آپ کے امراض اور ان کا علاج۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

پہلی جنگ عظیم میں لڑنے والے فوجیوں کی نفسیاتی حالت پر محققین تشویش کا شکار ہوئے کہ جنگ ہمیشہ انسانی نفسیات پر غیر معمولی اثر رکھتی ہے، شروع میں ڈاکٹرز نے ان الجھنوں کو Battle Neuroses کا نام دیا، لیکن متاثرین کی بڑی تعداد چونکہ سویلینز کی بھی تھی، لہذا بعد میں اسے بدل کر Neurasthenia کا مرض کہا جانے لگا، مگر جلد ہی بوجوہ ایسے مریضوں کیلئے NYD یعنی کہ Not Yet Diagnosed کی اصطلاح استعمال کی جانے لگی، معاملہ یہ ہے کہ انسانی نفسیات کی بابت خالص علمی نکتۂ نگاہ ہمیشہ ناکافی رہا، سماجی علوم اور ادبی افسانے اس موضوع پر گاہے ذیادہ پراثر ہوتے ہیں، جیسے کوئی کہانی، افسانہ یا ناول فرد کے بارے کسی بڑے سے بڑے نفسیات دان کی نسبت بہتر تشریح کر سکتے ہیں، پہلی جنگ عظیم کے بعد فرد کی شخصیت میں پیدا ہوئے بگاڑ پر جتنے بھی نیورالوجسٹس، نفسیات دان، ڈاکٹرز اور دوسرے ماہرین نے کام کیا وہ مسئلے کو سمجھنے میں اس قدر کردار نہ ادا کر پائے، جس قدر جرمنی کے ناول نگار ایرک ماریا ریمارک کا 1928ء میں لکھا گیا شہرہ آفاق ناول All quiet on the western front اہم ثابت ہوا، یہی وجہ ہے کہ ہٹلر کے اقتدار میں آتے ساتھ ہی سب سے پہلے اس ناول کی تمام کاپیاں جرمنی میں جلا دی گئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بیسویں صدی کے اوائل میں بین الاقوامی جنگی محاذ کی بدولت post traumatic stress disorder کی اصطلاح متعارف کرائی گئی، جو شروع میں صرف جنگ کی سختیاں جھیلتے افراد کی نفسیاتی، جذباتی اور احساساتی پیچیدگیوں کا احاطہ کرتی تھی، لیکن وقت کے ساتھ اسے وسعت دی گئی کہ صرف جنگ ہی صدمات کا مآخذ نہیں، امن کی حالت میں بھی افراد زندگی کے پیچ و خم میں ایسے حادثات سے گزرتے ہیں جو تمام عمر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔
خوف، ڈپریشن، سٹریس، اضطراب اور جذباتی حادثات کی دلخراش یادیں فرد کو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں، ان تمام کیفیات میں فرد اپنی چھاتی پر بوجھ اور عقل پر کسی غائبی طاقت کا غلبہ محسوس کرتا ہے، معدہ متاثر ہوتا ہے، بوجھل پن ، مایوسی، غم ،ناامیدی، سماج سے لاتعلقی، تھکاوٹ، غصہ، چڑچڑا پن، صحت کی خرابی کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں میں اپنے لئے خیر خواہی کے جذبات دیکھنے سے بندہ قاصر رہتا ہے، فرد آگے بڑھنا چاہتا ہے لیکن کوئی ان دیکھی بلا اسے عملی اقدام اٹھانے سے روکتی ہے، ایسی حالت میں سوچوں کا سمندر فرد کی آخری پناہ گاہ ہوتا ہے، ان تمام کیفیات سے نکلنے کے کچھ روایتی طریقے ہیں، جن پر مختصر تبصرے کے بعد اصل علاج کی طرف آئیں گے۔
سائیکو تھراپی اور قانونی و غیر قانونی ادویات کا استعمال صرف ماہرین کے مشورے سے کیا جانا چاہئے اور نہ ہی سوشل میڈیا ایسا پلیٹ فارم ہے کہ یہاں اس کی تفصیلات میں جایا جائے۔
علاج کے روایتی طریقے مثبت لوگوں کی صحبت، اچھی کتب کے مطالعے ، خوراک و نیند کا خیال رکھنے اور تازہ ہوا میں سیر کرنے سے شروع ہوتے ہیں، اس سے اگلا اور اہم نسخہ کسی ایسے ساتھی کا میسر ہونا ہے، جس کے سامنے اندرونی برہنگی پر کوئی شرمندگی محسوس نہ ہو، یعنی کہ ایسا شخص جس کے سامنے آپ مکمل طور پر کھل سکیں اور جواب میں وہ شخص آپ کی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود تنقید کرنے کی بجائے آپ کا حوصلہ ںڑھائے، عموما والدین کے ساتھ وقت گزارنے میں جو سکون محسوس ہوتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے ، کبھی غور کیجئے کہ انسانوں کی اکثریت جانوروں سے کس لئے لگاؤ رکھتی ہے، اس لئے کہ جانور ججمنٹل نہیں ہوتے، تنقید نہیں کرتے، بھاشن نہیں دیتے، فیصلہ مسلط نہیں کرتے، آپ اپنے پالتو جانور کے سامنے اندرونی برہنگی (بلکہ بیرونی بھی ) کا تسلی سے مظاہرہ کر سکتے ہیں، انہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
میڈیٹیشن ایک دلچسپ اور زود اثر طریقۂ علاج ہے، اس کی مشق سے ذہن بیرونی تاثرات کو زیادہ گہرائی سے جذب نہیں کرتا، یعنی کہ غیر ضروری اور ناقص مواد سے آپ کی نفسیات محفوظ رہتی ہے، مشق کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ تاریکی میں کسی پرسکون اور محفوظ جگہ پر آنکھیں بند کر کے تصور میں خود کو کائنات کے وسط میں بیٹھا محسوس کیجئے، جہاں مکمل سناٹا ، اندھیرا اور سکون ہے، گویا کہ کروڑوں نوری سالوں کی دوری پر واقع دو ستاروں کے درمیان آپ کسی یوگی کی طرح براجمان ہیں، پرسکون سانس اندر کو لیتے ہوئے محسوس کرتے ہیں کہ کائنات کی مثبت انرجی آپ کے جسم میں ہر خلیے سے داخل ہو رہی ہے اور سانس باہر نکالتے ہوئے محسوس کرتے ہیں کہ منفی انرجی جسم سے خارج ہو رہی ہے، اس دوران سب سے اہم کام یہ ہے کہ دماغ کو ہر حال میں اسی مشق پہ فوکس رکھنا ہے، کوئی دوسری سوچ یا کوئی یاد قریب بھی نہ بھٹکنے پائے، شروع میں دماغ پر قابو پانا قدرے مشکل ہوسکتا ہے لیکن کچھ وقت کے بعد آسانی محسوس ہوگی۔
لمس اپنی اصل میں جسم کے اندرونی دباؤ کے اخراج کا خوبصورت اور پائیدار ذریعہ ہے، ہاتھ ملانا، گلے ملنا، بوسہ دینا اور قربت کے لمحات و دیگر لمس کے ذرائع جسم میں ابلتے لاوے کو کم کرنے میں مددگار ہیں، اسی طرح جنگل میں کسی درخت کے ساتھ جادو کی جچھی اور کھل کر پانچ سات چیخیں مارنے سے بھی دباؤ میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے، اگر تو اضطراب میں تندی آیا چاہتی ہو جسے فرد متلی اور قے کی کیفیت، پیٹ میں درد، دل کی دھڑکن اور سانس کی تیزی وغیرہ سے محسوس کر سکتا ہے، تو اس وقت سب سے پہلے سانس کو مکمل باہر نکالیں اور پھر اتنی دیر روک کر رکھیں جتنا ممکن ہو سکے، اسی طرح آٹھ دس دفعہ دہرائیں، اس کے بعد چھاتی کے اوپری جانب یعنی گردن کے عین نیچے خود کو چند مکے مارنے سے بڑھتے طوفان کو روکا جا سکتا ہے۔
جدید دور کے ماہر نفسیات رچرڈ شوارٹز نے سب سے دلچسپ اور پراثر طریقہ بتایا ہے جو کہیں زیادہ نتائج کا حامل ہے، شوارٹز کہتے ہیں کہ انسانی دماغ نہ صرف طبی طور پر مختلف حصوں میں تقسیم ہے، بلکہ نفسیاتی طور پر بھی یہ ایک عضو نہیں، ان کے مطابق نفسیاتی دماغ کئی حصوں میں بٹا ہے، یہ مختلف افراد پر مشتمل ایک کنبے کی مانند ہے، آپ کی ، میں، اس کنبے کے سربراہ کی حیثیت رکھتی ہے، یہ ،میں، اپنی فطرت میں مضبوط، پوتر، تجربہ کار، مثبت، کامیاب اور صراط مستقیم پر گامزن ہے، اور باقی کنبے کا انحصار اسی پر پے، گویا کہ یہ درخت کا تنا ہے، اور دوسرے افراد شاخوں کی سی اہمیت رکھتے ہیں، یہ شاخیں، یا کنبے کے دوسرے افراد کنبے کے اس سربراہ کی مانتے ہیں، اس کا ادب کرتے ہیں اور مکمل طور پر اس کے زیرِ اثر ہیں، اب جب بھی کوئی شخص ڈپریشن، سٹریس، خوف، اضطراب ، مایوسی یا غم میں مبتلا ہوتا ہے تو درحقیقت یہ نفسیاتی دماغ کے اس درخت کی کوئی شاخ، یا کنبے کا کوئی رکن ہے جو اس لت میں گرفتار ہے، اس کا واحد حل یہ ہے کہ فرد اپنے دماغ کے اندر ایک جرگہ لگائے، اپنی، میں، کو سردار کی حیثیت میں سامنے بٹھائے، اور ” بگڑے ہوئے بچے” سے پوچھے کہ اس کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ وہ غمگین، مایوس یا غصے میں ہے تو کیوں ہے؟ خوف یا بدلے کی آگ میں جل رہا ہے تو کس لئے؟ نفسیاتی دماغ کا خوف اور انگزائٹی سے متاثرہ رکن اپنی بیرونی شکل میں آنسوؤں سے بھری آنکھوں اور ڈرے ہوئے ایک معصوم بچے جیسا ہوگا، مایوس اور ڈپریس رکن کسی نیم جان مریض کی مانند ایک کونے میں پڑا ہوگا، غصے اور بدلے کی آگ میں تڑپتا رکن ہندی فلم والے، اینگری ینگ مین، جیسا معلوم ہوگا، تسلی سے یہ سردار یعنی ،میں، بگڑے ہوئے رکن کی دلیل سنے اور پیار سے سمجھائے کہ اسے مایوس ، ڈپریس یا خوف میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں، سردار اپنی پوری طاقت سمیت اس کے ساتھ کھڑا ہے، اسے کنبے کی آبرو اور عزت کا حوالہ دے کہ منفی سوچ کی وجہ سے پورا کنبہ متاثر ہو سکتا ہے، اور اہم ترین دلیل یہ کہ متاثرہ رکن کے تمام شکوک و ابہام مکمل طور پر بے بنیاد ہیں، یہ عمل روزانہ کیا جائے، اگر بگڑا رکن بات نہ سمجھے تو قدرے سختی بھی کی جا سکتی ہے، اس کے اختیارات کم کر کے دوسرے سلجھے ہوئے رکن کو یہ اختیارات دیئے جائیں،(خاندان کے سلجھے اراکین میں ہنس مکھ، ملنسار، پرجوش، رجائیت پسند، معاملہ فہم وغیرہ شامل ہیں) , بگڑے رکن کا اثر رسوخ کنبے میں کم کیا جائے، اسی طرح کچھ دنوں کی مشق سے وہ راہ راست پہ آجائے گا، اگر کسی صورت وہ سدھرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تو آخری حل یہی ہے کہ اسے کان سے پکڑ کر قبیلے سے نکال دیا جائے، اس پر ہمیش کیلئے دروازے بند کر دیئے جائیں کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔
رچرڈ شوارٹز نے اپنی اس تھیوری کا نام internal family system تھیوری رکھا ہے، نفسیاتی دماغ کو وہ ایک خاندان کی مانند تقسیم کرتے ہیں، اور انسان کی ،میں، کو اس خاندان کا سربراہ قرار دیتے ہیں، اور یہ سربراہ ہر لحاظ سے کامل ہے، جو بھی نفسیاتی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں وہ زیادہ سے زیادہ اس خاندان کے کسی چھوٹے فرد کو متاثر کرتی ہیں، ایسی صورت میں ، اندرونی مکالمے، کی مدد سے سربراہ پیار یا سختی سے اس متاثرہ فرد کو راہ راست پہ لا سکتا ہے، یہ تھیراپی بھی اسی نام سے معروف ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply