جدیدیت میراثِ اسلام۔۔سانول عباسی

انبیاء کرام کی زندگیوں کا بغور مطالعہ کریں تو اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ رب العالمین نے ان کو فی زمانہ موجود علم و فن میں کمال مہارت عطا کی تھی جیسے موسی علیہ السلام کے دور میں جادو عروج پر تھا ان کا معجزہ بھی اسی مناسبت سے کمال کا تھا اور جادوگر جو ساحرانہ علم کے اسرار و رموز سے واقف تھے انہوں نے موسی علیہ السلام کے ہاتھوں اس کمال کو جیسے دیکھا سجدے میں گر پڑے اور حقیقت حق کو تسلیم کر لیا اسی طرح عیسی علیہ السلام کے زمانے میں طب عروج پہ تھی تو انہیں جو معجزات عطا ہوئے یا جو مہارت انہوں نے اپنے لوگوں کے سامنے پیش کی وہ طب سے متعلق تھی انہوں نے کوئی ساحرانہ دلیل پیش نہیں کی سب سے آخر میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے دور میں زبان دانی کا بہت چرچا تھا تو رب العالمین نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہ قرآن کی صورت میں ایسا کلام نازل فرمایا جو رہتی دنیا تک کل عالم کے لئے کھلا چیلنج رہے گا۔

آج کی مسلم امہ کا المیہ یہ ہے کہ اس نے اللہ کی سنت کو بھلا دیا ہے وہ نبیوں کے ذریعے دئے گئے پیغام الہی سے روگردانی کے مرتکب ہوئے ہیں آج مسلم امہ اپنے زمانی تقاضوں کو پس پشت ڈال کے ماضی کی بھول بھلیوں میں خود کو ایڈجسٹ کرنا چاہتی ہے جو خلاف دین تو ہے ہی خلاف عقل بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نہ تو وہ اخلاقی حوالوں سے دیندار نظر آتے ہیں اور نہ ہی عقلی طور پہ کوئی چنیدہ حیثیت کے حامل ہیں۔

مسلمان ہونا کوئی عام بات نہیں یہ کوئی سٹکر یا جھنڈا نہیں کہ سینے پہ سجا لیا یا گلی محلے میں لگا لیا اور ہر آتے جاتے پہ رعب ڈالتے رہیں کہ دیکھو ہم مسلمان ہیں اور یہ مسلم سماج ہے بلکہ یہ اپنا اظہار خود ہے طرز حیات بودوباش فکر و عمل سے الغرض ہر عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسلم سماج ہے اور میرا ماننا ہے کہ مسلم سماج فی زمانہ اقوام عالم کے لئے ایک رول ماڈل ہوتا ہے اگر ایسا نہیں تو مسلمانیت زد پہ آ جاتی ہے۔

یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ دوست مسلمانوں کی سماجی فکری کسمپرسی کو اسلام سے دلالت کرتے ہیں یہ اسلام کی نہیں بلکہ یہ حالت اس مسلمان قوم کی پستی و تنزلی پہ دلالت کرتا ہے جو اسلام کا نام تو استعمال کرتے ہیں مگر اپنی مجموعی شخصیت میں کوئی مثبت تبدیلی پیدا نہیں کر پاتے۔

فکری عمل کی مثال اس بہتے پانی کی مانند ہے جو اگر بہتا رہے تو زندگی بحال رہتی ہے جس سے تمام چرند پرند سیراب ہوتے ہیں زمین کی روئیدگی بحال رہتی ہے اور ہر طرف زندگی ہی زندگی اپنے رنگ بکھیرتے نظر آتی ہے مگر جیسے ہی فکری بہاؤ جمود کا شکار ہوتا ہے تو اس کی مثال اس ٹھہرے پانی کی مانند ہے جس می سڑاند و بو پیدا ہو جاتی ہے جو زندگی کی بجائے طرح طرح کی مصیبتوں کا باعث ہوتا ہے جس کے اردگرد زندگی کی بجائے نجاست و نحوست بین کرتی نظر آتی ہے۔

جدیدیت اسلام کی میراث ہے اگر مسلم سماج کا فی زمانہ رائج علوم و فنون، فکر و عمل، طرز حیات جدیدیت سے مزین نہیں تو وہ بہت بڑی غفلت کا شکار ہیں فی زمانہ مسلم سماج پہ لازم ہے کہ وہ رائج علم و فکر کی دولت سے مالا مال ہوں بمطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

           “مومن کا ہر آنے والا دن گزرے دن سے بہتر ہوتا ہے”

 اگر یہ بہتری جمود کا شکار ہو جائے تو آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی سکت مفقود ہو جاتی ہے اور اسپ زمانہ اس قوم کو روند کے آگے چلا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر کوئی قوم مسلمانیت کا دعوی کرتی ہے اور وہ اپنے افکار اپنے طرز حیات کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کر پاتے تو تاریخ گواہ ہے کہ جلد یا بدیر وہ اس بات کے لئے تیار رہیں کہ زمانے کی گردش ان کو کسی اور قوم سے بدل دیتی ہے اور ذہن و دل کو غلامی و پراگندہ افکار سے پاک کرنے والا یہ نور کسی اور قوم میں منتقل ہو جاتا ہے تب سوائے ہاتھ مَلنے و نابود ہونے کے کوئی آپشن باقی نہیں رہتا۔

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply