پھوکے فائر۔۔پروفیسر رفعت مظہر

کپتان بھٹو بننے کی کوشش میں ہے لیکن اِس کے لیے جان کی بازی لگانی پڑتی ہے۔ شاید اسی لیے اُنہوں نے میانوالی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ قید ہونے اور مرنے کے لیے تیار ہیں جبکہ اُن کے حواری کہتے ہیں کہ اگر کپتان کو کچھ ہوا تو وہ پاکستان کو تحریر اسکوائر بنا دیں گے۔

پہلی بات تو یہ کہ “تھوتھا چنا باجے گھنا” کے مصداق کپتان کے یہ محض “پھوکے فائر” ہیں جس کی گواہی اُن کا ماضی یوں دیتا ہے کہ عدلیہ تحریک میں جب پولیس اُنہیں پکڑنے آئی تو وہ 10 فٹ اونچی دیوار پھلانگ کر بھاگ گئے۔ پھر اِسی تحریک میں وہ پکڑے گئے تو محض 3 دن بعد منتیں ترلے کرکے رہائی پائی۔ اِسی تحریک کے دوران جب میاں نوازشریف جلوس لے کر لاہور سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے تو کپتان راولپنڈی میں کسی جگہ چھپے ہوئے تھے۔ البتہ جب کسی زورآور کا ہاتھ اُن کی پُشت پر ہوتا ہے تو وہ بہت دلیر ہوجاتے ہیں۔ اِس لیے یہ طے کہ آج بھی اُنہیں کسی کی “آشیرباد” حاصل ہے جس کے بَل پر وہ گرج رہے ہیں۔

14 مئی کوریڈ لائین کراس کرتے ہوئے اُنہوں نے بنی گالہ میں چند مخصوص صحافیوں کے سامنے آرمی چیف اور عسکری قیادت کا نام لے کر کہا کہ وہ بھی امریکی سازش کا حصّہ تھے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ فوج امریکہ کو فوجی اڈے دینا چاہتی تھی لیکن اُن کے انکار پر سازش کا آغاز ہوا۔ جب نون لیگ کے 30 لوٹوں نے فارورڈ بلاک بنایا تو عسکری قیادت نے ہی فون کرکے اُنہیں فارورڈ بلاک بنانے سے منع کیا جس سے اُن کی حکومت کمزور ہو گئی۔

کپتان نے یہ الزام بھی لگایاکہ عدلیہ او ر نیب عسکری قیادت کے زیرِاثر تھیں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ چاہتی تو آٹھ دَس سیاستدانوں کو سزا دلوا سکتی تھی جس سے احتساب کا عمل مضبوط ہوتا لیکن اسٹیبلشمنٹ نے ایسا نہیں چاہا جس سے احتساب کا عمل کمزور ہوا۔ گویا عمران خاں اقرار کر رہے ہیں کہ اُنہیں لانے والی بھی عسکری قیادت تھی اورنکالنے والی بھی۔

محسن کُش عمران خاں نے یہ بھی کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ چاہتی تو تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہو سکتی تھی۔ اُنہوں نے کہا “شوکت ترین اور میں نے “نیوٹرلز” کو خبردار کیا تھا کہ اگر سازش کامیاب ہوگئی تو ہماری انتہائی نازک معیشت کی بحالی رائیگاں جائے گی، یہ سب اب ہو رہا ہے”۔ (جس معیشت کی بحالی کی بات کپتان نے کی اُس کی حالت یہ کہ 4500 ارب کا سرکلر ڈیٹ، 5600 ارب روپے تجارتی خسارہ، 20 ارب ڈالر جاری کھاتے کا خسارہ اور سٹیٹ بینک میں صرف 11.3 ارب ڈالر کے اثاثے جن میں سے 10 ارب ڈالر دوست ممالک کی امانتیں۔ اِس کے باوجوداپنی حکومت بچانے کے لیے تیل پر سبسڈی دی گئی)۔

اب کپتان کہہ رہا ہے “میں اسلام آباد سیاست کرنے نہیں انقلاب لانے جا رہا ہوں جو سب کو بہا لے جائے گا”۔ عرض ہے کہ انقلاب تو ہمیشہ خونی ہوتا ہے جو واقعی سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ اِس سے پہلے کپتان کے شیخ رشید اور فوادچودھری جیسے حواری بھی یہ اشارہ دے چکے کہ اگر 20 مئی تک نئے انتخابات کا اعلان نہ کیا گیا تو خونی انقلاب آئے گا۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ کراچی سے اسلام آباد تک ریلی کے دوران بلاول بھٹو نے کپتان کو بار بار کہا کہ 8 مارچ تک استعفیٰ دے کر نئے انتخابات کا اعلان کر دیں نہیں تو اسلام آباد پہنچ کر ہم تمہیں خود نکال دیں گے۔ اُس وقت تو کپتان کسی بھی صورت میں نئے انتخابات کی طرف جانے کو تیار نہیں تھالیکن اب انتخاب یا انقلاب کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اِس لیے ہم بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ کپتان دراصل انتخاب چاہتے ہی نہیں۔

وہ انقلاب کے ذریعے سب کچھ ملیامیٹ کرنے کے درپے ہیں اور پرویزالٰہی سمیت اُن کے تمام حواری متواتر آئین شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ تمام محبِ وطن قوتیں (جن میں یقیناََ اسٹیبلشمنٹ بھی شامل ہے) باہم مل کر اِس “فتنۂ عمرانیہ” کا سدِباب کریں۔ یہ طے کہ موجودہ حکومت انتہائی کمزور اور گرداب میں پھنسی ہوئی ہے جو اکیلے اِس فتنے کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اِس کے علاوہ اُس خفیہ ہاتھ کو تلاش کیا جائے جس کی شہ پر کپتان انقلاب کی باتیں کر رہا ہے۔

ہمیں یقین کہ تحریراسکوائر کی دھمکیاں دینے والے وقت آنے پر ایسے غائب ہوں گے جیسے گدھے کے سَر سے سینگ۔ آمر پرویزمشرف کے “کُو” کے بعد جب میاں نوازشریف جَلاوطنی کاٹ کے واپس آئے تو ایک دن اُنہوں نے اَزراہِ تفنن کہا “لوگ کہتے تھے کہ قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن جب میں نے قدم بڑھایا تو پیچھے کوئی بھی نہ تھا”۔

ذوالفقارعلی بھٹو نباضِ وقت تھے، اُن کی مقبولیت کپتان سے کہیں زیادہ تھی۔ اُنہوں نے دورانِ قید ایک دفعہ کہا “جب میں دنیا سے جاؤںگا تو ہمالیہ بھی روئے گا”۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھول گئے لیکن خال خال ہی احتجاج ہوا۔

میاں نوازشریف کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اُنہیں ایک انتہائی متنازع فیصلے پر تاحیات نااہل کر دیا گیا، قید کی سزا سنائی گئی، پورے شریف خاندان کو گرفتارِبَلا کیا گیا اور اُن کے ساتھیوں پر نیب، ایف آئی اے اور اے این ایف کے ذریعے جیل کے دَر وا ہوئے لیکن حیرت ہے کہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود کوئی شریف خاندان کا حوصلہ توڑسکا نہ میاں نوازشریف کے ساتھیوں کا۔

کپتان کے سر پر اقتدار کا ہما بٹھانے کے لیے بھان متی کا کنبہ جوڑا گیا لیکن جب یہ تجربہ بری طرح ناکام ہوا تو اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹ گئی اور تحریکِ انصاف خزاں کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ وہ جو اشارۂ ابرو کے منتظر تھے کوئی “فون کال” نہ آنے پر آزاد ہوئے اور یوں متحدہ اپوزیشن برسرِاقتدار آئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ لوگ پاکستان کو تحریراسکوائر بنائیں گے جو خود “پناہ گاہوں ” کے متلاشی ہیں؟

تحریکِ عدم اعتماد کے بعد کپتان نے لوئردیر میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا “جو کپتان اللہ سے دُعا کر رہا تھا کہ اے اللہ یہ مجھ پر عدم اعتماد کریں۔ میں یہ دعا اِس لیے مانگ رہا تھا کیونکہ یہ ہر تھوڑی دیر کے بعد کہتے کہ دھرنا دینے آرہے ہیں، اگلے مہینے حکومت جا رہی ہے۔ شکر ہے کہ آپ نے عدم اعتماد کرکے مجھے موقع دیا کہ میں ایک گیند سے 3 وکٹیں گراؤں”۔

شاید اُس وقت تک کپتان کو اندازہ نہیں تھاکہ اسٹیبلشمنٹ اُنہیں گود سے اُتارچکی۔ جب کپتان کو اِس کا ادراک ہواتو اُس نے محسن کُشی پر اُترتے ہوئے ایبٹ آباد کے جلسے میں کہا “میرجعفر غدار تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ میرجعفر کون تھا؟ وہ سراج الدولہ کا سپہ سالار تھا۔ جس نے غداری کی اور سراج الدولہ کی شکست کا سبب بنا”۔

مجمعٔ عام میں تو کپتان میں آج بھی اتنی جرأت نہیں کہ وہ پاک فوج پر سازش کا الزام دھر سکے۔ اسی لیے جہلم کے جلسے میں یوٹرن لیتے ہوئے کہہ دیا کہ میرجعفر تو شہبازشریف کو کہا تھا حالانکہ میاں شہبازشریف تو کبھی فوج کا حصّہ ہی نہیں رہے لیکن بنی گالہ میں اپنے چندحواری میڈیا پرسنز کے سامنے اُس نے کھُل کراسٹیبلشمنٹ کواِس سازش کا حصّہ قرار دیا۔

جہلم کے جلسے میں کپتان نے یہ ڈیوٹی فوادچودھری کی لگائی جس نے اپنی تقریر میں کہا “جب ڈاکو گھر پر حملہ کر دیں تو چوکیدار یہ نہیں کہتا کہ میں نیوٹرل ہوں۔ ملک کے بحران کا واحد حل الیکشن ہے، اگر الیکشن نہ ہوا تو معاملے کا حل پیچیدہ ہو جائے گا۔ عوام کے سوموٹو لینے سے پہلے وہ سوموٹو لیں جن کا آئین کے تحت فرض ہے”۔

اِس سے پہلے لال حویلی والے نے بھی کہا تھا کہ اگر احتجاج ہوا تو وہ خونی ہوگا۔ اب فوادچودھری بھی یہی دھمکی دے رہا ہے۔ انتہائی صبر کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر کو کہنا پڑا کہ پاک فوج اور اُس کی قیادت کو سیاسی معاملات میں گھسیٹنے کی دانستہ کوششیں کی گئی ہیں۔ کچھ سیاسی شخصیات، چند صحافی اور تجزیہ کار سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر افواج کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا “حقیقت کے برخلاف ہتک آمیز اور اشتعال انگیز بیانات انتہائی نقصان دہ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ملک کے بہترین مفاد میں مسلح افواج کو ایسے غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل سے دور رکھا جائے”۔ ہماری مسلح افواج ہمارا فخر ہیں اِس لیے بہتر یہی ہے کہ کپتان اور اُس کے حواری افواجِ پاکستان کو اپنی گندی سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش نہ کریں۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply