پاکستان کا ’’صوبہ قراقرم‘‘ اور عارف خٹک صاحب سے استفسار

پاکستان کا ’’صوبہ قراقرم‘‘ اور عارف خٹک صاحب سے استفسار

محترم و مکرم عارف خٹک صاحب کے نام !
السلام علیکم !
ان دنوں مکالمہ ویب سائٹ پر ’’پاراچنار ایک ایٹم بم‘‘ کے نام سے آپ کے سلسلہ وار مضامین کو بدستور پڑھ رہا ہوں، جس سے معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس ایشو کے فرقہ وارانہ نظریاتی اور شناخت کے گہرے ساختیاتی عوامل کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ تاریخی پسِ منظر اور سوشیو پولیٹکل اسباب کو بھی سمجھنے میں مدد مل رہی ہے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ ہر انسان کی تحقیق و تجزیہ اور اس کے استدلال و اسلوب اور نتائج کو ایک انسانی کوشش کے طور پر ہی دیکھنا چاہیے جس میں پوری کوشش کے باوجود تمام تر انسانی عوارض اور کمزوریوں کا امکان بہر حال رہتا ہے جس کی بنیاد پر تنقید، متبادل سچ کی تلاش اور نئی فہم کی تشکیل کا عمل جاری رہتا ہے، یوں انسانی معاشرہ اپنی ترقی و توسیع کی طرف گامزن رہتا ہے۔ میں انہی اصول کی بنیاد پر آپ کے سلسلہ مضامین اور اس کے رسپانس میں لکھے جانے والے چند دیگر اہل قلم کے چند مضامین پڑھے ہیں۔ ہر ایک کی طرح آپ کے مدعا، نتائج اور اسلوب، جزئیات سے اتفاق و اختلاف کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔

آپ کے سلسلہ مضامین کی تیسری قسط میں ضمناً گلگت بلتستان کا بھی ذکر آیا ہے جہاں آپ نے ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد پاکستان کے اس وقت کے فوجی آمر ضیاء الحق صاحب کے دور میں گلگت بلتستان میں شروع ہونے والی ایک تحریک کا ذکر کیا ہے۔ آپ کا کہنا ہے کہ ’’صوبہ قراقرم‘‘ نامی اس تحریک کی وجہ سے ضیاء الحق نے گلگت بلتستان پر لشکر کشی کے ذریعے اس مہم کو آگے بڑھنے سے پہلے ہی روک لیا۔
اس حوالے سے آپ کے مضمون سے یہ اقتباس حاضر ہے:
’’1977ء میں کرم ایجنسی، شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) اورآزاد جموں وکشمیر میں ایک اندازے کے مطابق شیعہ برادری کافی تعداد میں آباد تھی۔ افغان جہاد کا شوروغوغا تھا اور ایران انقلاب کے فوراً بعد شیعہ برادری نے اپنے لئے ایک الگ صوبہ”قراقرم” کا مطالبہ کرڈالا مگر آمر ضیاءالحق نے اس تحریک کو اس بُری طرح سے سبوتاژ کیا کہ یہ مطالبہ کہیں کھو سا گیا۔ اس مطالبہ کے فوراً بعد ضیاءالحق نے سُنیوں کو اس علاقے میں بسانا شروع کردیا۔تاکہ مجمُوعی طور پر شیعہ آبادی کا مقابلہ کیا جاسکے۔1988ء میں یہی طریقہ گلگت میں بھی آزمایا گیا۔ ‘‘

محترم! پاراچنارسے متعلق میری معلومات بہت کمزور ہیں، اس لیے اس پر تبصرہ نہیں کروں گا مگر گلگت بلتستان کا باسی ہونے کے لحاظ سے میری کچھ عرائض پیش خدمت ہیں:
پہلی بات:
ضیاء الحق صاحب کے دور آمریت میں فاٹا، صوبہ سرحد (کے پی کے) کے علاوہ افغانستان سے عرب اور پشتون پرائیویٹ عسکریت پسندوں (بعض ذرائع کے مطابق اسامہ بن لادن بھی ان میں شامل تھا) کے ذریعے سترہ مئی انیس سو اٹھاسی کو گلگت بلتستان پر ایک لشکر کشی کی گئی۔ یہ لشکر کشی گلگت بلتستان میں ’’اٹھاسی کی ٹینشن‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ضیاء الحق کی اس ریاستی لشکر کشی کے لیے سرکاری اسلحوں سے لیس کئی ہزار کے لشکر کو سرکاری بسوں، ٹرکوں کے ذریعے گلگت پہنچا دیا گیا۔ اچانک حملے کے دوران آبادی کے شروع کے دیہاتوں میں حملے کے دوران ’’سرکاری مجاہدین‘‘ نے سینکڑوں مرد عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو تہہ تیغ کرنے کے بعد کئی محلوں کو خاکستر کردیا۔ اس لشکر کشی نے یہاں صدیوں کی مثالی فرقہ وارانہ ہم آہنگی، قربت اور باہمی رشتہ داریوں کو منافرت و باہمی رقابت اور دوریوں میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اس کے بعد سے اب تک کئی سو لوگ اس منافرت کی آگ میں جھلس چکے ہیں۔ شیعہ سنی دونوں طرف کی بہت سی قیمتی جانیں فرقہ وارانہ انتقامی آگ کی نذر ہو چکی ہے۔ متعدد بار فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے ہیں۔ فرقہ وارانہ تناؤ کے باعث جانی و معاشی نقصانات کے علاوہ سماجی زندگی بری طرح متاثر ہوگئی۔ آبادیاں اس قدر تقسیم ہو چکی ہیں کہ مساجد و مراکز کو تو چھوڑ دیں، گلگت شہر اور بعض دیگر مضافاتی علاقوں میں نائی، قصائی، ہسپتال، تندور والا، بازار، سکول، سفری گاڑیوں اور شہر کے اندر چلنے والی سوزوکی سروسز بھی شیعہ سنی کی بنیاد پر تقسیم ہو گئی۔

دوسری بات:
الحمد للہ یہاں کے شیعہ، سنی، اسماعیلی اور نوربخشی علمائے کرام و عمائدین، سیاستدان، مقامی حکومت و انتظامیہ، پاک فوج اور عوام کی مشترکہ کوششوں سے اب یہاں بین المسالک ہم آہنگی کی فضا بہت بہتر ہو چکی ہے۔ جس طرح کی بظاہر غیر مستند تاریخی بیانیہ آپ کے مضمون میں یہاں کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے یہ سینکڑوں جانوں کے ضیاع اور کروڑوں روپے کے نقصان کے بعد مشکل سے ہمیں حاصل ہونے والے امن و امان کے لیے خطر ناک ہے۔

تیسری بات:
گزشتہ ستر سال کے دوران فرقہ وارانہ تناؤ کا ایک اہم نقصان یہ ہوا کہ گلگت بلتستان کی عوام اپنے آئینی اور سیاسی حقوق سے بالکل نابلد اور بے خبر ہو کر مقامی وسائل و مسائل سے لاپروا اور وفاق کے اشاروں پر چلنے والی فرقہ وارانہ بنیادوں پر بنی ہوئی مذہبی جماعتوں کی رقابت پر مبنی مسلکی ایجنڈے پر چلتی رہی۔ یہاں کی عوام اتنی سادہ ہے کہ اسے ستر سال بعد بھی اپنے آئینی، سیاسی، معاشی حقوق سے دلچسپی نہیں ہے، دوسری طرف گلگت بلتستان میں اپنے حقوق کی بات کرنا اور اس کے لیے سڑکوں پر اترنا نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے زمرے میں شامل ہے، کتنے ایسے لوگ اب بھی صرف اسی ’’جرم‘‘ میں قید میں ہیں،بے شک آپ اپنے آزاد ذرائع سے اس کی تحقیق کروا لیں۔ غالباً دو مہینہ پہلے گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور ریاستی جبر سے متعلق پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس پر بی بی سی اردو نے بھی تبصرہ شائع کیا تھا۔ انجمن ستائش باہمی کو یہاں آزادی اظہار قرار دے کر مقامی بنیادی مسائل اور حقوق سے لوگوں کو کوسوں دور رکھا گیا ہے۔ وفاق کا ہر وہ قانون سب سے پہلے گلگت بلتستان میں فوری نافذ العمل ہو جاتا ہے جس میں کسی وقتی سیاسی مفاد یا حالات کے لیے شہریوں کے شہری حقوق پر ڈاکہ ڈالنا مقصود ہو اگرچہ اس قانون کی یہاں ضرورت نہ بھی ہو تب بھی وفاق کی تعینات کردہ بیوکریسی کے ماتحت رہنے والی حکومت اسے فورا نافذ العمل کر کے جی حضوری کا حق ادا کرتی ہے۔ اور ہر وہ قانون یہاں رخ بھی نہیں کرتا جس میں شہریوں کے حقوق، علاقے کی تعمیر و ترقی، قومی وسائل کی تقسیم، سیاسی اصلاحات، آئینی خود مختاری سے متعلق ہو۔

چوتھی بات:
اگرچہ پاکستان میں وزیر اعلی اور گورنر پانچ پانچ ہیں مگر صوبے چار ہی ہیں کیونکہ گلگت بلتستان کو آئینی طور پر پاکستان کا ابھی تک حصہ تسلیم نہیں کیا گیا، اس لیے آزاد کشمیر کی طرح یہاں بھی سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ تھا جس کے مطابق جب تک یہاں کی آئینی حیثیت کا تعین نہیں کیا جائے یہاں کوئی غیر مقامی یہاں آ کر زمین کی خرید و فروخت نہیں کر سکتا یعنی یہاں غیر مقامی لوگوں کی آباد کاری قانونی طور پر جرم تھا۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ضیاء الحق دور سے گلگت بلتستان میں مقامی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کوشش شروع کی گئی۔ اب تو خیر سی پیک کا دور دورہ ہے جس میں کے کسی بڑے فیصلہ ساز اجلاس میں باقی صوبوں کی قیادت کے ساتھ یہاں کی قیادت کو شامل کرنے کی زحمت تک نہیں کی گئی۔ تین سو کلومیٹر سے زائد ’’غیر آئینی متنازعہ‘‘ علاقے کو چیر کر بنائے جانے والے سی پیک کے ماحولیاتی نقصانات اور فضائی آلودگیاں ہی گلگت بلتستان کے حصے میں آئے ہیں۔

پانچویں بات:
اس پسِ منظر میں عارف خٹک صاحب آپ سے میرا سوال ہے کہ اسی (۸۰) کی دہائی کے اوائل میں (جب ہمارے لوگ آئینی حقوق کی الف ب سے بھی آگاہ نہیں تھے) صوبہ “قراقرم”کی تحریک (بقول آپ کے، مذکورہ لشکر کشی اس تحریک کی وجہ سے کی گئی) کس نے، کب اور کہاں شروع کی تھی؟ واللہ یہ لفظ پہلی بار ہمارے کانوں سے ٹکرایا ہے۔ مجھ سمیت گلگت بلتستان کا کوئی بندہ آپ کو شاید نہ مل سکے جس نے ایسی تحریک کا نام تک سنا ہو،
میری گزارش ہے کہ اس حوالے سے اگر آپ کو کچھ مستند تاریخی دستاویز ملی ہیں تو ان کی نشاندہی فرمائیں تاکہ دیگر لوگ بھی اس سے استفادہ کر سکیں، ورنہ مجھے خدشہ ہے کہ اس غلط فہمی کو غیر معمولی پذیرائی ملے گی اور یہ”تاریخی حقیقت” کا روپ دھارے گی۔ دہشت پسند عناصر اپنے جرائم کے لیے ایسے ہی جواز کی تلاش میں ہوتے ہیں۔

اگرچہ میرا حسن ظن اور پورا اعتماد یہی ہے کہ آپ یہ باتیں اپنی دردمندی اور علم کے فروغ اور اصلاح کی نیت سے لکھ رہے ہیں تاہم تمام تر قربانیوں، پاکستان کی خدمت، محبت اور اطاعت و عقیدت کے باوجود یہاں کی عوام کوکچھ کیے بغیر ویسے ہی غداری کا سامنا ہے تو آپ سے گزارش ہے کہ ان ’’غداروں‘‘ پر مزید الزامات کے ذریعے ریاستی و غیر ریاستی عناصر کو مزید جبر و ستم کا موقع فراہم اور راہ ہموار نہ کیجیے!۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں، آپ سے میں معذرت خواہ ہوں کہ مضمون طویل ہوگیا ، میں نے کوشش کی کہ موقع کی مناسبت سے اس اشیو کے مختلف پہلؤوں کے ساتھ اپنا سوال آپ کے سامنے رکھوں۔ مجھے امید ہے آپ اس پر غور فرمائیں گے اور اگلے کالم میں یا کسی اور مستقل کالم میں اس پر روشنی ڈالیں گے۔
آپ کے لیے نیک دعاؤں کے ساتھ
والسلام
محمد حسین
گلگت بلتستان سے پاکستان کا ایک غیر آئینی شہری!

Facebook Comments

محمد حسین
محمد حسین، مکالمہ پر یقین رکھ کر امن کی راہ ہموار کرنے میں کوشاں ایک نوجوان ہیں اور اب تک مختلف ممالک میں کئی ہزار مذہبی و سماجی قائدین، اساتذہ اور طلبہ کو امن، مکالمہ، ہم آہنگی اور تعلیم کے موضوعات پر ٹریننگ دے چکے ہیں۔ ایک درجن سے زائد نصابی و تربیتی اور تخلیقی کتابوں کی تحریر و تدوین پر کام کرنے کے علاوہ اندرون و بیرون پاکستان سینکڑوں تربیتی، تعلیمی اور تحقیقی اجلاسوں میں بطور سہولت کار یا مقالہ نگار شرکت کر چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply