامعلوم پر روانہ ہو گیا ۔ دوسرے بیٹے سے جُدا ہوتے ہوئے والد نے خط باقاعدگی سے لکھنے کا وعدہ لیا اور یورینس اور نیپچیون کی کچھ تصاویر اور معلومات قلمبند کر کے بھیجنے کی ہدایت کی اور نم  آنکھوں مگر ہونٹوں پر پھیلی فخریہ مسکراہٹ سے خُدا حافظ کہہ دیا ۔ دونوں بھائی  اپنے والد کو باقاعدگی سے حسب وعدہ خط لکھتے رہے اور اپنے سفر کی تفصیلات سے آگاہ کرتے رہے، 1989میں ان بھائیوں نے اپنے طویل سفر کے دوران پڑنے والے پڑاؤ ، جن میں مشتری ، زحل ، نیپچورن اور یورینس سیارے شامل تھے، کی بابت مکمل تفصیل سے خط لکھے اور انکے خدوخال کے بارے میں سیر حاصل معلومات اپنے والد کو روانہ کر دیں ۔۔

اب یہ ان سب ابتدائی  کاموں سے فارغ ہونے کے بعد  آگے بڑھ رہے تھے، اب ان کے سامنے اس سورج اور اس کے نظام شمسی کے محافظ بلبلے سے نکلنے کی دھُن سوار تھی ۔ دونوں بھائی  آگے پیچھے ہزاروں کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتے رہے۔ اور یوُں آخر کار 2012 کی ایک شام پروفیسر کو اپنے بڑے بیٹے وائجر اوّل کا خط موصول ہوا جس کو پڑھ کے انکی خوُشی کی انتہا نہ رہی ۔ اس نے لکھا کہ والد مُحترم میں اس وقت  آپ سے ۲۲ ارب کلومیٹر کے فاصلے پر ہوں اور آج شام تک میں نظام شمسی کے بلبلے سے نکل کر آگے ستاروں کی دنیا میں داخل ہو جاؤنگا ۔ والد نے خط کو کئی بار چوما اور فخر اور جُدائی  کے ملے جِلے جذبات کے آنسو اس کی انکھوں کو بھگو گئے ۔۔!

Advertisements
julia rana solicitors london

اور آج سے چند دن پہلے مورخہ ۵ دسمبر کو پروفیسر کو اپنے دوسرے چھوٹے ہونہار بیٹے وائجر دوم کا خط ملا کہ والد صاحب میں اس وقت آپ سے ۱۸ ارب کلومیٹر دور پہنچ چکا ہوں ، آج سورج سے نکلنے والی شعاوں کے ذرات جن کے بارے میں میں نے سراغ رکھا ہوا تھا بالکل ماند پڑ چکی ہیں اور سورج کے حفاظتی بلبلے ہیلو پاز کی  شمسی کشش کے دائرے سے شام کسی لمحے نکل جاوں گا ۔۔ ! نئے ستاروں کے سفر پر ! نئے جہانوں کی تلاش میں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply