• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا تعلیم حاصل کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید ہے؟۔۔۔سید ماجد شاہ

کیا تعلیم حاصل کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید ہے؟۔۔۔سید ماجد شاہ

کیا تعلیم حاصل کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید ہے؟۔۔۔ہر کوئی یہی رسمی جواب دے گا کوئی قید نہیں ہے۔۔ لیکن ذرا ہمارے گھر کی داستان سنیں اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ میری بیگم مفیدہ ماجد (جو آجکل ایم فل کر رہی ہیں ) نے ہمارے بیٹے ژند ماجد کے آئی۔ سی۔ ایس کرنے کے بعد “بی ایس اردو” میں تقریبا 42 سال کی عمر میں داخلہ لیا اور بیٹے کی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ بی ایس اردو پاس تو کر لیا۔ لیکن چار سال جو گھر کا حال ہوا وہ ایک الگ کہانی ہے۔ بیگم بے چاری کو جس چیز نے سب سے زیادہ تنگ کیا وہ عمر کا زیادہ ہونا تھا۔ جس کا احساس اسے کچھ ٹیچرز اور یونی ورسٹی کی لڑکیوں کی طرف سے دلایا بھی جاتا رہا۔ کچھ بول کر اور کچھ کے دیکھنے کا انداز ہی اسے گھائل کر دیتا تھا۔ لیکن ہوتا یہی ہے کہ جہاں برے اور گھٹیا لوگ ہوتے ہیں وہاں اچھوں کی بھی کمی نہیں ہوتی۔ مفیدہ نے ہار نہ مانی۔

آج اسے کنونشن سنٹر میں ڈگری ملنا تھی۔ حالانکہ اب وہ ایم فل کر رہی ہے۔ لیکن اس کی حالت اتنی عجیب تھی۔ وہ لوگوں کی آنکھوں سے اس قدر گھبرائی ہوئی تھی کہ پھر لوگوں کی آنکھوں میں وہی سوال ہوگا اس عمر میں۔

بغیر کسی مبالغے کے آج یہ واقعات پیش آئے جو حیران کن تھے۔۔۔۔ میں جانتا ہوں وہ یہ پڑھ کر ناراض ہو گی لیکن میرا جی چاہا کہ وہ سب اسی طرح لکھ دوں جیسے پیش آیا ہے۔ شاید اس سے آئندہ ہم اپنے رویوں کو بہتر کر سکیں۔ یا رویے جیسے بھی رہیں  کچھ اور لوگ ہمت کر کے عمر کی پروا کیے بغیر پڑھنے کی طرف مائل ہو جائیں۔

صبح وہ اتنی نروس تھی کہ اس کے ہاتھ سے نیل پالش گری اور کرچیوں سے اس کے پاوں کا انگوٹھا زخمی ہوگیا۔
“میں نہیں جاوں گی۔”
میں نے کہا: “تم لازماً  جاؤ گی۔کچھ نہیں ہوا چلو تیار ہو جاؤ۔”
وہ گئی دو منٹ بعد کمرے سے پھر روتی ہوئی آئی کان میں کانٹا بری طرح پھنسا ہوا تھا اور محترمہ مسلسل روتے ہوئے یہی  دہرا  رہی تھیں کہ۔۔۔۔”یہ کیا ہو گیا میں اب تو بالکل نہیں جاوں گی کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا۔”
مشکل سے کان کانٹے اور کانٹا کان سے آزاد کروایا اور کہا:”اب جلدی آؤ۔
میں جلدی سے جاکر گاڑی میں بیٹھ گیا۔

کبھی روتے کبھی ہنستے ہم کنونشن سنٹر کی طرف بڑھے 9 بجے کا وقت تھا ان تمام مصائب کے باوجود ہم 9 بجے وہاں پہنچ گئے۔ میں گاؤن اور کنونشن کیپ میں اس کی تصویریں لیتا رہا اور وہ نروس ہوئی کپکپاتی آواز میں کہتی رہی کہ لوگ کیا کہیں گے”اپنی بیٹی کا گاؤن پہن کر تصویریں لے رہی ہے۔”

میں نے کہا تمھاری ہمت ہے جو اس عمر میں بی ایس کیا ہے۔ اب ایم فل کر رہی ہو۔ تعلیم کے لیے عمر کی قید نہیں۔ اپنی کامیابی پر خوش ہو۔”

میں اسے اتار کر وہاں سے نکلنے ہی والا تھا کہ پھر روتے ہوئے چلائی “اب تو کبھی نہیں جاوں گی۔” جوتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔ میں نے دیکھا ایک جوتی کی ایڑی اتر گئی ہے۔۔ چلو جی۔۔۔ چیک کیا وہ ایڑی تو جڑ نہیں سکتی تھی فوراً  حل یہی سمجھ آیا کہ دوسری ایڑی بھی توڑ دی جائے۔توڑ دی گئی۔۔۔

ان کی حالتِ زار کا ہم سے یہ اک سوال تھا

ایڑی توڑ دی جائے،ایڑی توڑ دی گئی

(جون ایلیا کی روح سے معذرت کیساتھ)

اب جوتیاں آگے سے اٹھ کر عجیب لگ رہی تھیں پھر میِخیں نکل کر جوتی کے پتاوے سے باہر آنے لگیں۔ پھر وہی طوطے کی طرح رٹا ہوا جملہ “نہیں جانا نہیں جانا۔۔۔ گھر واپس چلیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گاڑی نکالی آب پارہ مارکیٹ پہنچے تمام دکانیں بند۔۔۔ موچی تلاشا اس کی منتیں کیں اس کی رگ مہارت کو چھیڑا۔۔۔ موچی کے ساتھ بیٹھے شخص کی منت کی ہم جلدی میں ہیں۔ اس نے بھی مجھ پر ترس کھا کر۔۔۔ اپنی باری مجھے دے دی۔ لو جی! جب بیگم کو واپس اتارا 10 بج رہے تھے لیکن ابھی اسلامک یونی ورسٹی کی لڑکیاں کنونشن سنٹر میں داخل ہو رہی تھیں۔
مفیدہ کو بی ایس کی ڈگری پر مبارکباد۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply