ناسا بمقابلہ اسپیس ایکس۔۔عمران طور

1972 کے بعد اب تک چاند پر کوئی انسانی مشن نہیں گیا. اور پرائیویٹ خلائی کمپنیوں کے آنے سے خلائی دوڑ میں اضافہ ہو رہا ہے. پرائیویٹ کمپنیوں میں اسپیس ایکس کا نام سرِفہرست ہے کہ جس نے ناسا سے مل کر خلاءبازوں کو اپنے راکٹوں کے ذریعے بین الاقوامی اسپیس سٹیشن تک پہنچایا.
اسپیس میں جانے کے لیے راکٹ مختلف مرحلوں سے ہوتے ہوئے زمین کے گرد مدار میں پہنچتے ہیں. ایندھن کے وہ ٹینک جو راکٹ کو فضاء میں بلند کرنے کے بعد خالی ہو جاتے ہیں ان کو راکٹ سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے تاکہ راکٹ کا آگے بڑھنا آسان ہو سکے. راکٹ ٹیکنالوجی کو مزید بہتر بنانے کے لیے ناسا اور اسپیس ایکس میں کانٹے دار مقابلہ جاری ہے جس کا مقصد انسانوں کو خلاء میں لے جانا ہے.
اسپیس ایکس اس ضمن میں ایسا سسٹم تیار کر رہا ہے جس کا راکٹ لانچ سسٹم دو حصوں پر مشتمل ہو گا— سپر ہیوی اور سٹارشپ. سپر ہیوی super heavy حصے کو راپٹر راکٹ انجن کے ذریعے فائر کیا جائے گا جس میں ایندھن کے طور پر مائع میتھین اور مائع آکسیجن استعمال ہو گی. راکٹ لانچ کے وقت 15 ملین پاؤنڈ کی تھرسٹ پیدا کرے گا جو کہ اپولو خلائی راکٹ کے مقابلے میں دوگنا ہے. لانچر کے اوپر سٹار شپ موجود ہو گا جو کہ مزید چھ راپٹر انجنز پر مشتمل ہے. سٹار شپ کے اندر سامان لے جانے کے لیے کافی خالی جگہ رکھی گئی ہے.

سٹارشپ کو خلاء, زمین اور مریخ کی فضاؤں میں اڑنے کے لیے بنایا گیا ہے. جِس میں چھوٹے چھوٹے پر موجود ہیں جو کہ مطلوبہ جگہ پر گلائیڈ کر کے لینڈنگ کے لیے استعمال ہوں گے. سٹارشپ کی ترتیب اس طریقہ سے رکھی گئی ہے کہ یہ لینڈنگ ایریا کے قریب پہنچ کر عمودی سمت میں آ جاتا ہے اور چھ راپٹر انجنز کی مدد سے لینڈ کرتا ہے.
مریخ اور چاند کی کمزور کشش ثقل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ باقی ماندہ ایندھن کو جلا کر دوبارہ وہاں سے فلائیٹ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے. یہ پورا سسٹم 100 ٹن وزن اٹھانے کے لیے بنایا گیا ہے.
ناسا کا سپیس لانچ سسٹم SLS اسپیس شٹل کے زمانے Saturn V طرز کا راکٹ استعمال کرے گا. SLS کا کور حصہ 3.3 ملین لِٹر مائع ہائیڈروجن اور مائع آکسیجن پر مشتمل ہے. جن کے ساتھ چار RS-25 انجن استعمال ہوں گے. کور سٹیج کے ساتھ دو راکٹ بوسٹر منسلک ہوں گے جو کہ 8.2 ملین پاؤنڈ کی تھرسٹ پیدا کریں گے اور اس کے ذریعے سپیس کرافٹ کو زمین کی نچلے آربٹ میں بلند کیا جائے گا اور پھر اگلی سٹیج میں خلاءباز والے کیپسول کو زمین کے مدار کے باہر بھیجا جائے گا. SLS اورین کیپسول کو استعمال کرتے ہوئے چھ خلاءبازوں کو چاند پر بھیجے گا اس کیپسول میں ایک بڑی ونڈو بھی ہو گی جس کے ذریعے خلاء باز خلائی سفر کا نظارہ کر سکیں گے. اس کیپسول کا اپنا انجن اور فیول سسٹم ہو گا جس سے یہ کیپسول واپس زمین پر آ سکے گا.
مستقبل میں زمین اور چاند کے درمیان ایک سرائے جیسا خلائی اسٹیشن بنایا جائے گا جہاں سے اسپیس کرافٹس میں ری فیولنگ کی جا سکے گی. SLS کے حصے اسپیس ایکس کے راکٹ کے بر عکس دوبارہ استعمال کے قابل نہیں ہوں گے. ناسا نئی تحقیق کی بجائے پرانے آلات کی ہی کانٹ چھانٹ کر کے SLS سسٹم کو بنا رہا ہے.
تو انسانوں کو چاند پر لے جانےکے لیے پہلے بازی کون لگائے گا؟ ناسا یا اسپیس ایکس؟
ناسا نے تو اگست 2023 تک انسانوں کو چاند کے قریب کا نظارہ دکھانے کی ٹھانی ہے لیکن اسپیس ایکس نے اس بندھن کی ابھی تک کوئی تاریخ مقرر نہیں کی. لیکن مسک بھی 2023 تک لوگوں کو خلائی سیر سپاٹے کرنے کا خواہشمند ہے اور 2024 تک یہ دائرہ مریخ تک بڑھانا چاہتا ہے.
چاند پر پہلے چاہے جو بھی پہنچے لیکن اس دفعہ یہ خلائی جستجو کا ایک بہت بڑا قدم ہو گا جس کو ہر کوئی بلا شکوک و شبہات دیکھے گا.

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ جستجو

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply