• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عمران خان کی سیاسی چالوں نے انہیں تنہا کر دیا جبکہ پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ نے انکی جماعت کو اس انجام تک پہنچایا/مترجم-محمد منیب خان

عمران خان کی سیاسی چالوں نے انہیں تنہا کر دیا جبکہ پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ نے انکی جماعت کو اس انجام تک پہنچایا/مترجم-محمد منیب خان

حالیہ دنوں میں عمران خان سیاسی محاذ پہ تنہا ہو چکے ہیں۔ گذشتہ ماہ عمران خان کی ڈرامائی گرفتاری اور رہائی اور پھر نو مئی کے پُر تشدد واقعات کے بعد سے بڑی تعداد میں انکی سیاسی جماعت کی صف اوّل کی قیادت نے انکا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ یکم جون کو خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلی اور سابق وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے بھی کئی دیگر سابقہ وزراء کی طرح جماعت سے علیحدگی کا اعلان کیا۔

تحریک انصاف کی جس لیڈر شپ نے ابھی تک جماعت سے علیحدگی اختیار نہیں کی ان میں سے زیادہ تر ابھی تک جیل میں ہیں۔ تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویز الٰہی، جنہوں نے حال ہی میں بیان دیا تھا کہ وہ مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں انکو بھی یکم جون کی شام کو انسداد دہشت گردی پولیس نے لاہور سے گرفتار کیا۔ وائس چیرمین تحریک انصاف شاہ محمود قریشی کو بھی ایک مہینہ جیل میں رہنا پڑا جبکہ تحریک انصاف کی کئی دوسری اہم شخصیات ابھی تک جیل میں ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب استعفیٰ اور سیاست سے علیحدگی کے اعلانات کس کی ایما پہ ہو رہے ہیں؟ جب سے عمران خان کے تعلقات عسکری اسٹیبلشمنٹ سے خراب ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا، عمران خان اعلیٰ عسکری قیادت کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے عسکری اسٹیبلشمنٹ پہ قاتلانہ حملے جیسے سنگین الزامات سمیت اپنی گرفتاری میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا۔

تجزیہ کاروں اور تحریک انصاف کے لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ عسکری قیادت ایک منظم انداز میں تحریک انصاف کو توڑ رہی ہے تاکہ اسکے بعد عمران خان پہ فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکے۔ جبکہ اکتوبر میں شیڈول اگلے جنرل الیکشن میں عمران خان کی شمولیت کی امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ساؤس یونیورسٹی میں عالمی تعلقات عامہ کے پروفیسر اوی ناش پالی ول کے مطابق “تحریک انصاف کی اس ڈرامائی شکست و ریخت کے پیچھے عسکری قوتیں ہیں تاکہ عمران خان کی عوامی قوت کو کم کیا جا سکے۔ جبکہ عوامی طاقت کم ہو جائے گی تو اسکے بعد عمران خان کو نشانہ بنانا آسان ہوگا”۔ گو عمران خان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا لیکن پروفیسر پالی ول کے مطابق یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے جو 1958 میں پہلا مارشل لا لگا کر جمہوریت کو پٹری سے اتار کر شروع کیا گیا تھا۔ اس وقت سے آج تک عسکری اسٹیبلشمنٹ سیاست میں اپنا طاقتور کردار رکھتی ہے، کبھی براہ راست اقتدار میں رہ کر اور کبھی اقتدار کے ایوانوں کو پس پردہ کر کنٹرول کر کے۔ پاکستان کی سب بڑی جماعتیں فوجی کریک ڈاؤن کا سامنا کرتی رہی ہیں۔

عمران خان سے پہلے 2017 میں نواز شریف اور انکی جماعت مسلم لیگ ن کو عسکری اسٹیبلشمنٹ سے اختلافات کے بعد نہ صرف حکومت سے نکلنا پڑا بلکہ کرپشن کیسسز پہ نواز شریف سمیت دوسری قیادت کو بھی جیل جانا پڑا تھا۔ پروفیسر پالی ول کے مطابق “یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ جب محسوس کرتی ہے کہ سیاسی قیادت اپنے قد سے بڑھ رہی ہے تو وہ ایسے ہی اقدامات کرتی ہے”۔ پرفیسر پالی ول کے خیال میں “در حقیقت فوج ہی وہ اصل وقت ہے جو اقتدار میں رہتی ہے۔”

عمران خان پہلے وزیراعظم نہیں ہوں گے جن کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا ہوگا۔ 1977 میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مارشل لا کے نتیجے میں اقتدار سے نکالا کر جیل بھیجا گیا اور پھر انکا کیس مارشل لا کے دوران ہی چلایا گیا۔

نا صرف تحریک انصاف کی اعلی قیادت بلکہ دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت پہ بھی دباؤ ڈالا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے ایک سنئیر راہنما کے مطابق جن کو مئی میں گرفتار کیا گیا تھا اور انہوں نے گرفتاری کے بعد استعفی بھی دیا، انہیں پولیس نے آئی ایس آئی کے حوالے کر دیا تھا۔ انہوں نے نام نہ بتانے کی شرط پہ بتایا کہ مجھ پہ تشدد سمیت دباؤ ڈالنے کے مختلف طریقے آزمائے گئے۔ میرے پاؤں باندھ کر مجھے الٹا لٹکایا گیا اور مجھے ڈنڈوں اور مکوں سے مارا گیا۔ انہوں نے میرے خاندان کو بھی ہراساں کیا اور میرے سارے خاندان کو تحریک انصاف کو چھوڑنے کے لیے دھمکایا۔ مجھے کہا گیا کہ جماعت چھوڑنے سے ہی میری سختیاں کم ہو سکتی ہیں۔ مجھے اس بات کا علم تھا کہ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

تحریک انصاف کے کئی دوسرے ممبران نے بتایا کہ ان پہ بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے جبکہ بہت سوں کو نو مئی کے واقعات میں ملوث کیا جا رہا ہے۔

جب سے حکومت اور فوج نے نو مئی کو یوم سیاہ ڈکلیئر کیا ہے اس روز سے حکومت نے اس بات پہ زور دیا ہے کہ  عمران خان سمیت جو جو ان پُر تشدد کاروائیوں میں شامل ہوا ہے اسکو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ جن لوگوں نے مظاہروں میں حصہ لیا حتیٰ کہ جو لوگ جماعت کے ساتھ ویسے بھی وابستہ رہے ہیں انکو دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے جن میں سے بعض کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کیا جائے گا۔

تحریک انصاف یوتھ ونگ کے صدر کے بھائی نے بتایا کہ “ان کا خاندان نو مئی کے بعد سے چھپتا پھر رہا ہے۔ انکے گھروں پہ چھاپے پڑ رہے ہیں اور پولیس انہیں ہراساں کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی بیوی اور نومولود بچے سے ایک ماہ سے الگ رہ رہے ہیں۔ وہ مجھے یا میرے والدین کو کیوں ہراساں کر رہے ہیں؟ صرف اس لیے کہ میرے بھائی کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے؟ ہمیں مختلف ذرائع سے پیغامات آ رہے ہیں کہ اگر اس صورتحال سے نکلنا چاہتے ہیں تو تحریک انصاف کو چھوڑ دیں۔ میں نے اپنی زندگی میں اس سے بدترین سیاسی حالات نہیں دیکھے”۔

تحریک انصاف سے نظریاتی وابستگی رکھنے والے صحافی عمران ریاض 11 مئی سے لاپتہ ہیں۔ اتوار 3 جون کو عمران خان کے سابق مشیر شہزاد اکبر کے بھائی کو بھی ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تاہم پولیس ابھی تک انکے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کر سکی۔

شہزاد اکبر جو خود عمران خان کے خلاف ایک کرپشن کیس میں نامزد ہیں نے لندن سے بتایا “ ہم سب کو معلوم ہے اس سب کا ذمہ دار کون ہے، میرے بھائی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، میرے بھائی کو گرفتار کر کے مجھ پہ دباؤ ڈالنا ہے۔”

یکم جون کو معروف وکیل اور قانون دان جبران ناصر کو بھی کراچی سے اٹھایا گیا۔ جبران فوج کے سیاسی کردار کے ناقد رہے ہیں۔

اس ساری صورتحال کے باجود، تحریک انصاف کی جماعت کا اس تیزی سے بکھرنا اپنی مثال آپ ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جماعت کا اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ تحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں کوئی مظبوط سیاسی نظریات نہیں دیے۔ عمران خان اپنی جماعت کو منظم کرنے میں بھی ناکام رہے اور انکا مکمل انحصار اپنی شںخصیت کے گرد گھومتا تھا۔

عمران خان کی سیاسی چالوں کے مایوس کن نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ گو کہ عمران خان کا عوام میں مطالبہ یہ ہے کہ وہ جلد سے جلد عام انتخابات کا حصول چاہتے ہیں جبکہ پس پردہ وہ حکومتی اتحاد کی اس آفر کو رد کر چکے ہیں۔

گذشتہ برس مئی میں عمران خان کو انتخابات کروانے کی آفر دی گئی۔ حتی کہ شہباز شریف اپنا استعفیٰ بھی لکھ چکے تھے لیکن جیسے خان صاحب کو یہ آفر دی گئی وہ لانگ مارچ کے اجتجاج کی شکل میں سڑکوں پہ نکل آئے۔ حکومت کو مجبوراً وہ آفر واپس لینا پڑے تاکہ عوام تک عمران خان کے دباؤ میں انتخابات کروانے پیغام نہ جائے۔

اس کے بعد مئی کے مہینے میں سپریم کورٹ کے حکم کے نتیجے میں حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات کے دوران یہ پرپوزل رکھی گئی کہ جولائی کے اختتام میں اسمبلی تحلیل کر کے ستمبر کے آخر میں انتخابات کروائے جا سکتے ہیں۔ اس آفر پہ تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم پرجوش تھی لیکن عمران خان سے ہونی والی فون کال کے بعد یہ آفر مسترد کر دی گئی۔

عمران خان کا اپنی جماعت کی لیڈر شپ سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ ماسوائے چند ایک کے جو عسکری اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ڈٹ گئے اور سنگین نتائج کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ ایک سابقہ سینئر صحافی لیڈر کے مطابق جو لوگ تحریک انصاف کو چھوڑ گئے ہیں وہ اب مائنس عمران خان تحریک انصاف کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔ سینئر  لیڈر کے مطابق “عمران خان کو اس بات کی پروا نہیں ہے کہ اس کے کارکنان یا ساتھی کن حالات کا سامنا کرتے ہیں۔جو لوگ عمران کو قریب سے جانتے ہیں انکو معلوم ہے عمران خان نرگسیت زدہ شخصیت کے مالک ہیں”۔

یہ مضمون 3 جون 2023 کو گارڈین میں شائع ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

https://www.theguardian.com/world/2023/jun/03/pakistan-imran-khan-pti-military-crackdown?utm_source=facebook&utm_medium=news_tab

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply