• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • بلیک ہولز -ایک پُراسرار مقام۔۔۔۔۔۔محمد شاہ زیب صدیقی

بلیک ہولز -ایک پُراسرار مقام۔۔۔۔۔۔محمد شاہ زیب صدیقی

ہماری کائنات حیرتوں سے بھری پڑی ہے، شاید اسی خاطر جے بی ایس ہیلڈین نے کہا تھا:”یہ کائنات اتنی پُراسرار نہیں جتنا تم سوچتے ہو، بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ پُراسرا ر ہے جتنا تم سوچ سکتے ہو!”۔

حضرتِ انسان نے جب سے ہوش سنبھالااپنے اوپر تاروں بھرے آسمان کو محو حیرت سے تکتا آرہا ہے، ہماری کائنات کو پُراسرار بنانے میں اس کی وسعتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔اگر کائنات وسیع نہ ہوتی اور اس میں طرح طرح کے مناظر نہ ہوتے تو شاید ہم جلد ہی اس سے اکتا جاتے، کائنات کے تعجبات کا ذکر کیا جائے تو ان میں بلیک ہولز صفِ اول پہ دکھائی دیتے ہیں۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ جب کوئی ستارہ اپنی طبعی عمر پوری کرچکا ہوتا ہے تو اس کے مرکز میں موجود ہائیڈروجن نیوکلئیر فیوژن ریکشن کے باعث لوہا پیدا کرچکی ہوتی ہے جو اس کے لئے موت کا پیغام ثابت ہوتا ہے۔ جس کے بعد ستارہ ایک زوردار دھماکے سے پھٹتا ہے ، اس دوران اس ستارے میں سے نکلنے والی روشنی/توانائی اربوں ستاروں کے برابر ہوتی ہے، اس عمل کو سُپرنووا (Supernova)کہا جاتا ہے۔

ایک ستارے میں دو قسم کی قوتیں موجود ہوتی ہیں، ایک قوت گیسز کے پریشر کی ہوتی ہے ،جو مرکز میں موجود نیوکلئیر ریکشن کے باعث ستارےکو پھیلانے کی کوشش کرتی ہے جبکہ دوسری قوت کشش ثقل کی ہوتی ہے جو اس ستارے کو اندر کی جانب کھینچ رہی ہوتی ہے۔ اربوں سالوں تک یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتی ہیں مگر سُپرنووا کے بعد گیس پریشر والی قوت ختم ہوجاتی ہے اور صرف ستارے کی کشش ثقل رہ جاتی ہے جس وجہ سے ستارہ اپنے مادے کو اندر کی جانب کھینچنا شروع ہوجاتا ہے، اس عمل کے باعث ستارے کی کثافت بڑھنا شروع ہوجاتی ہےاور آخر کار ستارہ لامتناہی حد تک کثیف ہوجاتا ہے، مرکز میں جمع شدہ مادہ سینگولرٹی (singularity)بن کر زمان و مکاں کی چادر میں شدید قسم کا خم پیدا کردیتا ہے جس وجہ سے ستارہ بلیک ہول کا روپ دھار لیتا ہے۔

M87 کہکشاں کے وسط میں موجود بلیک ہول کی تصویرکا عکس(تصویر:ویکیپیڈیا)

عوام الناس میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ بلیک ہول میں اتنی شدید کشش ثقل ہوتی ہے کہ کسی بھی شے کو دور سے کھینچ کر ہڑپ کرسکتے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ جب کوئی ستارہ بلیک ہول کا روپ دھار لیتا ہے تو اس کی کشش ثقل اُتنی ہی ہوتی ہے جب وہ ایک ستارہ تھا، بس فرق یہ آجاتا ہے کہ اب اس کے گرد ایک دائرہ بن جاتا ہے جس کو ایونٹ ہورائزن (Event Horizon)کہا جاتاہے، اس مقام کے اندر آجانے والی شے کو بلیک ہول نہیں چھوڑتا چاہے وہ روشنی کیوں نہ ہو، اس مقام سے باہر موجود اشیاء کو بلیک ہول ایک ستارے جتنی کشش ثقل سے ہی کھینچتا رہتا ہے، اِس مقام پہ بلیک ہول کی شدید گریوٹی کے باعث وقت تھم جاتا ہے کیونکہ تجربات یہ بھی بتاتے ہیں کہ گریوٹی وقت پہ اثرانداز ہوتی ہے، لہٰذا یہ عین ممکن ہے کہ آپ ایونٹ ہورائزن پہ چند ماہ گزار کر جب زمین پہ پہنچیں تو آپ کا سامنا چند بوڑھے لوگوں سے ہواورآپ حیرت زدہ رہ جائیں جب آپ کو معلوم ہوکہ آپ کے سامنے بوڑھے انسان دراصل آپ کے پوتے اور نواسے ہیں، جبکہ آپ خود اس وقت جوان ہونگے، ایسا اس خاطر ہوگا کہ آپ ایونٹ ہورائزن پہ جو چند ماہ گزار کر آئے زمین والوں کے لئے وہ کئی دہائیوں کے برابر ہیں،اس مظہر کو سائنس فکشن فلم “انٹرسٹیلر” دیکھ کر آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
ایونٹ ہورائزن کو آپ ایک آبشار کی مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں، مچھلی کےلئے پانی ایک میڈیم ہےلہٰذا مچھلی پانی سے باہر نہیں آسکتی، اگر کوئی مچھلی پانی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کسی آبشار کے ساتھ نیچے گر جائے تو اس کو واپس اونچائی پہ پہنچنے کےلئے اتنی رفتار چاہیے ہوگی کہ وہ زمین کی کشش ثقل کا مقابلہ کرسکے، بالکل اسی طرح ایونٹ ہورائزن کائناتی آبشار ہے، کائنات میں موجود ہر شے زمان و مکاں کی چادر پہ تیر رہی ہے، ایونٹ ہوائزن سے کوئی شے جب بلیک ہول میں گرتی ہے تو اس کا رابطہ پوری کائناتی سے کٹ جاتا ہے،اس کو واپس کائناتی سمندر میں آنے کےلئے روشنی کی رفتار سے بھی تیزرفتار چاہیے ہوتی ہے۔ بلیک ہول ایسے درندے ہیں جو ہمارے سائنسی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایونٹ ہورائزن پہ پہنچ کر ہمارے سائنسی قوانین بے بس ہوجاتے ہیں۔

بلیک ہول تین قسم کے ہوتے ہیں، پہلی قسم کے بلیک ہولز کو Miniature بلیک ہولز کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ایٹمز کے سائز کے بلیک ہولز ہوتے ہیں، سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ بگ بینگ کے فوراً بعد ہماری کائنات میں یہ ننھے بلیک ہولز موجود تھے، بلکہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان بلیک ہولز کو ہم لیبارٹری میں بھی بنا چکے ہیں، یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ بلیک ہولز جتنے چھوٹے ہوتے ہیں اُتنی جلدی اُڑ جاتے ہیں (یعنی evaporateہوجاتے ہیں)، یہی وجہ ہے کہ یہ ننھے بلیک ہولز لیبارٹری میں ایک سیکنڈ کے اربویں حصے کےلئے بنے اور ختم ہوگئے۔ ان ننھے بلیک ہولزکے بعد سٹیلر بلیک ہول کی باری آتی ہے، یہ درمیانے قسم کے بلیک ہولز ہمارے سورج سے تیس گنا بڑے ہوتے ہیں، ایک کہکشاں میں ایسے بلیک ہولز لاکھوں کی تعداد میں ہوسکتےہیں، کیونکہ سورج سے بڑے ستارے تباہ ہونے کے بعد بلیک ہولز کی اِسی قسم میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ان کے بعد تیسری قسم کے بلیک ہولزآتے ہیں جنہیں Supermassive بلیک ہول کہا جاتا ہے ، یہ ہماری کائنات کے انتہائی خطرناک درندے ہیں جو اپنی پیدائش سے لے کر اب تک اپنے آس پاس موجود ہر شے کو ہڑپ کرکے انتہائی بڑے ہوچکے ہیں، اس وقت کائنات کا سب سے دیوہیکل بلیک ہول ہمارے سورج سے 66 ارب گنا بڑا ہےجو کہ TON618 نامی قوازار میں موجود ہے۔ہر کہکشاں کے وسط میں ایسا بلیک ہول موجود ہوتا ہے، ہماری کہکشاں کے مرکز میں Sagittarius A* نامی دیوہیکل بلیک ہول موجود ہے جو ہمارے سورج سے 40 لاکھ گنا بڑا ہے۔

کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ 1783ء میں جان مشل نے جب ریاضی کی مساواتوں کے ذریعے بلیک ہول کی پیشنگوئی کی تب بلیک ہول کے کوئی آثار اور ثبوت ہمارے پاس نہیں تھے، یہ ایک تصوراتی شے تھی، اسی خاطر بلیک ہول سینکڑوں سال سے انسانوں کے لئے تجسس کا باعث رہا، لیکن اپریل 2019ء میں پہلی بار سائنسدان Massier 87 نامی کہکشاں کے وسط میں موجود ایک دیوہیکل بلیک ہول کی تصویر بنانے میں کامیاب ہوئے، سورج سے 72 کروڑ گنا بڑے اِس بلیک ہول کی تصویر کو بنانے کےلئے زمین کے مختلف کناروں کے پہ موجود 8بڑی ریڈیو ٹیلی سکوپس کو 11 دن تک بلیک ہول کی جانب کیے رکھا، جنہوں نے 52 لاکھ گیگا بائٹس ڈیٹا جمع کیا، جس کو 200 سائنسدانوں نے 2 سال تک دن رات ایک کرکے interferometryتکنیک کے ذریعے یکجا کیا اور تاریخ انسانی میں بلیک ہول کی پہلی تصویر بنانے میں کامیاب ہوئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہماری کائنات پُراسرایت کا سمندر ہے، اس کے ہر گوشے سے ایسے ایسے حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔کائنات کے سمندر میں جوں جوں ہم کھوجنے کی نیت سے اترتے جارہے ہیں یوں یوں ہماری پیاس بڑھتی چلی جارہی ہے فی الحال بلیک ہول کائنات کے وہ باسی ہیں جو ہمارے سائنسی اصولوں کو توڑتے رہتے ہیں، لیکن سائنسدان پُرامید ہیں کہ ہم جلد ایسے سائنسی اصول دریافت کرلیں گے جن کے ذریعے ہم ان کو قابو میں رکھ سکیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply