بطور انسان یہ ہماری آخری صدی ہے؟۔۔ادریس آزاد/قسط3

ٹرانس ہیومنسٹس تحریک بہت مضبوط اور بہت سیریس تحریک ہے اور پوری دنیا اِسے بہت سیریس لے رہی ہے۔ کالجز، یونیورسٹیز، دیگر ریسرچ ادارے، اور سب اہل علم بہت تیزی کے ساتھ اس تحریک میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔اس وقت دنیا کا ملینز نہیں، بلینز بلکہ ٹریلینز ڈالرز اس تحریک کی بدولت ٹرانس ہیومنز پیدا کرنے پر لگاہواہے۔

ٹرانس ہیومینز پیدا کرنے کےلیے کتنے اور کس کے فنڈز استعمال ہورہے؟

اگر آپ گوگل میں ’’Transhumanism‘‘ کا لفظ ٹائپ کریں تو آپ کو دولاکھ پچاس ہزار نیٹ پیجز نظر آئینگے جو ٹرانس ہیومن ازم کے لیے وقف ہیں۔ لیکن اگر آپ گوگل میں ’’Genetic Engineering Laboratories‘‘ کے الفاظ ٹائپ کریں تو آپ چوبیس ملیَن ویب سائیٹس تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ سب لوگ تقریباً اسی مشن پر لگے ہوئے ہیں۔
امریکہ میں جارج ڈبلیو بش نے 2006 میں سٹیٹ آف دہ یونین کے ایڈریس میں ایک قانون کی منظوری کے لیے سفارش کی جس کے بعد انسانوں اور جانورں کے درمیان ’’ٹرانس جینک‘‘ سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کردی گئی۔ یہی بات لمحہ ٔ فکریہ ے۔ امریکہ جیسے ملک کا صدر آخر کسی ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر بند کرنے کے لیے آن دی ریکارڈ اجلاس میں تقریر کیوں کریگا؟ یقیناً خطرہ بہت بڑا تھا۔ لیکن خوش قسمتی یا بدقسمتی سے صدر اوبامہ نے جو پہلا کام کیا وہ یہی تھا کہ اُس نے صدر بُش کی طرف سے ٹرانس جینک ریسرچ پر لگائی گئی تمام پابندیاں یکسر اُٹھادیں۔ اور اس طرح سب سے بڑا مرحلہ یہ طے ہوگیا کہ سرکاری رقوم کا راستہ ٹرانس جینک ریسرچ کی طرف کھل گیا۔ اور یوں امریکہ کی ٹیکس پیئر رقوم کا مہیب ریلا اس عظیم اور محیرالعقول ریسرچ کی طرف بہہ نکلا۔ یہ پیسہ ہزاروں لیبارٹریز کو جارہا ہے۔ جوبات دنیا کے کسی بھی انسان کو بےپناہ پریشان کرسکتی ہے وہ یہ ہے کہ امریکی ریسرچ کا یہ پیسہ ایک بڑی مقدار میں جس ٹیکنالوجی پر صرف ہونا شروع ہوگیا ہے، اسے سائنس کی زبان میں،
ہیومن اینمل کائمیرا Human Animal Chimera
کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے انسان اور جانوروں کے ملاپ سے پیدا کی جان والی نئی نئی انواع۔ یعنی ایسا جاندار جو ہیومن اینمل ہائی برڈ ہوگا۔ آدھا انسان اور آدھا کوئی اور جانور۔ اگرچہ ظاہراً ایسا کچھ نہیں ہے اور ہیومین اینمل کائیمرا پیدا کرنے سے فقط مراد انسانی بہبود اور نیک مقاصد ہیں۔ مثلاً آج ہم ٹرانسپلانٹیشن کے ذریعے دل بدلوا سکتے ہیں لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوسکتاہے جب کوئی ’’دل دینے والا‘‘ بھی موجود ہو۔ اگر کسی نے بروقت دِل نہ دیا تو ہم مرجائینگے۔ کیونکہ ہمارا دل خراب ہوچکاہے۔ لیکن ہیومین اینمل کائمیرا کی شکل میں ہم ایسا جانور پیدا کرواسکتے ہیں جس میں ہمارے لیے ایک عدد دل پیدا کیا جائے گا۔ وہ کوئی جانور ہوگا۔ ایسا جانور جیسے جانور ہم عموماً ذبح کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً وہ گائے، بکری یا بھیڑ ہوسکتی ہے جس کے سینے میں ہمارا دل ہوگا۔ ہم اس جانور کو ذبح کرکے اپنا دل لے لینگے اور یوں ہارٹ ٹرانسپلاٹیشن کے لیے ڈونیشن کے مسئلہ سے جان چھوٹ جائے گی۔ مطلب کہنے کا یہ ہے کہ ظاہری طور پر تو ہیومین اینمل کائمیرا کی پیداوار ایک مثبت اقدام ہے لیکن اس کے سائیڈ ایفیکٹس کا اندازہ لگانا ممکنات سے باہر ہے۔امریکہ کی ایک ریاست میں باقاعدہ ایک فارم ہے جہاں ایسے سؤر پیدا کیے جارہے ہیں جو تھوڑے سے انسان اور باقی سؤر ہیں۔ تھوڑے سے انسان اس طرح کہ ان سؤروں میں انسانی اعضأ پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ آرگن ٹرانسپلانٹیشن انڈسٹری کو حتمی مدد دی جاسکے۔ ایک سؤر کے اندر انسانی ڈی این اے کا پھلنا پھولنا عجیب و غریب مظہر ِ فطرت ہے ۔ ایٹم بم کی ایجاد نے ہیروشیما اور ناگاساکی کی جان لی تھی لیکن معلوم نہیں یہ ٹرانس جینک پروڈکٹس کیا گل کھلائینگی؟ بظاہر اُمید ہی اچھی چیز ہے اور اچھی اُمید یہی کی جاسکتی ہے کہ بالآخر ٹرانس جینک پروڈکٹس انسان کی بھلائی کا ہی موجب بنینگی۔
2006 میں امریکہ کے سب سے بڑے ڈیپارٹمنٹ ، ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ نے 773,000 ڈالرز محض صرف ایک مقصد کے لیے دیا کہ دو سال کے اندر اندر اس بات کا جائزہ لے کر بتایا جائے کہ ٹرانس جینک ریسرچ کی اخلاقی پوزیشن کیاہے؟ اس ریسرچ کی اہمیت اس لیے زیادہ تھی کہ اس میں انسانی سبجیکٹ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ یعنی براہ ِ راست انسانوں کو تجربات میں شامل کرکے بالآخر حکومت کو یہ بتایا جائے کہ اگر جینٹک انجنئرنگ اُن اھداف تک پہنچ جاتی ہے جن سے انسانیت خوفزدہ ہورہی ہے تو انسان اور غیر ِ انسان میں فرق کرنے کے لیے کیا اخلاقی قدریں مقرر کی جاسکینگی؟ میکس میہل مین Max Mehlman اس پراجیکٹ کا سربراہ تھا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ دوسال کا عرصہ پورا ہونے کے بعد کوئی رپورٹ شائع نہ کی گئی اور ریسرچ کے نتائج کو چھپا لیا گیا البتہ کچھ ہی عرصہ بعد ریسرچ لیڈر ’’میکس میہل مین‘‘ نے امریکہ کی ایک ایک یونیورسٹی میں جاکر ’’ڈائریکٹڈ ایوولیوشن‘‘ اور ’’ٹرانس ہیومن ازم اور جمہوریت‘‘ کے عنوان سے لیکچرز کا سلسلہ شروع کردیا۔ ڈائریکٹڈ ایوولیوشن سے معنوی طور پر یہی مراد ہے کہ انسان کی ہدایت پر چلنے والا ارتقأ ۔ کیونکہ اس سے پہلے ارتقأ، فطرت کی ہدایات پر چل رہا تھا۔ میکس کے لیکچرز کے عنوانات سے مترشح ہے کہ لیبارٹری میں نتائج توقعات سے کہیں زیادہ پریشان کن برآمد ہوئے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صرف ایک ملک، امریکہ میں ہی اتنے بڑے بڑے حکومتی ادارے خود ٹرانس جینک ریسرچ کو بڑی بڑی رقوم دے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بہت جلد نسل ِ انسانی اپنی موجودہ ساخت سے کچھ اور بننے والی ہے۔
ہم نے اب تک جتنی گفتگو کی اس سے فقط اتنا تاثر ملتا ہے کہ چلو! یہ لوگ جب کچھ پیدا کرینگے تو دیکھ لینگے! لیکن یہ بات ہم بھول رہے ہیں کہ جینٹکلی انجنئرڈ خوراک بھی اتنی ہی تبدیلی کنندہ ہے جتنا کہ نئی نوع کو پیدا کردینے والے عناصر۔ جیسا کہ پولیو کی ویکسین کے ذریعے روئے زمین سے پولیو کا خاتمہ کرنے کی مہم محض قطرے پلا کر چلائی گئی ہے اور اب تقریباً پولیو فنا ہونے ہی والا ہے بالکل اسی طرح۔۔
جاری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply