اٹل بہاری واجپائی نہیں رہے ۔۔۔۔۔ رشید ودود

خبر سن کر کے دھچکا نہیں لگا، اس لئے کہ یہ خبر غیر متوقع نہیں تھی، 2004 ہی سے وہ گوشہ نشین ہو گئے تھے، ایسے ماحول میں ان کا گوشہ نشین ہی ہونا بہتر تھا، نہیں ہوتے تو اڈوانی کی طرح وہ بھی اپنی آبرو لٹا بیٹھتے، موجودہ وزیر اعظم نے گجرات فساد کے حوالے سے ہر اُس شخص سے انتقام لیا، جس نے اُن پر تنقید کی تھی، اٹل جی نے تو اُس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ کو راج دھرم نبھانے کی نصیحت کی تھی لیکن اُس وقت اڈوانی جی مودی جی کے سَیَّاں بنے تھے، اس لئے بچے رہ گئے-

اٹل جی نے سیاست کے میدان میں ایک لمبی اننگ کھیلی اور اُس مقام تک پہنچے، جہاں تک پہنچنے کا خواب اڈوانی نے بھی دیکھا تھا، شیاما پرساد مکھرجی کی ناگہانی وفات کے بعد اٹل جی باقاعدہ سیاست میں آئے، 1957 میں اُنہوں نے متھرا، لکھنؤ اور بلرام پور سے الیکشن لڑا لیکن جیتے صرف بلرام پور سے، 20 سال کے بعد 1977 میں جب مرکز میں مرار جی ڈیسائی کی قیادت میں پہلی غیر کانگریسی سرکار بنی تو اٹل جی کو وزارت خارجہ کا قلمدان سونپا گیا، اس تعیناتی کو سفارتی حلقوں میں بڑی حیرت سے دیکھا گیا، اس لئے کہ اٹل جی جن سنگھی تھے اور جن سنگھ نے مسلم ممالک بطور خاص پاکستان کو ہمیشہ اپنا عدو مبین سمجھا لیکن اس کے باوجود اٹل جی پاکستان گئے اور خوشخبری سنائی کہ اب ہم پاکستان کو جنگ کے میدان میں نہیں، ہاکی کے میدان میں شکست دیں گے-

جنتا پارٹی مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ تھا، اس لئے ساجھے کی یہ ہنڈیا بہت جلد پھوٹ گئی، اس کے سولہ سال بعد 1996 میں اٹل جی وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچے لیکن اکثریت ثابت نہ کر سکے، اس لئے تیرہ ہی دن میں ان کی سرکار گر گئی، دو سال بعد پھر اٹل جی واپس آئے، 1999 کے انتخابات میں این ڈی اے کی جیت ہوئی لیکن 2004 کا الیکشن اٹل جی بری طرح سے ہار گئے، نہ شائننگ انڈیا کا نعرہ کام آیا، نہ حمایت کارواں اُن کی کوئی مدد کر سکی، تب سے آج تک اٹل جی عملی سیاست سے دور تھے-

1999 میں اٹل جی نے ایک جرآت مندانہ قدم یہ اٹھایا کہ لاہور کی یاترا کی، اس یاترا کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ ہند پاک تعلقات کی برف اب پگھلے گی لیکن ہوا اس کے برعکس، حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جس رہنما نے پاکستان سے ہاکی کے میدان میں ملنے کی بات کہی تھی، اسے جنگ کے میدان میں پاکستان سے ملنا پڑا، لاہور بس یاترا کے موقعے پر اٹل جی کے دوست علی سردار جعفری نے کہا تھا

تم آؤ گلشن لاہور سے چمن بردوش
ہم آئیں صبح بنارس کی روشنی لے کر
ہمالیہ کی  ہواؤں کی روشنی لے کر
پھر اس کے بعد یہ پوچھیں کہ کون دشمن ہے

اٹل جی سیاست میں سنگھ کا چہرہ تھے اور اس چیز کو انہوں نے چھپایا بھی نہیں لیکن ان کے دور میں بی جے پی کارکن شتر بے مہار نہیں تھے، مان مریادا باقی تھا، خود اٹل جی نے نہرو اور اندرا کو پارلیمنٹ میں جیسا شاندار خراج عقیدت پیش کیا تھا، آج یہ رواداری اور وسعت نظری بی جے پی میں دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی، 1971 میں اندار گاندھی نے پاکستان کا جب مشرقی بازو مروڑ دیا تو اٹل جی اپنے جذبات چھپا نہیں سکے اور علی الاعلان انہوں نے اندرا گاندھی کو درگا کا خطاب دیا-

سنگھ کا ایک دور وہ تھا جب اس نے اپنی کمان اٹل جی جیسے شائستہ مزاج کو سونپ رکھی تھی لیکن آج سنگھ نے ایسے بدتمیزوں کو آگے بڑھا رکھا ہے، جن کی طوفان بدتمیزی سے اپنے بیگانے سب پریشان ہیں، اٹل جی چائے والے نہیں تھے، پڑھے لکھے تھے، بی اے ایم اے پاس تھے، ایل ایل بی نہ کر پانے کا غم زندگی بھر اٹل جی کو رہا، وہ پی ایچ ڈی کر کے درس و تدریس کی لائن میں جانا چاہتے تھے لیکن حالات نے انہیں سیاست کے خارزار میں کھینچ لیا لیکن ان کے اندر کا شاعر، صحافی اور مقرر کبھی مرا نہیں، علی سردار جعفری کو جب گیان پیٹھ ایوارڈ دیا گیا تو اس تقریب میں اٹل جی نے بھی خطاب کیا تھا، اس تقریب میں انہوں نے ڈپٹی نذیر احمد، مرزا ہادی رسوا اور منٹو کے حوالے سے جو گفتگو کی تھی، اس سے صاف طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ ہندی کے اس کوی نے اپنے دماغ کی کھڑکیاں بند نہیں کی تھیں-

راجیو گاندھی اور اٹل جی کے تعلقات دوستانہ تھے، راجیو نے ان کے گردے کا آپریشن بھی کروایا تھا لیکن دونوں میں بعدالمشرقین تھا، دونوں کے خیالات میں تضاد تھا، ایک دوست ترقی پسند تھا تو دوسرا رجعت پسند، آج ڈیجیٹل انڈیا کا نعرہ لگانے  والے یہ نہ بھولیں کہ ان کے قائد نے اُس وقت بیل گاڑی سے سنسد کا گھراؤ کیا تھا، جب راجیو ٹکنالوجی کا انقلاب ہندوستان میں برپا کرنا چاہ رہے تھے-

آج اٹل جی نہیں ہیں لیکن ان کی یاد ہمیشہ آتی رہے گی، اس لئے کہ ان کی ذات بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی کی تھی، جس لکھنؤ نے اُنہیں پہلے الیکشن میں ہروایا تھا، اسی لکھنؤ کو اٹل جی ایسا بھا گئے کہ یہ سیٹ بی جی پی کیلئے پکی ہو گئی لیکن سیاست میں پکا کیا ہوتا ہے؟ آج ہے تو کل نہیں ہے-

Advertisements
julia rana solicitors

ایک عفريت زندگی بھر اٹل جی کا پیچھا کرتا ہے اور اس عفریت کا نام ہے انگریزوں کی مخبری، 1942 میں اٹل جی اور ان کے بھائی پریم بہاری واجپائی  نے کی گواہی پر مجاہدین آزادی کو سزا ہوئی تھی، یہ الزام کانگریسی نہیں ہے، رام جیٹھ ملانی تو ایک زمانے میں ثبوت اور گواہوں کے ساتھ اس الزام کو ثابت کرتے پھرتے تھے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply