سیلفی کا آغاز کیسے ہوا؟ – وہارا امباکر

آپ کے سامنے بہت سی تصاویر رکھی ہیں۔ کیا آپ ان میں سے اپنی تصویر پہچان سکتے ہیں؟ کیسے؟ اس کی وجہ ٹیکنالوجی ہے۔ وہ ٹیکنالوجی جو آج ہر گھر میں ہے اور جس نے معاشروں کی ہیئت بدل دی۔
سیلفی لینا آج بہت عام ہے اور کئی بار زیادہ سیلفیاں لینے والوں کا مذاق بھی بنتا ہے لیکن یہ شوق نیا نہیں۔ جب عظیم مصوروں کا آرٹ ورک دیکھیں تو بہت سا آرٹ ورک ایسا ہے جس میں مصور نے اپنی تصویر بنائی ہے۔ وان گو کی اپنی تصویر جس میں اس کے کان پر پٹی بندھی ہے، لیونارڈو اور ڈیوریر کی تصاویر۔ اور پھر رمبرانٹ کے بنائے چالیس فن پارے جو ان کی اپنی صورت کی مصوری ہے لیکن جب ہم پندرہویں صدی سے پہلے کا آرٹ ورک دیکھیں تو یہ بدل جاتا ہے۔ شاہی خاندان کی تصویریں، قدرتی مناظر اور سینکڑوں مختلف طرح کے ٹاپک ہیں لیکن مصور خود ان میں سے غائب ہے۔

یہ وہ وقت تھا جب مورینو کے شیشہ گردوں نے ایک نئی ایجاد کی تھی۔ صاف شیشے کے پچھلی طرف ٹین اور پارے کا مرکب لگا کر ایک چمکدار اور انعکاس کرنے والی سطح بنا کر۔ یہ روزمرہ زندگی میں آئینے کا آغاز تھا۔ اس سے قبل ایک شخص اپنا عکس پانی میں یا کسی پالش کی گئی دھات میں تو دیکھ لیتا تھا مگر یہ کبھی کبھار دیکھی جانے والی ایک ٹوٹی پھوٹی تصویر تھی۔ آئینے نے یہ بدل دیا۔ انسان کو اپنی شکل و صورت سے اچھی آگاہی ہوئی۔ دوسری تبدیلیوں کے ساتھ یہ خود اپنی تصویر بنانے کی صنف (سیلف پورٹریٹ) شروع ہوئی۔ یہ پہلی سیلفیاں تھیں۔ (ان بنائی گئی سیلفیوں کے علاوہ ڈا ونچی نے مصوری سیکھنے کے لئے آئینے کے استعمال کی گائیڈ بھی دی)۔

اب انسان خود اپنے آپ کو صاف صاف ویسے دیکھ سکتا تھا جیسے کسی اور کو۔ یہ انفرادیت کا آغاز تھا۔ سوشل اور پولیٹیکل سائنس جاننے والے اس دور میں فرد کی اچانک بڑھتی اہمیت سے ہونے والی تبدیلیوں سے واقف ہوں گے۔
ادب میں بھی یہ وہ دور تھا جب پہلی بار فرسٹ فارم میں لکھے گئے ناول کا آغاز ہوا۔ ان سائکولوجیکل ناولوں کا بھی جو اسی وقت لکھنا ممکن ہے جو کسی آئینے کے آگے کھڑے شخص کی اپنے آپ سے گھنٹوں کی گئی بامعنی باتوں کے بعد آنے والے خیالات کا نتیجہ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب شروع کے سوال کی طرف۔ آپ کیسے جانتے کہ آپ کیسے لگتے ہیں؟ قدرتی دنیا میں ہماری آنکھ اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتی۔ ہم بچپن سے آئینے کے استعمال کے عادی ہیں۔ اس وجہ سے ہم جانتے ہیں کہ ہم کیسے لگتے ہیں۔ اس کے بغیر اپنی شبیہہ پہچاننا آسان نہیں تھا۔ اگر کسی کو سیلفی لیتے دیکھیں تو یہ سوچ لیں کہ یہ ہمارا اب کا نہیں، بہت پرانا شوق ہے۔ ٹیکنالوجی نے بس اسے آسان کر دیا ہے۔ اس کی ابتدا آج عام لگنے والی اس ٹیکنالوجی سے ہوئی تھی جس نے پھر سیاست، معاشرت، لٹریچر، آرٹ اور انسان کی سوچ پر گہرے نقوش مرتب کئے تھے۔
کوئی بھی نئی ایجاد جو مقبول ہو جائے، معاشرت پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply