نشہ اور ہماری جامعات۔۔۔امتیاز بلوچ

یہ ایک حقیقت ہے   کہ نشہ پوری قوم کیلئے ایک وبائی صورتحال اختیار کرگیا ہے۔ خاص  طور پر نشہ ہماری نوجوان نسل  کو ایک ایسی بیماری میں مبتلا کررہا  ہے جو انہیں اندر  سے کھوکھلا اور نکما بنا رہی ہے۔۔ آخر وجہ کیا ہے  کہ ہماری ایک پوری نسل اس تباہی کی طرف جارہی ہے اور   معلوم   ہوتے ہوئے بھی  ہم خاموش سادھے ہوئے ہیں ۔ جس میں حکومت’ انصاف کے ادارے ایگزیکٹو سمیت ہر سوچنے والا دماغ جو اس وبائی بیماری کے بارے میں باعلم ہے  اس جرم ک کے سدِ باب کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاتا تو وہ مجرم ہے۔

ہماری جامعات میں یہ لعنت بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔اور ہمارے کالج یونیورسٹیاں منشیات فروشوں کے لیے آسان ہدف بن رہے ہیں ،اس وقت شہر اقتدار کی جامعات میں ڈھائی لاکھ کے قریب طلباء  میں سے 67 فیصد طلبا مختلف قسم کی نشہ آور ادویات استعمال کررہے ہیں ۔جبکہ ملک بھر میں  78 فیصد کے قریب لوگ منشیات کے عادی جبکہ 22 فیصد کے لگ بھگ عورتیں جو ہر قسم کا      نشہ استعمال کرتی ہیں۔

نشہ کرنے کی خاص وجہ یہ ہے   کہ طلباء شروعات میں سگریٹ کو فیشن کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور پھر ساتھ ہی چرس اور شراب  کا استعمال شروع  کرتے ہیں، جن میں سب سے زیادہ متوسط گھرانے کے  بچے  شامل ہیں کیونکہ ان کیلئے نشہ آور ادویات تک رسائی  آسان ہے، ڈیلر حضرات نے جدید دور کے مطابق سروسز شروع کی ہیں اور اب کوئی بھی بڑے سے بڑا نشہ صرف ایک فون کال کی دوری پر ہوتا ہے ۔ اور نشہ کے عادی افراد کو نشہ بآسانی اور بنا خطرے    مل جاتا ہے اور یہ سروس اب چوبیس گھنٹہ دستیاب ہوتی  ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس حوالے سے حکومتی اقدامات ناہونے کے برابر ہیں ۔منشیات کو  ملک میں لانے کے لیے پختونخوا ،بلوچستان،چمن کا بارڈر  اور خفیہ راستوں  میں چاغی،نوشکی  وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔۔دیگر نشہ آور اشیایعنی شراب ،ہیروئن،افیون،شیشہ وغیرہ کوسٹل علاقے جس میں بلوچستان کا 750 کلوم یٹر سمندری علاقہ ،گڈانی پسنی جیونی اور ماڈہ اور گوادران شامل ہیں ۔اس سے پتا چلتا ہے کہ اس نقل و حرکت کے پیچھے خاصے مضبوط ہاتھ ہیں ۔جس پر صرف حکومت ہی ایکشن لے کر کیفرکردار تک پہنچا سکتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply