• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • ارتقاء ایک سائنسی حقیقت یا ‘محض نظریہ’؟۔۔محمد حسنین اشرف

ارتقاء ایک سائنسی حقیقت یا ‘محض نظریہ’؟۔۔محمد حسنین اشرف

تیمور صلاح الدین نے پچھلے دنوں اسلام اور ارتقاء کے عنوان سے ایک ویڈیو بنائی جس میں انہوں نے مذہب اور ارتقاء کی عمومی تفہیم پر تنقید کرتے ہوئے بہت سی باتیں کیں۔جس کے جواب میں ایک طوفان بدتمیزی بپا ہے اور ہر شخص ان کی بات کو لایعنی اور بے بنیاد ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جس میں روایتی مذہبی طبقہ ہمیشہ کی طرح آگے آگے ہے۔ ان کی ہر بات پر کلام کرنا  تو ممکن نہیں ہے لیکن سردست میرا موضوع صرف سائنس میں تھیوری (نظریہ) اور فیکٹ(حقیقت) کی جو پریزینٹیشن  ہمارے مسلمان یا جدید روایتی لوگ پیش کر رہے ہیں اس پر کلام کرنا ہے۔سائنس کے موضوعات پر ایک غیر سائنسدان رائے  رکھنے کا حق رکھتا ہے اور اس پر تنقید کا بھی مکمل حق رکھتا ہے اگر وہ اس کی استعداد پیدا کرلے۔ لیکن کوئی بھی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ اسے یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ ان باتوں کو کم یا زیادہ کر کے بیان کرے۔ ہمارے ہاں نظریہ اور حقیقت  کا تال میل بھی کچھ ایسا ہے۔مذہبی لوگ نظریہ اور حقیقت کو سائنسی طور پر بیان کرنے کی بجائے اس سے متعلق اپنے اذعان کو بیان کرنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جس میدان سے متعلق آپ گفتگو کریں اس کی اصطلاحات کو تمام تر باریکیوں کے ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔لیکن ہمارے مذہبی طبقہ کے اس رویہ کی ایک بنیادی وجہ ہے جس کا تذکرہ اس آرٹیکل میں بعد میں آئے گا۔ اسی لیے ہم نظریہ ارتقاء کو ‘یہ تو محض ایک نظریہ ہے حقیقت نہیں ہے’ کہہ کر رد کردینا زیادہ مناسب جانتے ہیں۔

سب سے پہلے اس سوال کو دیکھنا چاہیے کہ کیا   روایتی مذہبی لوگ صرف ارتقاء کا انکار اس لیے کر رہےہیں کہ وہ سائنسی نظریہ ہے اور سائنسی نظریات کوئی قابل اعتناء چیز نہیں ہوتے؟ یعنی اگر یہ سائنسی حقیقت  ہوتی تو کیا یہ لوگ اسے مان لیتے؟ ہرگز نہیں،روایتی  مذہبی لوگوں کا مسئلہ سائنس نہیں ہے ان کا مسئلہ اپنی تعبیر کے حق میں دلائل  دینا ہیں۔ اس لیے وہ سائنس کی  بات کو بنا سمجھے اور بغیرسوچے سائنس کے سر رکھ دیتے ہیں۔ اور اس دلیل کی بنیاد پر رد کردیتے ہیں کہ یہ  تو بس’نظریہ’ ہے۔ آج ہی سائنسدان انہیں موجود دلائل اور ثبوتوں کی روشنی میں یہ ثابت کرنا شروع کردیں اور اس پر متفق ہوجائیں کہ ارتقاء ایک حقیقت ہے تو بھی ہمارے روایتی مذہبی لوگ اسے مان کر نہیں دیں گے۔ کیونکہ یہ’نظریہ’ ان کی مانی ہوئی سچائی کے برعکس ہے۔

مذہبی ذہن کو سائنس کے ساتھ تعامل میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ شخص جس نے ساری زندگی  سچائی ، اٹل حقیقت، حق اور باطل جیسے الفاظ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا ہو اس کی نظر میں نظریے جیسے کمزور لفظ کی اہمیت کیونکر ہوسکتی ہے۔ جب ہمارے علماء اپنی تعبیر کو خدا کے حتمی حکم کے طور پر پیش کریں،  اس میں غلطی کی نشاندہی پر لوگوں کو دائرہ دین سے خارج کردیں اور اپنے اکابر کو معصوم بنا کر ان سے دلیل لیں۔ اس کے برعکس سائنسدان اپنی بات  میں خطاء کے امکان کا در کھلا رکھتے ہوئے بات بیان کریں تو ہمارے نزدیک سائنس دان کی بات کمزور  ہوگی، چاہے وہ کتنے ہی دلائل اور ثبوتوں کی روشنی میں کیوں نہ کہی جا رہی ہو۔ اس کے نزدیک قابل قبول صرف ایک ہی چیز  ہے اور وہ، سو فیصد تیقن سے  کی گئی بات ہے۔ ان کے نزدیک حقیقت ہر صورت میں حتمی absolute ہوتی ہے یا پھر بالکل نہیں ہوتی وہ سیاہ و سفیدمیں چیزوں کو دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں میرا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ روایتی مذہبی فکر اپنی جگہ چھوڑ کر کسی نئی تعبیر یا کسی لبرل آئیڈیالوجی کو اپنا لے۔ میرا دکھ صرف یہ ہے کہ اس قوم کو سائنس کے نام  پر سائنس ہی پڑھنے دی جائے اور سائنس ہی پڑھائی جائے، نہ کہ ایسے فرسودہ خیالات ان کے اذہان میں انڈیلے جائیں جن کا حقیقت سے کچھ تعلق نہیں ہے۔

جس طرح مذہب اور مذہبی استدلال کی گہرائی جانچنا اہم ہے، بالکل اسی طرح سائنس اور سائنسی استدلال کے اندر جا کر دیکھنا بہت ضروری ہے۔ اسے کسی بھی سطحی طرز استدلال یا مذہبی کھیل کا حصہ نہیں بنانا چاہیے۔ میں سائنس کو مقدس گائے نہیں مانتا لیکن میں اس بات کو نا انصافی جانتا ہوں کہ کوئی بھی شخص اٹھے اور سائنسی استدلال کا تماشا  بنا کر رکھ دے ۔ اسے بطور کھیل پیش کرے ۔ جس سے سادہ اذہان کے لیے سائنسی استدلال محض ایک کھیل کود کی  چیز بن جائے۔

ہمارے ہاں سائنسی نظریے کا تصور کچھ اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے کوئی  سائنسدان اٹھ کر یونہی کوئی بات کہہ دیتا ہے  اور اسے مفروضہ بنا دیتا ہے پھر وہ اس مفروضے کے حق میں دلائل دیتا ہے تو یہ تھیوری بن جاتی ہے اور اس کے بعد وہ اسے ثابت کرتا ہے تو یہ حقیقت کہلاتی ہے۔ سائنس کی نویں جماعت کی کتابی تعریف اور سائنس کی دنیا میں  بڑا فرق ہوتا ہے۔ سائنسی طرز استدلال میں لفظ مفروضہ کسی سائنسدان کی چھٹی حس کا نام نہیں ہے۔ مفروضہ، معلق ہوا میں نہیں ہوتا کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ سائنس کی دنیا کچھ معلوم حقائق یا اصولوں پر کھڑی ہے۔ ان اصولوں، تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر کسی بھی نامعلوم سے متعلق ایک مفروضہ قائم کیا جاتا ہے۔ یہ مفروضہ معلوم حقائق اور اصولوں کی روشنی میں ہوتا ہے۔ اس  نامعلوم سے متعلق پھر دلائل او رثبوتوں کی  تلاش ہوتی ہے۔ یہ دلائل اورثبوت پھر آگے بڑھ کر اس مفروضے کو تقویت بخشتے ہیں اور اس اثبات اور نفی کے ایک پراسس کو ہم تھیوری کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ پروفیسر جیمی ٹینر کہتے ہیں:

“The way that scientists use the word ‘theory’ is a little different than how it is commonly used in the lay public. “Most people use the word ‘theory’ to mean an idea or hunch that someone has, but in science the word ‘theory’ refers to the way that we interpret facts.”

سائنس میں جب ہمارے پاس دلائل یا حقائق موجود ہوں تو ہم ان کی مخصوص تعبیر کرتے ہیں یہ مخصوص تعبیر جو کہ دلائل اور ثبوتوں کی بنیاد پر ہوتی ایک نظریے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ سائنسی طرز استدلال میں حقیقت اور نظریہ دو مختلف چیزیں ہیں۔

حقیقت یا فیکٹ وہ چیز ہے جسے ہم دیکھ سکتے ہیں ، جس کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ جبکہ تھیوری یا نظریہ اس حقیقت یافیکٹ کی ایک مخصوص تعبیر کا نام ہے۔ اسی لیے ارتقاء کا نظریہ، ان حقائق کی تعبیر ہے جس کا ڈارون نے اور بعد ازاں بہت سے دوسرے سائنسدانوں نے مطالعہ کیا اور اس کی تصدیق کی۔ اسٹیفن جے گولڈ نے اسے بہت خوبصورت انداز میں ایک آرٹیکل جو لکھا اس مقصد کے لیے گیا تھا اس میں بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں:

Well, evolution is a theory. It is also a fact. And facts and theories are different things, not rungs in a hierarchy of increasing certainty. Facts are the world’s data. Theories are structures of ideas that explain and interpret facts. Facts do not go away when scientists debate rival theories to explain them. Einstein’s theory of gravitation replaced Newton’s, but apples did not suspend themselves in mid-air, pending the outcome. And humans evolved from apelike ancestors whether they did so by Darwin’s proposed mechanism or by some other, yet to be discovered.

چونکہ ہمارے ہاں نظریہ اورحقیقت کو ایک ترتیب میں سمجھا جاتا ہے کہ نظریہ پر جب بے پناہ اعتماد حاصل ہو تو وہ حقیقت بن جاتا ہے۔ہمارےہاں یہ غلط فہمی معروف ہے۔ ہمارے  ہاں یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ حقیقت بعدازاں ترقی کرکے ایک قانون بن جاتی ہے۔ یہ  بھی ایک غلط فہمی ہے، کوئی قانون کسی قدرتی عمل کی وہ شہادت ہوتا ہے کہ جب جب اسے ٹیسٹ کیا گیا تو وہ درست نکلا۔ قانون یہ نہیں بتاتا کہ کوئی چیز کیوں درست ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ وہ درست ہے۔

سیب کو زمین پر گرایا جائے تو وہ نیچے ہی کیوں گرتا ہے؟

(یہ ایک نامعلوم ہے)

اول: سیب کو جب زمین پر گرایا جائے تو نیچے اس لیے گرتا ہے کہ اس پر کوئی طاقت اوپر سے لگ رہی ہوتی ہے جو اسے نیچے گرنے پر مجبور کرتی ہے۔

دوم: سیب کو جب زمین پر گرایا جائے تو وہ نیچے اس لیے گرتا ہے کہ کوئی طاقت اسے زمین کی طرف کھینچتی ہے۔

(یہ دو مفروضے ہیں)

اب جب سائنسی طریق کار سے اس کا جائزہ لیا جائے گا تو دلائل او ر ثبوتوں کی روشنی میں جو چیز سامنے آئے گی وہ نظریہ ہوگا۔ اور یہ اثبات کہ جب جب سیب کو زمین پر گرایا جائے تو یہ نیچے ہی گرتا ہے۔ اسے ایک قانون کی شکل دے دے گا۔ قانون اس سے بحث نہیں کرتا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، یہ نظریہ کا کام ہے، قانون بس یہ تصدیق کرتا ہے کہ ایسا ہوتا ہے۔مثلا ً معاشیات میں ڈیمانڈ کا قانون اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ جب جب اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیاگیا لوگوں کے ہاں اس کی طلب کم ہوگئی اور جب جب قیمتیں گرنا شروع ہوئیں تو اشیاء کی طلب بڑھ گئی۔ یہ بار بار کا مشاہدہ اسے معاشیات میں قانون کا درجہ دیتا ہے۔

روایتی مذہبی ذہن چونکہ اپنی ہر بات کو پورے تیقن سے پیش کرنے اور ماننے کا عادی ہوتا ہے۔ اور اس میں ذرا برابر کسی غلطی اور کوتاہی کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہوتا اس لیے نظریہ کو سچائی تسلیم کرنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔کیونکہ وہ سائنسی طرز استدلال کا عادی نہیں ہے اس پر ظلم یہ کہ وہ سائنس سے متعلق غلط معلومات کو سائنس کے نام پر پیش کرکے اپنی بات کے لیے دلیل حاصل کر رہا ہے۔

 سائنس اس کے برعکس اخذ و استفادے کا در کھلا رکھتی ہے۔ یہی معاملہ ارتقاء سے متعلق ہے،اسٹیفن کے آرٹیکل سے اقتباس ملاحظہ ہو:

Evolutionists have been clear about this distinction between fact and theory from the very beginning, if only because we have always acknowledged how far we are from completely understanding the mechanisms (theory) by which evolution (fact) occurred. Darwin continually emphasized the difference between his two great and separate accomplishments: establishing the fact of evolution, and proposing a theory—natural selection—to explain the mechanism of evolution. He wrote in The Descent of Man: “I had two distinct objects in view; firstly, to show that species had not been separately created, and secondly, that natural selection had been the chief agent of change. . . . Hence if I have erred in . . . having exaggerated its [natural selection’s] power . . . I have at least, as I hope, done good service in aiding to overthrow the dogma of separate creations.”

اس اخذ و استفادے کا در کھلا رکھنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ سائنس دان ڈانواں ڈول ہیں اور بس تُکے ما ر رہے ہیں۔ اسٹیفن لکھتے ہیں:

Evolutionists make no claim for perpetual truth, though creationists often do (and then attack us for a style of argument that they themselves favor). In science, “fact” can only mean “confirmed to such a degree that it would be perverse to withhold provisional assent.” I suppose that apples might start to rise tomorrow, but the possibility does not merit equal time in physics classrooms.

Advertisements
julia rana solicitors london

Reference:

  • What Is a Scientific Theory? by Alina Bradford
  • Evolution as Fact and Theory by Stephen Jay Gould

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ارتقاء ایک سائنسی حقیقت یا ‘محض نظریہ’؟۔۔محمد حسنین اشرف

  1. ارتقاء کا بنیادی خیال کیا ہے
    (سائیں سُچا)
    ہر جاندار شہ — جانور، پودا یا وائرس نما جن — مسلسل اس کوشش میں ہوتا ہے کہ وہ اپنی موجودہ حالت سے بہتر حالت کی سطح تک پہنچے؛ چنانچہ، ان سب میں زندگی کے آغاز سے مقابلہ ہے کہ کون موجودہ حالات پر قابو کر کے کُچھ آگے بڑھ جائے۔ اس آگے بڑھنے کے عمل اور پچھلی سطح سے اوپر آنے کو ہم ارتقاء کہتے ہیں۔
    ارتقاء کا فعل یا عمل کوئی مقرر راستہ نہیں جس پر چل کر ہم آگے بڑھتے رہیں؛ بلکہ، ہر فرد کو کبھی اکیلے اور کبھی دوسروں کے ساتھ مِل کر کوشش کرنی پڑتی ہے کہ اُس وقت کی مناسبت سے کونسا راستہ یا طریقہ سب سے اچھا ہے۔ یاد رہے، کہ ایک ہی وقت ہر دوسری زندہ شہ بھی اسی کوشش میں مصروف ہے!
    ظاہر ہے کہ جب ، جگہ، خوراک اور پیدائش کے لئے مقابلہ اتنا سخت ہو تو چند سخت جان اور ان تھک محنت کرنے والے ہی آگے بڑھیں گے؛ جبکہ، اکثریت اس مقابلے میں پیچھے رہ جائی گی۔ اور وہ جو آگے بڑھ تے ہیں اُن میں سے بھی اکثر کہیں نہ کہیں تھک رُک جائیں گے، اور چند فنا بھی ہو جائیں گے۔
    زندگی کو شروع ہوئے تقریبا” 360 کروڑ سال ہو چُکے ہیں، اور ارتقاء کا مقابلہ پہلے دِن سے ہی ہے جب زندگی کا آغاز ہُوا۔ ظاہر ہے کہ شروع میں زندگی کے رُکن بہت سادہ تھے، جو وقت کے ساتھ پیچیدہ ہوتے گئے؛ اس حد تک کہ بہت سے ہیبت ناک جانور اور درخت بھی نمودار ہُوئے جنہوں نے کروڑوں سال دنیا پر اپنی افضلیت کا دعوایٰ کیا۔ ہزاروں، بلکہ لاکھوں مختلف قِسم کے جانور اور ہریالی کی نمائیندے دنیا میں آئے، چند اپنا روپ بدل کر کُچھ اور بن گئے، کُچھ اپنی جگہ کھڑے رہے اور کُچھ بالکل ختم ہو گئے۔
    یہ جو آج دنیا میں زندہ اشیا کی اتنی اقسام ہیں یہ اسی مقابلے کا نتیجہ ہیں — کوئی پانی میں رہا، کُچھ زمین پر اور چند نے اُڑنا سیکھ کر فضا میں ٹھکانا بنایا۔
    لیکن، اس مسلسل کاوش کے باوجود ہر رُکن کو ایک جتنی کامیابی نہ مِلی اور اُن میں سے بہت سے زیست کی سیڑھی پر اپنی اپنی جگہ ٹھہر گئے۔ اسی لئے مختلف جانوروں میں ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک ہی پیڑھی کے تھے۔ مثلا” بندر، بن مانس، چِم پینزی، گوریلا اور انسان ایک ہی جانور سے بڑھتے ہوئے مختلف بن گئے اور کُچھ اپنی جگہ پر رک گئے۔ جو قدرتی طور پر رُک گئے تو وہ رُک گئے۔ اسی لئے ہم ایک بندر کو لے کر اُسے انسان یا کوئی اور جانور نہیں بنا سکتے، گو ایک بندر کی تربیت سے ہم اُس میں چند انسان نما خاصیتیں پیدا کر سکتے ہیں۔
    ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم ارتقاء کی کوشش میں مختلف راستے تو اختیار کرتے ہیں، لیکن عموما” ہم نہیں جانتے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں یا ہماری اس کوشش کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ دوسری بات، ارتقاء کوئی ایسا عمل نہیں جس میں آنے والی تبدیلیاں چند سالوں یا صدیوں میں نظر آئیں، بلکہ یہ تبدیلیاں بہت دھیرے دھیرے آتی ہیں۔
    کسی بھی زندہ شہ میں فوری تبدیلی کے دو طریقے ہیں۔
    ۱۔ جھٹکا، جسے انگریزی میں میوٹیشن (Mutation) کہتے ہیں۔ یہ تبدیلی تب آتی ہے جن کسی فوری اور غیرمعمولی عمل کی بنا ایک جانور یا پودے کا بنیادی مادہ ، کروموسوم Chromosome ، بدل جائے اور اُس کے بعد پیدا ہونے والے بچّے اپنے اسلاف سے مختلف ہوں۔
    ۲۔ انسانی دخول، جب انسان ، سائنسدان، جان بوجھ کر کسی زندہ شہ کا بنیادی مادہ بدل دیں اور اس طرح نئے جانور بنائیں۔
    ان دونوں اعمال کا قدرتی ارتقاء سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ ایک حادثاتی کاروائی ہے جب ایک بیرونی دخل کے تحت کسی کی زندگی کی سمت بدل دی جاتی ہے۔

Leave a Reply