نجکاری آرڈیننس مگر کیوں؟۔۔۔ایم اے صبور ملک

عمران خان کی حکومت کو شکر ادا کرنا چاہیے،کہ قوم اور میڈیا کا ارتکاز اس وقت کشمیر کے مسئلے کی جانب ہے،وگرنہ گزشتہ ایک سال میں تبدیلی کے نام پر اس غریب قوم پر بے جا سرکاری محاصل اور مہنگائی کا بوجھ ڈالا گیاہے،اور جس میں ہربڑھتے دن میں کمی کی بجائے اضافہ ہور ہا ہے،اگر اس وقت مسئلہ کشمیر نہ ہوتا تو اپوزیشن جماعتوں اور عوام نے حکومت کے خلاف کوئی نا کوئی تحریک شروع کردینی تھی،لیکن وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں اور عوام نے کشمیر کے مسئلے پر یک آواز ہو کرحکومت کو اخلاقی قوت فراہم کی،تبدیلی سرکار کا ایک سال گزر گیا،وہ تما م اُمیدیں اور خوا ب جو عمران خان گزشتہ 22سال سے اس قوم کو دکھا رہے تھے ایک ایک کر کے وہ سب چکنا چور ہو کر رہ گئے،ملک کی معیشت ترقی کرنے کی بجائے آکسیجن ٹینٹ میں چلی گئی ہے،جس کا ادراک ابھی تک    حکومت کو نہیں ہوا،عمران خان کے اعصاب پر ابھی تک نواز شریف اور زرداری سوار ہیں،ان کو اس بات کی خبر ہی نہیں کہ ان کی ایک سال کی بیڈ گورننس نے اس قوم اور خود ان کے ووٹروں کا کیا حشر کردیا ہے،مہنگائی اور بے روزگاری نے جرائم کی شرح بڑھا دی ہے،غریب عوام جو کہ سرکاری ہسپتالوں سے مفت علاج معالجہ کروا رہے تھے اس کو  بھی موجودہ حکومت نے ختم کر دیا ،پرچی جو پہلے مفت بنتی تھی اب اس پر 50روپے فیس عائد کردی گئی ہے،مفت ای سی جی اور الٹراساؤنڈ ختم،ایکسرے اور تما م ٹیسٹوں کی فیس میں اضافہ،اور اب حکومت پنجاب نے ٹیچنگ ہسپتالوں میں نجکاری کاآرڈیننس جاری کرکے غریب کو مارنے کے لئے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دیا۔

یہ تجربہ پہلے ہی کے پی کے میں عوام بھگت رہے ہیں،اس سے پہلے شہباز شریف نے بھی اسی طرز کا تجربہ کیا تھا،خود مختار بورڈ کے سامنے سرکاری ڈاکٹرز کا اور دیگر عملے کا سروس سٹرکچر کیا ہوگا،اور عوام جو پہلے ہی مہنگے طبی ٹیسٹوں،یوٹیلٹی بلز،بچوں کی فیس اور دیگر اخراجات،گھر کے کرائے اور مہنگی گروسری کے ہاتھوں مرنے پر آچکے ہیں،اب ان کو زندہ درگو کرنے کے لئے مفت علاج معالجہ کی سہولت بھی چھینی جارہی ہے،مقصد صرف نجی بورڈ کے نام پر اپنے چہیتوں کو نوازنا ہے،پہلے ہی غیر منتخب افراد کو تحریک انصاف کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی جانب سے فوکل پرسنز کے نام پر نوازا جارہا ہے،اور سرکاری اداروں میں ان ناتجربہ کار اور اہلیت سے یکسر عاری افرار کی وجہ سے سرکاری اداروں کا عملہ ان سے تنگ ہے،آئے روز ان کی فرمائشیں اور بے جا مطالبوں نے صحت و تعلیم کے شعبوں کا ستیاناس کردیا ہے،اور اب حکومت پنجاب نے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے ٹیچنگ ہسپتالوں کا نظام نجی شعبے کے حوالے کرنے کا نادر شاہی آرڈیننس جاری کردیا ہے۔

سوال اس بات کا پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں اکثریت ہونے کے باوجود کون سی ایسی افتاد آن پڑی تھی کی آرڈیننس  جاری کرنے کی ضرورت پیش آگئی؟

اس کو صاف لفظوں میں تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان کی ناکامی ہی کہا جاسکتا ہے کہ جو ماضی میں کیے گئے بلند وبانگ دعوؤں کے برعکس بدانتظامی بدیانتی کی مرتکب ہورہی ہے،کیونکہ جس حکومت سے صحت کا شعبہ نہیں چل رہا،جس سے دم توڑتی معیشت نہیں سنبھل رہی،جس کی خارجہ پالیسی صفر ہے،جو ہر لمحے یوٹرن پر یقین رکھتی ہو،جس کے دور میں ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہو،اور سٹاک مارکیٹ روز بروز مندی کاشکارہو تی جارہی ہو،جو90دن میں تبدیلی لانے کے دعوے کرکے اقتدار میں آئے تھے وہ عملاًمکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔

صرف یہ سوچیں کہ صحت کے شعبے میں اس قسم کے لایعنی فیصلوں سے ان تمام غریب ونادارمریضوں پر کیا قہر ڈھایا جارہا ہے،جو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں بظاہر دن بھر خجل خوار ہوکر ہی اپنا چیک اپ  کروا لیا کرتے ہیں،جن کی استطاعت ایک گولی لینے کی نہیں اب وہ بھی بیچارے پہلے تو پرچی بنوانے کے لئے کسی نہ کسی طرح50روپے کا انتطام کریں،پھر ہسپتال جانے اور آنے کا خرچ،اگر ڈاکٹر نے ٹیسٹ لکھ دیا تو مزید خرچ،اور کوئی ایسی دواء جو ہسپتال میں میسر نہیں وہ عام مارکیٹ سے خریدنے پر مزید پیسے،ایسے میں گلی محلہ میں کھلے عطائیوں اور جعلی حکیموں کی چاندی ہوجاتی ہے جن کی دو نمبر اور پارہ ملی ادویات کھا کر بیمار اگلے جہاں سدھار جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عمران خان کا دعویٰ  تو ریاست مدینہ کا تھا،لیکن فلاحی ریاست کی بجائے ملک کو قصائیوں کی طرح چلایا جارہا ہے،ریاست ایک ماں کی طرح ہوتی ہے جس کا کام اپنی اولاد کو بہتر نظام زندگی فراہم کرنا ہوتا ہے،جو ریاست اور حکومت اتنا بے جا اور بے تحاشا  سرکاری محاصل لے کر بھی شہریوں کی زندگی میں بجائے آسانیاں لانے کے ان کی مشکلات میں اضافہ کرے،ایسی حکومت کو مسند اقتدار سے معذرت کرکے الگ ہو جانا چاہیے لیکن ایسا رواج ہمارے ہاں نہیں،یہاں تو ہر تبدیلی سرکار اور اسکے حواری ہرغلط اور عوام دشمن حکومتی اقدا م کو بھی جائز ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں،جیسا کہ صوبائی وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے آرڈیننس جاری کرنے کی صفائی پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہسپتالوں کو مزید بااختیار بنا کر مریضوں کے لئے آسانی پیدا کی گئی ہے،یہ کیسی آسانی ہے اس کا فیصلہ آنے والے وقت پر چھوڑتے ہیں،کیونکہ نجی شعبے کو اپنے منافع سے سروکار ہوگا،مریض جائے بھاڑ میں،ترجمان وائی ڈی اے اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے اس پر اپنے بھرپور احتجاج کا اعلان کیا ہے اور دوسری جانب سیاسی جماعتوں نے بھی آرڈیننس جاری کرنے پر شدید مذمت کی ہے،حکومت کو چاہیے کہ اس کو واپس لے اور پنجاب اسمبلی کے فورم پربل کی شکل میں پیش کرکے اراکین کو اس پر سیر حاصل بحث کو موقع فراہم کرے،اور تمام سٹیک ہولڈز کے تحفظات دور کرے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply