نینڈرتھلز کون تھے؟(2)۔۔ضیغم قدیر

وہ مرد ایک نینڈرتھل تھا، چوڑی چھاتی، چھوٹا قد، اکڑ کر چلنے والا وہ جسم کچھ اعضاء کو نکال کے باقی کا سارا برہنہ تھا اور رومانیہ کے اس جنگل میں شکار کی تلاش میں گھوم رہا تھا کہ اس کا سامنا ایک تنہا انسانی لڑکی سے ہوا۔ جو کہ اپنے گروہ سے بچھڑ چکی تھی۔
یہ لڑکی جس کی رنگت کالی، ٹانگیں لمبی اور بال بکھرے ہوئے تھے ریچھ کی کھال پہنے سامنے ہکا بکا ہو کر کھڑی تھی۔ نینڈرتھل مرد اس حسن کی پری کو دیکھ کر پگھل گیا۔ کیونکہ عموما نینڈرتھلز کی مادائیں ان کے جیسی نا ہی لمبی تھیں اور نا ہی وہ ایسی ‘خوبصورت’ شکل و صورت رکھتی تھی۔ سو وہ دونوں ایک دوسرے کو یک ٹک دیکھتے رہے۔
اسکے بعد نینڈرتھل مرد نے اشارہ جاتی زبان اور چیخ و پکار سے اس لڑکی کو متوجہ کیا، پہلے وہ سہم گئی، پھر مسکرائی اور پھر وہ دونوں آچنا بن گئے اور باقی کی کہانی آپ سب بوجھ سکتے ہیں۔
مگر کیا واقعی ایسا ہوا؟
جی نہیں اور جی ہاں بھی! سنہ 2002 کی بات ہے کہ دو کھوجی رومانیہ کے اس دور دراز علاقہ میں آوارہ گردی کر رہے تھے۔ اس دوران ان کو ایک خفیہ راستہ نظر آیا جو کہ پانی کے اندر سے ہوتا ہوا آگے جا رہا تھا اور آگے جا کر یہ راستہ غاروں کے ایک سسٹم میں جا کھلا۔
یہاں پہ ہڈیاں ہی ہڈیاں تھی سو اس غار کو Peştera cu Oase یا پھر ہڈیوں کی غار کا نام دے دیا۔ اس غار میں بہت سے ممالیہ جانوروں کی ہڈیاں تھیں اور یہ غار غالبا ریچھوں کا مسکن رہ چکی تھی۔
مگر
ان ہڈیوں کو دیکھتے دیکھتے ریسرچرز کو ایک ‘انسانی’ جبڑے کی ہڈی بھی نظر آئی۔ یہ جبڑے کی ہڈی نینڈرتھلز سے بہت مماثلت رکھتی تھی۔ تب ہمارے پاس جدید ڈی این اے ایکسٹریکشن کی ٹیکنالوجی موجود نہیں تھی سو تب بس اس ہڈی کی کاربن ڈیٹنگ کرکے عمر کا تعین کرنے کی کوشش کی اور پتا چلا کہ یہ ہڈی آج سے 37-42 ہزار سال تک پرانی ہو سکتی ہے۔
بعد میں 2015 میں جدید سیکونس ٹیکنالوجی کی مدد سے اس ہڈی کا تجزیہ کیا گیا تو پتا چلا کہ جبڑے کی یہ ہڈی نینڈرتھلز کے ڈی این اے کے ساتھ 7-8% مماثلت رکھتی ہے اور یہ انسانی تاریخ میں نینڈرتھلز کیساتھ سب سے زیادہ مماثلت رکھنے والا انسانی ڈی این اے ملا ہے۔ اس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس ہڈی والے شخص کے پڑدادا نے نینڈرتھلز کیساتھ عمل تولید کیا۔
مگر کیسے؟
وہ کہانی ہم کبھی بھی نہیں ڈھونڈ سکتے کیونکہ تاریخ میں کردار مٹ جاتے ہیں کہانیاں فنا ہوجاتی ہیں رہتا ہے تو صرف ڈھانچہ
لیکن گمان یہ کیا جاتا ہے کہ جیسے شروع میں یہ کہانی ایک رومینٹک طریقے سے بتانے کی کوشش کی گئی ہے ویسا بالکل بھی نہیں ہوا ہوگا کیونکہ تب زبردستی کے تعلقات بنانا زیادہ عام تھا سو ممکن ہے وہ انسانی عورت نینڈرتھلز نے اغوا کی ہو جس سے آگے یہ نسل چلی۔
مگر یہ نسل زیادہ عرصہ نا چل سکی اور فنا ہوگئی۔ آج ہم میں نینڈرتھلز کا 1سے 3 فیصد ڈی این اے شئیر کرتے ہیں۔ مگر ہمیں یہ بھی پتا چلا ہے کہ ہم نینڈرتھلز کیساتھ یہ جنسی تعلق ایک آدھ بار نہیں بلکہ کئی بار رکھ چکے ہیں ۔ (اگلی اقساط میں وہ شواہد) جبکہ اس جبڑے سے کشید شدہ ڈی این اے پہ موجود نینڈرتھلز کے ڈی این اے کے تسلسل سے چلنے والے پیٹرن یہ بتاتے ہیں کہ اسکے پڑدادا یا لکڑ دادا نے انسانی مادہ کیساتھ جنسی تعلق قائم کیا۔
تو ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف نینڈرتھلز ہی ہماری ماداؤں کیساتھ جنسی تعلق رکھتے تھے یا نینڈرتھلز بھی ہمارا ڈی این اے رکھا کرتے تھے؟
اور اگر نینڈرتھلز الگ سپی شی تھے تو ہم ان سے جنسی تعلق کیسے رکھ پاتے تھے؟
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply