بیانیہ کی موت

بیانیے کی موت

( ناصر منصور )

پاکستان کی ریاستی ساخت کو مد نظر رکھے بغیر موجودہ دگر گوں حالات کا تجزیہ اور پھر مستقبل کے لیے با معنی لائحہ عمل طے کرنا مشکل ہے ۔تاریخی طور پر پاکستان کے موجودہ حکمران حصوں میں عسکری پلڑہ بھاری بھر کم اور زور آور رہا ہے۔ جب کہ زرعی اراضی کے بڑے حصے پر قابض خاندان ،سول نوکر شاہی ، صنعتی نو دولتیے اور شہری تاجر مجموعی طور پر طفیلی کے طور ریاست سے مفادات حاصل کرتے رہے ہیں ۔ان سب پرپہلے برطانوی تاج کا ہاتھ رہا اور پھر قیام پاکستان کے ساتھ ہی امریکا بہادر نے اپنے حلقہ اثر میں لے لیا ۔ریاست کے حکمران حصے روایتی طور پر خطے میں ان بین الاقوامی قوتوں کے حلیف اور حلقہ بگوش رہے ہیں جن کے مفادات عوام کے مفادات سے براہ راست متصادم تھے ۔ریاست نے اپنا آزادانہ وجود اور اصول پر مبنی معاملہ فہمی کے لیے کوئی سنجیدہ روایت نہیں رہی لیکن اس کے برعکس اپنے وجود میں آنے کے بعد سے ہی مخصوص ریاستی جغرافیہ اورمحل وقوع کو مفادات کی اس منڈی کی جنس کے طور پر برتا ہے اور اس کی وقتی قیمت لگا کر ریاستی امور چلانے کی کوشش کی ہے ۔اس لیے منڈی کی بدلتی قدروں اور ضروریات نے خریداروں اور قیمت کے تعین میں تبدیلی اور تغیر کو وقت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔پہلے برطانوی نوآبادیاتی چھتر چھاؤں تھی ،پھر امریکا اور اس کے عسکری اور مالیاتی ادارے ہمارے محبوب ٹھہرے ریاست نے ثقافت ،تاریخ اور جغرافیہ سے انحراف کرتے ہوئے ایران ،ہندوستان اور افغانستان سے تعلق کی بجائے مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک سے ربط کو ترجیح دی اور آج ہم چین سے اپنی سلامتی اور ترقی کے متمنی ہیں۔ ریاست کے مرکزی کردار ہمیشہ نئے قالب میں ڈھل کراپنے بین الاقوامی کرم فرماؤں کے تقاضے پورے کرتے رہے لیکن اندرونی ضروریات و احساسات کو ناصرف یکسر نظرا نداز کیا بلکہ اس کے خفیف سے اظہار کو بھی طاقت سے دبا دیا،یعنی عوامی دشمنی کرتے ہوئے مذہب اور حب الوطنی کی آڑ میں ہرمخالف آواز کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ تاریخ کا دھارا جس تیزی سے ریاست کو درپیش انتشار اور بحران کی جانب دھکیلتا رہا اسی تیزی سے ریاست نصف صدی سے زائد دہرائے جانے والے نظریاتی بیانیے کے کھوکھلے پن اور اس کی ناکامی پر بات کرنے سے گریزاں رہی۔ریاست آج اپنے شکست خوردہ نظری بیانیے کے ایک مادی اظہار یعنی مذہبی دہشت گردی کے ایک حصے کو کچلنے کا دعوی ٰ کر رہی ہے لیکن بد قسمتی سے اس کے نظر ی پہلو پر تنقیدی جائزے کو تیار نہیں یہی وہ بنیادی بحران ہے جو ریاست ،اس کے حکمرانوں کو بیانیہ اور عمل کے تضاد کی بنا پر درپیش ہے ۔یہی تضاد ریاست کو مزید انتشار میں مبتلا کیے جا رہا ہے ۔

پاکستانی ریاست کے لیے مذہبی بیانیہ اس کے بقا کا عنوان اور مخالفیں کو دبانے کا مرغوب آلہ رہا ہے ۔ اس کی ترویج و اشاعت اور اس پر غیر متزلزل یقین کو ایمان کے قریب کا درجہ دیا گیا ہے اسے عوام الناس کے لیے ناقابل تنقید اور ناقابلِ تردید موضوع بنا دیا گیا ہے۔ بانی پاکستان جناح کی بیانیہ بدلنے کی کوشش ناکام رہی۔ لیاقت علی خان نے عقائد پر مبنی قرارداد مقاصد کے ذریعے ریاست کو تباہی اور بربادی کی وادی کی جانب جانے والے راستے پر ڈال دیا۔ حکمرانوں نے عقائد کی آڑ میں وقتی مفادات کی خاطر آئین ،قوانین میں خطرناک حد تک سماجی انتشار کی بنیاد بننے ولی شقیں شامل کرکے ایسا جرم کیاہے جس کے بھیانک نتائج ابھی بھگتناباقی ہیں یہ وہ حقیقت پسندانی شقیں اورتاریک پہلو ہیں جو ریاستی امور میں ہر شہری کو بین الاقوامی اصولوں کے تحت حاصل بنیادی حقوق کو نہ صرف سلب کرتے ہیں بلکہ ایک شہری کو دوسرے پر مذہب کی بنیاد پر ابدی برتری دیتے ہیں ۔لیکن ہم یہ ماننے ہی کو تیار نہیں کہ ہمارا آئین شہریوں کو حقوق ،انسانی نہیں بلکہ عقائد کی بنیاد پر تجویز کرتا ہے جو ہ مسلمہ انسانی اقدار سے انحراف ہے ۔ہمارا المیہ صرف یہی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ ریاستی ڈھانچے سے بہت زیادہ استفادہ کرنے والے حکمران گروہ خصوصاََ عسکری ، سول بیورو کریسی اور معروف سیاسی گھرانوں کی اپنی سماجی اور پیشہ ورانہ بنت تاریخی طور پر غیر مذہبی روایات بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ نوآبادیاتی ثقافت کی بنیاد پر استوار ہے۔ان گروہوں کی سماجی و سیاسی آبیاری اور پرورش کی اگر تاریخ کھوجی جائے گی تو ان کے پالنے ہمیں نوآبادیاتی نظام کے آقاؤں کے دالان میں ہی پڑے ملیں گے ۔اس داغدار تاریخی اور سماجی ورثے پر عقائد اور مذہب کا دبیز پردہ چڑھا کر انھیں مقدس قرار دیا گیا ہے غیر مذہبی حکمران گروہوں نے اپنی بنت کی عین ضد نظریے کو اپنی یعنی ریاست کی بقا کا نظریہ بنا کر پیش کیا۔حکمران گروہوں نے مذہب کا بے دریغ استعمال معمول بنا لیا ۔ہر اس گروہ ، تنظیم اور فرد کو مذہب دشمن قرار دے کر قابل گردن زدنی ٹھہرایا ۔اس مذہبی بیانیے کے مقابل تمام قومی، طبقاتی اور جمہوری بیانیے ریاست دشمن ہونے کے ساتھ ساتھ مذہب دشمن بھی ٹھہرے۔بلوچستان میں فوج کشی کی گئی ،پختونخوا میں ڈاکٹر خان کو غیر جمہوری انداز میں ہٹایا گیا ، قیام پاکستان کی بنیادی سیاسی دستاویز 1940کی قرار دادِ پاکستان کو متروک و مشکوک قرار دے کر ایک ، قوم ، ایک زبان ،ایک مذہب کے جذباتی نعرے کی گونج میں عقل وہوش کا تمسخر اڑایا گیا ۔بنگالی اور وفاق میں بسنے والی دیگر قوموں کی زبانوں ،ثقافتوں اور سیاسی اظہار کو دبایا گیا- پیرٹی اور ون یونٹ کی شکل میں وفاق کو دفنایا گیا ۔ قومی ، طبقاتی اور جمہوری تحریکوں کو کچلا گیا اورعوام دشمن مذہبی لسانی گروہوں کی پشت پناہی کی گئی ۔ بین الاقوامی معاملات میں بھی مذہب کا استعمال جاری رہا ۔ امریکہ اور مغرب سے تعلق جوڑنے کے لیے اہل کتاب ہونے کاجوازگھڑا گیا۔ اہلِ کتاب کے نام پر سیٹو، سینٹو جیسے بین الاقوامی عسکری معاہدوں کا ہدف قبول کیا اور خطے میں اپنے ریاستی مفادات کی بجائے عسکری معاہدوں کے سر خیلوں کے مفادات کو اولین ترجیح دی گئی اور انہیں بقا اور سلامتی کا ضامن قرار دیا گیا۔

ریاست کو درپیش بیرونی خطرے کی آڑ میں حکمران طبقات کے عسکری حصے نے خود کو سب سے مؤثر ومنظم قوت کے روپ میں پیش کیا جو کہ بین الاقوامی قوتوں کے لیے زیادہ موزوں اور ان کی ضروریات اور تقاضوں کے عین مطابق تھا ۔یوں ریاست پر غیر مؤثر اور عوامی امنگوں کے برعکس طرز عمل ہونے کی بنا پرسیاسی گھرانوں کی گرفت کمزور اور فوجی کمپلیکس کا سایہ گہرا اور ہمہ جہت ہوتا گیا ۔اب ریاست پر حاوی عسکری زور آور حصے نے عقائد کے ساتھ ساتھ ہندوستان دشمنی کو بھی تقدس کا درجہ عطا کر دیا جس کو گہرا کرنے میں ہندوستانی حکمرانوں نے بھی گھناؤنا کردار ادا کیا ۔ریاستی بیانیے میں جہاں بڑھتی ہوئی رجعتی آمیزش میں عسکری زور آور اپنے مقاصد کے تحت ملوث ٹھہرے وہاں ماضی قریب میں مسلم لیگ سے لیکر دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کو تو چھوڑیئے عوامی ابھار کے نتیجے میں ابھر نے والے جمہوری اور عوامی حمایت کے حامل سیاسی حصے نے بھی مقدور بھر کردارادا کیا ۔ بھٹو صاحب کی انتخابی مہم میں ہندوستان سے ہزار سال تک جنگ ، آئین میں مذہبی امتیاز برتنے والی شقیں، بلوچستان میں فوج کشی اور افغانستان کے مذہبی گروہوں (حکمت یار اور ربانی کو پاکستان لانا) کی ریاستی پشت پناہی کی ابتدا ایسے اقدامات تھے جو ان کے سماجی انصاف کے پیش کردہ ترقی پسند بیانیے کو گہنا دیتے ہیں ۔ ان کی جمہوریت پسند بیٹی نے طالبان کی پشت پناہی کر کے اسی ریاستی طرزِ عمل کو تقویت پہنچائی ۔لیکن اس کے باوجود یہ عسکری زورآور اور ان کے مذہبی حواریوں کا اعتماد جیتنے میں ناکام رہے۔ بھٹو فوجی آمر کے ہاتھوں دار چڑھا اور بیٹی فوجی آمروں کی پیدا کردہ حیوان نما انسانی مخلوق کا شکار بنی ۔

ریاست کے بالادست حصوں نے اپنی سرشت کے عین مطابق خود کو بااختیار ، خود مختار بنانے کی بجائے طفیلی اور خدمت گزار کے طور پر پیش کرنے کو ضروری گردانا ۔ انھوں نے ایک وقت میں امریکا کو باور کروایا کہ یہ ریاست خطے میں سوویت روس اور عوامی جمہوریہ چین کے بڑھتے ہوئے سیاسی و نظریاتی اثر کو روکنے میں معاون ومددگار ثابت ہو گی بلکہ ڈاکٹر مصدق کے شاہ مخالف انقلاب کے بعد ایران میں برطانوی تیل کمپنیوں کو قومی تحویل میں لینے کیبعدخطے میں تیل کے ذخائر کے لیے تھانیدار کا کردار اد کرنے کے لیے تیار ہے ۔ لیکن قیمت کے طور پر ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ضروری ہے اور ایسا ہی ہوا ۔یوں ریاست حقیقی معنوں میں طفیلی بن گئی ، فوجی اور معاشی معاہدوں میں جکڑی گئی ۔پہلے کمیونسٹوں کو ادھیڑا گیا ،پھر قوم پرستوں کی باری آئی اور آخر میں بچے کھچے جمہوریت کے چراغوں کوگل کر دیا گیا ۔ریاست نے متبادل نظری بیانیے کوپنپنے کا موقع ہی نہیں فراہم کیا ۔بیس کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل یہ واحد ایسی ریاست ہے جو اس قدر بے بس اور دوسروں کی عنایات پر تکیہ کیے ہوئے ہے ۔ آج نئی سیاسی حقیقتوں کا ادراک کیے بغیر صرف وقتی ضروریات کے مدِ نظر ایک بار پھر اپنا جغرافیائی محل وقوع ،معدنیات اور ساحل مارکیٹ کیے جا رہے ہیں ۔اس بار ہم نے چین کو خریدار چنا ہے ۔ایک جنگ ہم نے کمیونسٹوں کو ’’گرم پانیوں سے دور رکھنے‘‘ کے لیے لڑی اور اب اپنے وہی گرم ساحل روس اور چین کے حوالے کرنے کو بے تاب ہیں ۔ جس طرح ماضی میں امریکا کے ہاتھوں دستار کی بے حرمتی پر نوحہ کناں غدار اور ایجنٹ کہلائے ویسے ہی آج ہمالیہ کی چوٹی سے اونچی دوستی کی آڑ میں بڑھتے خطرے پر بات کرنا گناہ عظیم بن گیا ہے ۔جب کہ عوام حکمرانوں کے ماضی کے کردہ گناہوں کا کفارہ اپنے خون اور مستقل خوف کی صورت ادا کر رہے ہیں ۔

ریاست کے مذہبی بیانیے اور آئین کے ڈھانچے اور سب سے بڑھ کر ریاست پر حاوی حکمران عنصر نے اندرونی اور بیرونی مقاصد کے لیے ایسے گروہوں کی نہ صرف پشت پناہی کی بلکہ ان کی تشکیل میں کلیدی کرداربھی ادا کیا جو اپنے وجود اور تحرک کے لیے جواز ریاستی بیانیے اور آئین کے مقاصدہی کو ٹھہراتے ہیں ۔ان گروہوں کو وقت آنے پر مسلح کیا گیا اورافغانستان میں بے دریغ استعمال کیا گیا مذہی دہشت گردی جس میں امریکا ، یورپی ممالک ، سعودی عرب ، مصر اور خلیجی ممالک نے خطے کو بارود کا ڈھیر بنانے میں دامے، درمے ،سخنے مدد فراہم کی ۔ریاست نے غیروں کی شہہ پر غیر ریاستی عناصر کو ریاستی اور بین الاقوامی ایجنڈے کے لیے سرحد پار اور ریاست کے اندر بھر پور طریقے سے استعما ل کیا۔ ریاست نے مغرب کی جنگ افغانستان میں لڑنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کی قومی آزادی کی جدوجہد کو مذہبی لشکروں کے ہاتھ یرغمال بنا کر تحریک کو داغ دار کیا اور ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ۔

ریاست کے مذہبی بیانیے کی روشنی میں وضع کی گئی پالیسی اور حکمت عملی کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے اور اس سے نبرد آزما ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔نام بدل بدل کر آپریشن پر آپریشن جاری ہیں جن کی کامیابی کے دعوے ہر بار دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں لیکن ان پر تنقیدی جائزہ لینا کفر کے مترادف ہے ۔ریاست کے نظری بیانیے کے اسلحہ بردار نقیب ٹوٹی کمر کے ساتھ ہربار اپنے طے کردہ ہدف پر حملہ آور ہو کر ریاست کے بے بس ہونے کا پیغام دیتے ہیں۔ ریاست آج جس انتشار اور خطرات سے دو چار ہے وہ بنیادی طور پر ریاست کے نظری اظہار کا مہلک نتیجہ ہے ۔یعنی ریاست کا نظریاتی اظہار ہی اسے آج کے درپیش چیلنجز کا جواز ہے ۔ ریاست کے زور آور حصے ذہنی طور پر حالات کو نئے پیرائے میں دیکھنے کی بجائے پرانے ڈگر پر ہی چل رہے ہیں اور تمام آفات اور افتاد کو پڑوسی ممالک اور اپنے پرانے حلیفوں کی سازشوں کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کا ذہن اور جسم متضاد کاموں پر معمور ہے ۔یعنی بیانیہ مذہبی ہے اور عمل مادی حالات کے مطابق ہونے کا متقاضی ہے۔

نظریہ اور عمل کی یکسوئی نہ ہونے کی بنا پر طاقت ور منظم نظری عنصر اور ذہن سازی کرنے والی تحریکوں اور ان کے عسکری اظہار کو کچلنے کی کوششیں کامیاب ہوتی نظر نہیں آتیں ۔ایک عام سپاہی سے لے کر ریٹائرڈ جنرل تک ایسی طویل ذہنی مسافت کے اسیر ہیں جس سے باہر نکلنا ان کی استعداد سے بالا ہے ۔جب کہ ان کے بیان کردہ خود ساختہ حقائق کے سامنے متبادل تجزیہ پیش کرنے والے بہت سے نتیجہ بھگت چکے ہیں اور بہت کم ہیں جو اب بھگتنے کو تیار ہیں ۔ریاست کی دسترس سے باہر نکلتے اس کے بے لگام خود کش اظہار بچے آج نہ صرف درس گاہوں ،عبادت گاہوں ، شاہراؤں ،عام مقامات کو تاراج کر رہے ہیں بلکہ محفوظ ترین گیریژنز اور کنٹونمنٹس بھی ان کی دہشت سے ماوارء نہیں ۔

ریاست کا مذہبی بیانیہ کبھی بھی عام شہریوں کے لیے سیاسی وسماجی ایجنڈے کا اہم حصہ نہیں رہا جب بھی موقع ملا انہوں نے اس بیانیے کو مسترد کیا اور متبادل بیانیے کے حق میں فیصلہ دیا۔ سماجی انصاف جمہوری اقدار اور قوموں کے حقوق آج بھی عوام کے لیے بہت اہم موضوع ہے ۔ گوانھیں اس پر سب سے زیادہ بے وقوف بنایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے نزدیک تعلیم، روزگار ، صحت ، صفائی ، ٹرانسپورٹ ، بجلی ،پانی ،گیس، روڈ رستے ،زرعی زمین کی ملکیت ،فیکٹریوں میں کام کے حالات کار میں بہتری ،امن وامان اور مہنگائی وسائل پر ان کا جمہوری کنٹرول اہم ترین معاملات ہیں اور وہ آج بھی عقائد اور مذہب، فرقہ کی بنیاد پر سیاست اور تفریق کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔مذہبی بیانیے کی بنیاد پر سیاست کرنے والے گروہوں کو شہریوں نے ہمیشہ رد کیا ہے لیکن ان کی ریاستی پشت پناہی نے انھیں ہلہ شیری دی اور وہ سماج کی اقدار پر سوار ہو کر اسے اپنی مرضی کی راہ پر لے جانے کے لیے طاقت اور خوف کا بے دریغ استعمال کیا اور اب کھل کر سماج سے جنگ پر آمادہ ہیں ۔ ریاست بہت دیر تک اس صورتحال سے پہلو تہی برتتی آ رہی ہے ۔

ریاست اپنا مذہبی اور عقائد پر مبنی بیانیہ بدلے بغیر اس سماجی آتش فشاں سے باہر نکلناچاہتی ہے جو ممکن نہیں ۔ ہاں وقتی طور پر طاقت کے استعمال سے اس آتش فشاں کو خاموش کر سکتی ہے لیکن اس کے پھٹ پڑنے اور آبادیوں کو نابود کرنے کے قوی امکانات ہر لحظہ موجود رہیں گے ۔یہ جو کچھ ہو رہا ہے اگر اسے کوئی انتہائی صورتحال سمجھ رہا ہے تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے۔ دراصل یہ انتشار کی جانب جانے کی ابتدا ہے ۔ ابھی انتشار پھیلانے والے گروہ ریاست پر حاوی قوتوں سے ماضی کی طرح مل کر کام کرنے کی امید رکھے ہوئے ہیں کیوں کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے بعض نظری بھائی بند گروہوں کے لیے ریاستی پشت پناہی ابھی بھی میسرہے اور انھیں ریاست آج بھی اپنے لیے آنے والے وقتوں کا کارآمد آلہ تصور کرتی ہے ۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ ستر سالوں سے پنپتا خطرناک سماجی ٹیومر پورے جسم میں پھیلا چاہتا ہے جس سے بچنے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر ہمہ گیر اور ہمہ جہت اقدامات کی ضرورت ہے ۔ اس کے لیے راست طریقہ کار یہ ہے کہ جس طرح بہت سے سیاست دانوں نے فوجی آمریت کی حمایت پر کھل کر ندمت کا اظہار کیا ہے بالکل اسی طرح ریاستی ادارے بلا تاخیر ماضی کی غلطیوں کا برملا اظہار کرے اور ایک ایسے نئے عوام دوست بیانیے کو تشکیل ہونے دیں جو معاشی انصاف حقیقی وفاق کی ضمانت جب کہ ثقافتی لسانی اور مذہبی گونا ں گوں اور ہمہ جہتی کو تسلیم کرتا ہو اورسماجی ترقی کازینہ تصور کرتاہو ۔ ایسے تمام قوانین اور آئینی شقوں سے بتدریج چھٹکار ا پانے کی جانب لے جا تا ہو جو انسانی ترقی کی راہ میں پاؤں کی زنجیریں گراں بن گئی ہیں ۔ ریاست کے لیے ضروری ہے کہ ایسے تمام مذہبی گروہوں ، لشکروں کی پشت پناہی فی الفور ترک کر دے جو ملک یا ملک سے باہر کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ ان کی مقامی و بین الاقوامی امداد کے تمام ذرائع کو بھی مسدود کر نا ضروری ہے جو انہیں دیر تک زندہ رکھ سکتے ہیں ۔ ریاست کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ تمام پڑوسی ممالک (بھارت، ایران ، افغانستان، چین) کو حقیقی معنوں میں باور کر ادے کہ ریاست اپنے شہریوں اور جغرافیائی محل وقوع کو ان کے ہر گز خلاف استعمال کرنے نہیں دے گی اور نہ ہی ا س کے ان سب کے خلاف کوئی خفیہ عزائم ہیں ۔ اسی طرح کی یقین دہانی ان ریاستوں سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ملکی سطح پر نئے نصاب تعلیم کی تشکیل کے لیے سائنسی بنیادوں پر کام کا آغاز کیا جائے۔ نصاب سے نفرت پر مبنی تمام مواد خارج کیا جائے اور تاریخی حقائق پر پردہ ڈالنے کے بجائے ان پر کھل کر بات کی جائے۔ پورے ملک میں یکساں تعلیم متعارف کیا جائے ، تمام دینی مدارس کو ایک خاص وقت کے لیے حقیقی معنوں میں سرکاری انتظام و انصرام میں لے کر اسے نئے تشکیل شدہ تعلیمی نظام سے منسلک کیا جائے۔ نشر واشاعت کے ذرائع پر متبادل نقطہ نظر کو وہ تمام مواقع فراہم ہونے چاہیں جو اب تک سرکاری بیانیہ کو حاصل ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خوف یہ ہے کہ ایسا ہوتا نظر نہیں آتا ۔ ایک نظری بیانیے کی موت واقع ہو چکی ہے ،اسے دفنانے کی بجائے مصنوعی طریقوں سے زندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔،نیا عوام دوست بیانیہ جنم نہیں لے پا رہا ۔ اس درمیان کروڑوں لوگ زندہ درندوں کے رحم وکرم پر ہیں اور بد قسمتی سے عوام خود اپنی آواز بننے سے ابھی کوسوں دور ہیں ۔

Facebook Comments

ناصر منصور
محنت کی نجات کے کوشاں ناصر منصور طالبعلمی کے زمانے سے بائیں بازو کی تحریک میں متحرک ایک آدرش وادی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply