حواس باختہ بھارتی حکومت۔۔۔طاہر انعام شیخ

پلوامہ حملے اور پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان فضائی حملوں نے مسئلہ کشمیر کو ایک بار پھر پوری دنیا کے سامنے نمایاں کردیا ہے اور یہ کہ اگر دونوں ایٹمی قوتوں کے درمیان تنازع کی اس بنیادی وجہ کو ختم نہ کیا گیا تو یہ کسی بھی وقت پورے برصغیر کے امن کو تہ و بالا اور کروڑوں انسانوں کی اموات کا باعث بن سکتا ہے۔اس کے باوجود کہ فریقین میں سے شاید کوئی بھی جنگ نہ چاہتا ہو، بعض اوقات حالات اور مجبوریاں معاملات کو اس نہج پر لے آتی ہیں جہاں معاملات کسی کے بھی کنٹرول میں نہیں رہتے، یوں لگتا ہے کہ اب بھی تمام سلسلہ مختلف حلقوں کی مختلف جمہورتوں پر محیط تھا۔ فرینڈز مودی جنہوں نے گزشتہ الیکشن بھی پاکستان اور مسلم دشمن پر جیتے تھے۔ اب نئے الیکشن کے موقع پر بھی بھارتی عوام اور دنیا کو یہ تاثر دے رہے تھے کہ مسئلہ کشمیر درحقیقت پاکستان سے آنے والے چند سو دہشت گردوں کی کارروائیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ہم نے زیادہ تر کو تو ختم کردیا ہے اور اب بقایا تقریباً دو تین سو افراد کے مارے جانے کے بعد معاملہ ختم ہوجائے گا۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام جو اپنی جدوجہد آزادی میں ایک لاکھ سے زیادہ جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں۔ ہزاروں ماوں، بہنوں کی عصمت لٹا چکے ہیں۔ یہ بات نہ صرف حقیقت سے بالکل متضاد بلکہ کشمیری عوام کو طیش دلانے کے مترادف تھی اور پھر ایک19سالہ کشمیری نوجوان نے خودکش بمبار بن کر40سے زیادہ بھارتی فوجیوں کو ہلاک کرکے یہ پیغا م دیا کہ یہ تحریک کشمیریوں کی اپنی اور مکمل طور پر اندرونی جدوجہد ہے، جسے کسی طور پر بھی طاقت کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ پلوامہ حملے نے نریندر مودی اور ان کی حکومت کو حواس باختہ کردیا، انہیں الیکشن میں اپنے خواب بکھرتے نظر آئے۔ مجبوراً اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ایک بڑا خطرہ مول لے کر انہیں پاکستان پر فضائی حملہ کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ان کا مقصد صرف اپنے عوام کو یہ بتانا تھا کہ ہم نے زبردست جوابی کارروائی کرکے پلوامہ حملے کے ذمہ داران کے کیمپوں کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے۔ پاکستان جوکہ اپنی پوری توجہ اقتصادی بحالی کی کوششوں پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔ اب اس کی بھی مجبوری بن گئی کہ وہ بھارت کے اس جارحانہ حملے کا جواب دے اور پھر جو کچھ ہوا وہ تمام دنیا نے دیکھا، اللہ تعالیٰ کا مکمل کرم پاکستان کے ساتھ رہا۔بھارت جس کی مودی حکومت مسلم دشمنی میں اسرائیل کے ساتھ مکمل تعاون میں ہے اور وہ اسرائیلی اسلحے کا بہت بڑا خریدار ہے۔ اس کا پریس بڑے فخر کے ساتھ بتا رہا تھا کہ پاکستان میں جیش محمد کے مبینہ کیمپوں پر اسرائیل کے بنے ہوئے رافیل سپائس اسمارٹ بم استعمال کیے گئے جنہوں نے9سو سے زیادہ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ اس حملے کی اصل حقیقت بیان کرتے ہوئے ممتاز برطانوی اخبار انڈی پینڈنٹ کے مشہور کالم نگار رابرٹ فسک نے لکھا ہے کہ اسرائیل کے ان بموں سے تباہ ہونے والے شاید وہاں3سو افراد تو نہیں بلکہ وہاں کے پتھر اور درخت تھے۔ بھارت کی مزید بدقسمتی یہ ہوئی ہے کہ اس کے پاس اپنے دعووں کا کوئی ثبوت نہیں جب کہ پاکستان کے بھارتی طیارے تباہ کرنے اور پھر پائلٹ کی گرفتاری روز روشن کی طرح سب کے سامنے ہے اور پھر اس بات نے بھی بھارت کے جھوٹ کو مزید واضح کیا جب اس نے اپنے پہلے بیان میں اپنے کسی پائلٹ کی گمشدگی یا گرفتاری سے مکمل انکار کیا۔ بھارت جوکہ رقبے میں پاکستان سے4گنا، فوجی طاقت میں5گنا، آبادی میں6گنا اور دفاعی بجٹ میں سات گنا بڑا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ پہلے دن پاکستان پر فضائی حملوں کے بعد بھارتی قوم جس طرح پاگل ہورہی تھی، اگلے دن پاکستان کی جوابی کارروائی سے ان پر سناٹا طاری ہوگیا۔اس موقع پر یہ بات نہایت واضح ہوکر سامنے آئی ہے کہ پاکستان کے عوام اور میڈیا ذہنی طور پر بھارت کے مقابلے میں بہت زیادہ بالغ اور متحمل مزاج ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور حکومت اس موقع پر جس متانت اور پروقار انداز میں اپنے حواس قابو میں رکھتے ہوئے خود پر تھونپے گئے اس بحران سے نمٹے۔ انہوں نے بھارت کے عزائم خاک میں ملا دئیے ہیں اور ان کی پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں اور پاکستان نے جہاں امن اور صلح کا پیغام دیا ہے وہاں نیشنل ڈیفنس کمیٹی جو ایٹمی اسلحے کی ذمہ دار ہے۔ اس کا اجلاس طلب کرکے یہ اشارہ بھی دے دیا ہے کہ ہم ہنگامی طور پر کسی بھی قسم کی جارحیت سے نمٹنے کے لیے مکمل تیار ہیں۔ چین، ترکی، ایران، روس، امریکہ نے بھی معاملات کو مذاکرات کی میز پر حل کرنے کو کہا ہے اور یہ سبھی کو پتہ ہے کہ اصل معاملہ کشمیر ہی کا ہے۔ اس موقع پر ہمیں دھچکہ صرف اپنے بہادر ملک متحدہ عرب امارات میں ہونے والی اسلامی ممالک کی کانفرنس میں بھارت کی وزیر خارجہ کی شمولیت اور پھر ان سے خطاب سے پہنچا ہے۔ اسلامی ممالک کی یہ تنظیم گزشتہ50سال سے ہمارے پاس مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا ایک بڑا ذریعہ رہی، پاکستان کے وزیر خارجہ نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے ایک بالکل ٹھیک قدم اٹھایا۔ اگرچہ کانفرنس کے اگلے سیشن میں پاکستانی حکام نے شرکت کی اور ان کی طرف سے پیش کردہ قرارداد پر اسلامی ممالک کی تنظیم نے لائن آف کنٹرول پر سیزفائر کے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر بھارت کی مذمت کی ہے۔ بھارت کو اب یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ کشمیری عوام اب اس کے مظالم سے انتہائی تنگ آچکے ہیں۔ تحریک کی عملی قیادت اب ایسے افراد کے ہاتھ میں آچکی ہے جو1989ء کے بعد پیدا ہوئے اور انہوں نے بھارتی افواج کے قتل و تشدد کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا، ان کے بے شمار عزیزواقارب اس تشدد کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں اور خود ان کے دلوں سے موت کا خوف ختم ہوچکا ہے، جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ بقول ساح لدھیانوی

Advertisements
julia rana solicitors

جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
بھارت اگر خود اپنی ترقی و سلامتی اور خطے میں امن چاہتا ہے تو اس کا واحد حل مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ہے، اگر نیت صحیح ہو تو یہ کوئی اتنا مشکل نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply