بچپن میں ہمارے علاقے میں ایک صاحب بڑے عجیب و غریب تجربے کرتے تھے۔ اہلِ علاقہ انہیں پاگل سمجھتے تھے۔ ہم بچے اْن سے خوف کھاتے تھے لیکن آج غور کرتاہوں تو محسوس ہوتاہے کہ وہ ’’موت کے خوف سے نجات‘‘ کے حربے کیا کرتے تھے۔ جب بھی کوئی قبر کھودی جاتی، وہ اس میں لیٹ جاتے۔ لوگ انہیں زبردستی نکالتے۔ مسجد میں آتے تو جنازے والی رنگین چارپائی پر لیٹ جاتے۔ کئی کئی راتیں وہ مسجد میں پڑی ہوئی جنازے والی چارپائی میں گزار دیا کرتے تھے۔ جہاں کوئی وفات ہوتی وہ پہنچ جاتے اور کوشش کرکے میّت کے سرہانے بیٹھے رہتے۔ اْنہیں اپنے باقی معاملات ِ زندگی سے جو بھی بچا ہوا وقت ملتا وہ ہمیشہ قبرستان میں گزارتے تھے۔
قرانِ کریم کی ایک آیت ہے، ’’فتمنوالموتَ ان کنتم صادقین‘‘ یعنی، ’’موت کی تمنا کرو! اگر تم سچے ہو تو‘‘۔ یہ کیسی عجب آیت ہے۔ موت کی تمنّا کو سچے ہونے کا پیمانہ بتانا کتنا منفرد ہے؟میری دانست میں مقصدِ حیاتِ انسانی ’’فقط موت کے خوف سے نجات کے سوا کچھ نہیں‘‘۔مرنا صرف وہی چاہے گا جو موت سے ڈرتا نہیں۔جو موت سے ڈرتاہے وہ جان بچانے کے لیے ہرطرح کے جھوٹ اور مکروفریب کا سہارا لے گا اور اْس کا ایسا کرنا عین جبلی عمل ہے۔
کھینچ لائی ہے پھر اِک بار سرِ راہِ عمل
ہم کومرنے کی طلب آپ کو جینے کی تلاش
لیکن موت کے خوف سے نجات کا فرق ہی دو پاؤں پر چلنے والے جاندار کو جانور سے انسان بناتا ہے۔ بکری کو فارسی میں بْز کہتے ہیں، جس سے مشتق، اردو میں ڈرپوک کو بزدل کہتے ہیں۔ یعنی بکری کے دل والا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر بکری اپنے دھیان میں بیٹھی ہو اور ہم پیچھے سے آکر آہستہ سے پاؤں بھی زمین پر ماردیں تو وہ ہڑبڑا کر اْٹھ کھڑی ہوتی ہے۔
تمام مخلوقات بشمول انسان ہروقت خوفزدہ رہتی ہیں۔ شیر کو اس لیے اتنی عزت حاصل ہے کہ وہ فطرتاً دوسری مخلوقات سے کم خوفزدہ ہے۔سانپ ہمیشہ خوف کی وجہ سے ڈستاہے۔ ہر جاندار کو اپنے فنا ہوجانے کا خوف ہمہ وقت لاحق رہتاہے اور وہ تحفظ ذات کے لیے ہردم کوشاں رہتاہے حتٰی کہ حملہ میں پہل کی وجہ بھی خوف ہوتاہے، نہ کہ بہادری۔
اگر قدرے غور سے مشاہدہ کریں تو ہر خوف بنیادی طور پر موت کا خوف ہوتاہے۔اور ہرتخریبی عمل بنیادی طور پرخوف کے نتیجے میں پیدا ہوتاہے، حتٰی کہ جھوٹ، غیبت، چغل خوری، کم تولنا، ملاوٹ،سب خوف اور صرف موت کے خوف کی وجہ سے ہوتے ہیں۔دہشت گرد جن طبقوں کے نمائندہ ہیں، اْن طبقوں کو اب اپنے فنا ہوجانے کا خوف لاحق ہے۔ چنانچہ فی زمانہ دہشت گرد کسی سانپ کی فطرت پر عمل پیرا ہیں۔ یعنی فنا ہوجانے کے خوف سے کسی کو ڈسنا۔اگر کوئی دکاندار اپنے گاہک کے ساتھ جھوٹ بولتاہے تو وہ بھی خوف سے بولتا ہے اور اْس کا خوف بھی بنیادی طور پر موت کا ہی خوف ہوتاہے۔
سید نذیر نیازی کو لکھے گئے علامہ اقبال کے ذاتی خطوط میں جابجا یہ پتہ چلتاہے کہ علامہ صاحب اپنی آخری بیماری کے دنوں میں موت سے بہرحال کسی قدر خوفزدہ تھے۔ اگرچہ انہی خطوط میں اقبال نے یہ بھی لکھا کہ ، ’’مجھے ڈرہے کہ میری عمر ، عمرر سول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ نہ جائے‘‘۔ یعنی تریسٹھ برس سے زیادہ نہ ہوجائے۔ لیکن کیا ہم اقبال کے اْن خطوط میں موجود ایک خاص قسم کی گھبراہٹ اور بے چینی کے اظہار کو فی الواقعہ موت کا خوف کہہ سکتے ہیں؟ کیونکہ اس طرح تو رسولِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک دعامانگا کرتے تھے کہ
اللھم انّی اعوذبک من سکراتِ الموتاے اللہ مجھے سکراتِ موت سے بچا!
اگرچہ سکرات کے معنی تو حالتِ نشہ یا غشی کے ہیں یعنی بے ہوشی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب کوئی بے ہوش ہوجائے تو پھر کاہے کا ڈر؟ سکراتِ موت اگر ایک طرح کی بے ہوشی ہے تو اس سے پناہ مانگنا کیوں کر ضروری تھا؟ بے ہوش ہوتے ہی تمام دکھ درد رفع ہوجاتے ہیں۔ اگر سکراتِ موت کے بعد موت آجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دکھ درد رفع ہوجانے کے بعد موت آئی۔ چونکہ بے ہوشی کے عالم میں کوئی خوف و خطر نہیں ہوتا فلہذا یہاں سکرات کے معنیٰ لامحالہ اس حالتِ خوف کے ہیں جو موت کے وقت طاری ہوجاتی ہے ۔چنانچہ رسولِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس دعا سے یقیناً یہ مْراد نہیں ہے کہ’’ اے اللہ مجھے موت کے وقت کی بے ہوشی سے پناہ دے‘‘ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ’’اے اللہ مجھے موت کے وقت کے خوف سے پناہ دے‘‘۔ ہم سب جانتے اور محسوس کرسکتے ہیں کہ موت کا وقت بہرحال ایک خوفزدہ کردینا والا وقت ہوگا۔چنانچہ ایسی دعا کہ اللہ ہمیں اس وقت خوفزدہ ہونے سے بچائے اور ہم دلیری کے ساتھ اس دنیا سے چلے جائیں، کتنی اچھی دعا ہوسکتی ہے۔
دلیری کے ساتھ موت کو گلے لگانے والے لوگ کیوں سب کو اچھے لگتے ہیں؟ ہر انسان کے دل میں یہی خواہش ہے کہ وہ نہ ڈرے۔ اور جب وہ کسی اور انسان کی موت کے وقت ایسا دلیرانہ منظر کبھی دیکھتاہے تو اس کا گرویدہ ہوجاتاہے۔ مجھ سمیت بہت سے لوگ صدام حسین کے خلاف تھے لیکن جس بے خوفی سے اس نے موت کو گلے لگایا کئی مخالفین اْس کے شیدائی ہوگئے۔ مجھے یاد ہے میں نے ایمل کانسی کا آخری انٹرویو بی بی سی پر سنا تھا۔ مجھے اس انٹرویو کا انتظار تھا، میں جاننا چاہتا تھا کہ ایک بندہ جس کو چند گھنٹے بعد سزائے موت دی جائیگی، کس طرح بولتاہے۔ اس کی آواز کپکپاتی ہے یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔اور ایمل کانسی کی آواز ذرا بھی نہ کپکپائی تھی۔ اس نے بہت بہادری کے ساتھ اپنا آخری پیغام بھی دیا تھا جو ظاہر ہے امریکہ کے خلاف تھا۔اور اب تو ایمل کانسی کا یہ انٹرویو یوٹیوب پر بھی دستیاب ہے۔
اس میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں۔ دلیری کے ساتھ موت کو گلے لگانے والا کسی بھی مذہب کا ہو ہمیشہ اچھا لگتاہے۔ برطانیہ کے بادشاہ رچرڈ کو سلطان صلاح الدین ایوبی ہمیشہ ’’رچرڈ شیردل‘‘ کہا کرتا تھا۔ حالانکہ دونوں ایک دوسرے کے اوّل درجے کے دشمن تھے۔اِس لیے، کیونکہ رچرڈ موت سے نہیں ڈرتاتھا۔
اگر ہم توجہ سے مطالعہ کریں تو گوتم بدھ کا نروان دراصل ہرقسم کے خوف سے نجات کا نام ہے۔ خوف، انسان کا بہت پرانا مرض ہے۔ اتنا پرانا جتنا پرانا انسان خود ہے ، بلکہ اس سے بھی پرانا۔ چونکہ خوف انسانوں اور جانوروں میں مشترک عنصر ہے اور ہر قضیہ یہ بتاتا ہے کہ ہر خوف اصل میں موت کا خوف ہوتاہے فلہذا ثابت ہوتا ہے کہ انسان اور جانور کے مابین واحد فرق اس وقت سامنے آتاہے جب کوئی انسان، گوشت پوست کا انسان ہوکر بھی ہر طرح کے خوف سے خود کو برضاؤرغبت آزاد کر کے دکھائے۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرپاتا تو وہ عالم ِ حیوانیت میں ہی مر جاتاہے۔ کیونکہ جانوروں کو تربیت اور تعلیم دے کر بے خوفی نہیں سکھائی جاسکتی۔ نہ ہی جانور خود سے اس بات کا ادراک کرکے خوف کو ترک کرنے کی مشقیں کرسکتے ہیں، جیسا کہ مہاتما بدھ نے کیں۔ یہ صرف انسان ہی ہے جو اس بات کا ادراک رکھتاہے اور جو مشق کے ذریعے خود کو سدھار سکتاہے اور خوف کی حقیقت جان کر اس سے نجات کے طریقے اپنا سکتاہے۔
میں نے مضمون کے شروع میں کہا کہ مقصدِ حیاتِ انسانی محض خوف سے نجات ہے اور یہ کہ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ میری یہ رائے اس لیے ہے کہ مجھے ارتقائے حیات کے سفر میں اجتماعی انسانی اخلاقیات فی الاصل خوف کی پیداوار محسوس ہوتی ہے۔میں اکثر کہا کرتاہوں کہ ’’اخلاق وہ ہتھیار ہے جو ہم دوسرے کے شر سے خود کو بچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں‘‘۔ میرے اِس خیال کا اوّلین ماخذ بہرحال یہ حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے،
المْسلِمْ مَن سَلِمَ المْسلِمْون َمِن لِسانِہ وَیدہمسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔
ہم جب کسی کے ساتھ اچھے اخلاق سے بات کرتے ہیں تو دراصل ہم اسے خیرسگالی کا پیغام دیتے ہیں کہ ہماری طرف سے اْسے کوئی ’’خطرہ‘‘ (Threat) نہیں ہے۔ جب وہ خود کو ہم سے محفوظ محسوس کرنے لگتاہے جو جواباً ہمیں بھی ویسا ہی خیرسگالی کا پیغام دیتاہے۔ اسے اخلاقیات کہتے ہیں۔ایسے بہت سے لوگ جنہیں ایک دوسرے سے خطرہ نہیں ہوتا مل جل کررہیں تو حقیقی معاشرہ بنتاہے۔
مشاہدے کی بات ہے کہ کسی اجنبی سے بات کرتے ہوئے عام انسانوں کے اعصاب کچھ دیر کے لیے تن جاتے ہیں اور پھر تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد نارمل ہوتے ہیں۔یہی خوف ہے۔ یہ جبلی ، بایں ہمہ خودکار ہے۔ یہ ہر وقت ایک زندہ انسان محسوس کرتاہے اور اسی کی وجہ سے وہ جھوٹ سے لے کر قتل تک تمام ناپسندیدہ افعال سرانجام دیتاہے۔ اگر اس کا یہ خوف کسی طرح ختم کردیا جائے تو وہ نہ جھوٹ بو لے گا اور نہ ہی کوئی اور ناپسندیدہ کام کبھی کرے گا۔ خوف ،ختم کرنے کو تو ،شراب پی کر بھی کیا جاسکتاہے۔ پنجاب کے بعض علاقوںمیں شراب کو ’’شیرنی کا دودھ‘‘ کہا جاتاہے۔ لیکن شراب سے خوف عارضی طور پر ختم ہوتا ہے اور جب نشہ اترجاتاہے تو پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ واپس آتاہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے خوف سے نجات کا ایک طریقہ بیان فرمایا ہے،’’جہاں خوف دیکھو! اْس میں داخل ہوجاؤ‘‘یہ بلاشبہ ایک کارگر طریقہ ہے۔ وہ لوگ جو خوف والے مقامات میں داخل ہوجاتے ہیں بالآخر اس قدر بہادر ہوجاتے ہیں کہ ان کی شخصیت میں سے جھوٹ سے لے کر قتل تک ہرطرح کی قباحت تقریباً ختم ہوجاتی ہے۔ خود علی رضی اللہ عنہ کے دیگر اقوال سے معلوم ہوتاہے کہ خوف سے نجات کا ایک دائمی طریقہ بھی ہے۔ یہی طریقہ مہاتما بدھ نے بھی عملاً ثابت کیا اور اسی طریقہ کے حق میں بعض احادیث اور آیات بھی ہیں۔ اور وہ طریقہ ہے ’’غم‘‘۔ غم سے قربت ہرطرح کے خوف سے نجات کے لیے اکسیر نسخہ ہے۔ایک غمزدہ انسان کم خوفزدہ ہوتاہے۔ غم اور خو ف آپس میں بالعکس متناسب ہیں۔ جس قدر غم زیادہ ہوتاجائیگا، خوف اْتنا ہی کم ہوتا جائیگا۔لیکن غم کا مسئلہ یہ ہے کہ اِسے اپنی مرضی سے خود پر طاری نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ دوسروں کے غموں میں شریک ہوکر غم سے قربت حاصل کی جاسکتی ہے اور دوسروں کے غم میں شریک ہونے کی مشق میں ،یقیناً عبدالستارایدھی جتنے مقام تک پہنچتے پہنچتے خوف بالکل ہی فنا ہوجاتاہے۔
خیر! چونکہ میں ہر طرح کی اخلاقیات کا ارتقا فی الاصل جبلت ِ خوف کی پیداوار سمجھتا ہوں اس لیے میرا یہ ماننا ہے کہ انسانی زندگی کا مقصد ہی فقط خوف سے نجات ہے۔ البتہ اس مقام پر پہنچ کر گفتگو متصوفانہ شکل اختیار کرجایا کرتی ہے کیونکہ خوف سے نجات یعنی دنیاوی معاملات سے بے پروائی اور بے نیازی ایک خالص متصوفانہ تشریح ہے۔ کہتے ہیں کلمہ طیبہ کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔غالباً اِسی لیے وظائف بتانے والے بعض (بقیہ ص ۷۴ پر)
بزرگ، خوف سے نجات کے لیے کثرت سے کلمہ طبیہ کا ورد بتاتے ہیں۔
میں کہاکرتاہوں کہ ’’اس دنیا میں خود کو دوسروں کے شر سے محفوظ رکھنے کے لیے جانوروں کو سینگ اور پنجے عطا کیے گئے ہیں جبکہ انسانوں کو اخلاقیات‘‘
میرا ماننا ہے کہ انسانی حیات میں اخلاقیات نے ایک عضوکی طرح سے ارتقا کیا۔ اور میرا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانی حیات میں ارتقا کا اگلا قدم تمام انسانوں کا اخلاقی طور پر بہتر ہوجانا ہی ہے کیونکہ دوسری صورت میں لازمی طور پر انسان کا وجود ہی فنا ہوجائیگا۔تمام انسان اخلاقی ارتقا میں اعلیٰ ترین مثال بن جائیں اس کے لیے لامحالہ ہرانسان کو دوسرے انسان کے شر سے محفوظ ہوجانے کی سند درکار ہوگی یا پھر ’’بے خوفی‘‘ کا انمول تحفہ جو پھر لامحالہ کسی جانور کا شیوہ نہیں۔ اس سب پر مستزاد ، سقراط سے لے کر الفارابی تک تمام فلسفیوں نے شجاعت کو اعلیٰ شخصیت کا خاصہ لکھاہے۔
Facebook Comments
بہت اچھا مضمون ہے. محترم ادریس آزاد کی بیشتر باتوں سے اتفاق ہے. البتہ ان کے اس بیان “مقصد حیات محض خوف سے نجات ہے” سے اختلاف کی جرات کروں گا. حیات انسانی کا اصل مقصد ہمیں اس وقت معلوم ہو گا جب ہم کم از کم آدھی کائنات تسخیر کر لیں گے. جوں جوں انسان کا علم بڑھتا جاتا ہے اس کا خوف بھی کم ہوتا جاتا ہے. ایک دن ایسا بھی آتا ہے جب وہ ہر قسم کے خوف سے آزادی حاصل کر لیتا ہے. فرض کریں ایک شخص کو یقین ہے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں. کیا یہ یقین اس کے موت کے خوف کو بڑھا دے گا، کم کر دے گا، یا بالکل ہی ختم کر دے گا؟