14اگست 1947 کی روح کہاں ہے؟۔۔۔۔۔ قیوم نظامی

روحانی اور کرشماتی شخصیت نے وہ سیاسی معجزہ کردکھایا تھا جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک پاکستان جو رمضان المبارک کی 27ویں کو معرض وجود میں آیا۔ آزادیٔ ہند کے ایکٹ میں ہندوستان اور پاکستان کی آزادی کی تاریخ 15 اگست درج کی گئی تھی۔ قائداعظم نے 13اگست 1947ء کو کراچی میں لارڈ مائونٹ بیٹن کے اعزاز میں ضیافت کے موقع پر تقریر میں فرمایا ’’آج ہندوستان کے لوگوں کو مکمل اقتدار منتقل ہونے والا ہے اور 15 اگست 1947ء کے مقررہ دن دو آزاد اور خودمختار مملکتیں پاکستان اور ہندوستان معرض وجود میں آجائیں گی‘‘۔[قائداعظم تقاریر و بیانات: بزم اقبال لاہور صفحہ 361]
قائداعظم نے 15اگست 1947ء کو پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کی افتتاحی تقریب پر قوم کے نام پیغام میں فرمایا ’’بے پایاںمسرت اور تہنیت کے ساتھ میں آپ کو مبارک باد کا پیغام دیتا ہوں۔ 15 اگست آزاد اور خودمختار پاکستان کی سالگرہ کا دن ہے‘‘۔[ایضاََ صفحہ 364] جولائی 1948ء میں پاکستان کی پہلی ڈاک ٹکٹ جاری کی گئی اس پر بھی آزادی کی تاریخ 15اگست 1947ء درج کی گئی ۔ دانشور اور مؤرخ بتائیں کہ وہ کیا قومی تقاضے تھے کہ قائداعظم کے جانشینوں نے آزادی کی تاریخ کو ہی تبدیل کردیا۔
قائداعظم 11اگست 1947ء کو مجلس دستور ساز پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنے انتخاب کے بعد پالیسی خطاب فرمایا جسے آئین پاکستان کا حصہ ہونا چاہیئے تھا مگر آج ہم اس تاریخی خطاب کے اقتباسات کو اپنے کالم کا حصہ بنا کر بحث میں نہیں پڑنا چاہتے۔ آج قائداعظم کے 13، 14 اور 15 اگست 1947ء کے خطابات (جن پر اتفاق رائے ہے) کے اقتباسات سے آزادی کی روح کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ قائداعظم نے اپنے 13اگست 1947ء کے خطاب میں فرمایا ’’اب ہمارے سامنے ایک نئے باب کا آغاز ہورہا ہے۔ ہماری کوشش یہ ہوگی ہم برطانیہ اور ہمسایہ مملکت ہندوستان اور دیگر برادر اقوام کے ساتھ بھی خیر سگالی اور دوستی کے تعلقات استوار کریں اور انہیں برقرار رکھیں تاکہ ہم سب مل کر امن، امن عالم اور دنیا کی خوشحالی کے لیے اپنا عظیم ترین کردار ادا کرسکیں‘‘۔[ایضاََ صفحہ 363] قائداعظم نے خیر سگالی، دوستی، امن اور خوشحالی کا جو پیغام دیا تھا وہ ہی آزادی کی روح تھا۔ افسوس بھارت نے قائداعظم کے پرخلوص جذبے کی قدر نہ کی اور ہندو ذہنیت تبدیل نہ ہوئی۔ بھارت آج بھی سرحدی کشیدگی پیدا کرکے اپنا اصل چہرہ دکھا رہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اس روح کو قید کس نے کیا؟ قائداعظم نے 14 اگست 1947ء کو مجلس دستور ساز پاکستان کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا ’’ہماری پیہم کوشش یہ ہوگی کہ ہم پاکستان میں آباد تمام گروہوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں اور مجھے توقع ہے کہ ہر شخص خدمت خلق کے تصور سے سرشار ہوگا۔ وہ جذبہ تعاون سے لیس اور ان سیاسی اور شہری اوصاف سے سرفراز ہوں گے جو کسی قوم کو عظیم بنانے اور اس کی عظمت کو چار چاند لگانے میں ممدو معاون ہوتے ہیں۔[ایضاََ صفحہ 363] خدمت خلق کا جذبہ اور سیاسی و شہری اوصاف آج نظر نہیں آتے جو پاکستان کو عظیم ملک بنانے کے لیے لازم تھے۔ قائداعظم نے اپنے اسی خطاب میں فرمایا ’’عظیم شہنشاہ اکبر نے تمام غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک کا مظاہرہ کیا۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی اس کی ابتداء آج سے تیرہ سو برس پہلے بھی ہمارے پیغمبرﷺ نے کردی تھی۔ آپﷺ نے زبان سے ہی نہیں بلکہ عمل سے یہود و نصاریٰ پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہایت اچھا سلوک کیا ان کے ساتھ رواداری برتی اور ان کے عقائد کا احترام کیا‘‘۔قائداعظم نے خود حضور اکرمﷺ کے اسوۂ حسنہ (امانت، دیانت، صداقت اور شجاعت) پر عمل کردکھایا۔انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ ان کے پاکستان میں وہ دن بھی آئے گا جب مسلم اور غیر مسلم دونوں محفوظ نہیں ہونگے اور کلمہ گو مسلمان ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہونگے۔ کیا آج ہم سرور کائناتﷺ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کررہے ہیں ؟قائداعظم نے 15اگست 1947ء کو پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کی افتتاحی تقریب پر قوم کے نام ایک پیغام میں فرمایا ’’نئی مملکت کی تخلیق کی وجہ سے پاکستان کے شہریوں پر زبردست ذمے داری آن پڑی ہے انہیں یہ موقع ملا ہے کہ وہ دنیا کو دکھا سکیں کہ ایک قوم جو بہت سے عناصر پر مشتمل ہے کس طرح امن و آشتی کے ساتھ رہ سکتی ہے اور ذات ، پات اور عقیدے کی تمیز کے بغیر سارے شہریوں کی بہتری کے لیے کام کرسکتی ہے‘‘۔[ایضاََ صفحہ 364] اسی خطاب میں قائداعظم نے مزید فرمایا ’’امن اندرون ملک اور امن بیرون ملک ہمارا مقصد ہونا چاہیئے۔ ہم پر امن رہنا چاہتے ہیں اور اپنے نزدیکی ہمسایوں اور ساری دنیا سے مخلصانہ اور دوستانہ تعلقات رکھنے چاہتے ہیں۔ ہم کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں کررکھتے۔ ہم اقوام متحدہ کے منشور کے حامی ہیں اور امن عالم اور اس کی خوشحالی کیلئے اپنا پورا کردار ادا کریں گے‘‘۔[ایضاََ صفحہ 364] امن اور خوشحالی قائداعظم کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول تھا۔ افسوس ہم آزادی کی روح سے انحراف کرکے مسلسل بھٹک رہے ہیں۔ ہمارا چالاک اور مکار ہمسایہ بھی ہمارے لیے مصائب پیدا کررہا ہے۔ قائداعظم نے اپنے اسی پیغام میں فرمایا ’’اے میرے ہم وطنو آخر میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان بیش بہا وسائل کی سرزمین ہے لیکن اس کو ایک مسلم قوم کے شایان شان ملک بنانے کیلئے ہمیں اپنی تمام توانائیوں کی ضرورت ہوگی‘‘۔افسوس تو یہی ہے کہ بیش بہا وسائل کے باوجود پاکستان آج بھی زوال پذیر ہے۔
قائداعظم نے یوم آزادی پر گورنر جنرل ہائوس میں ایک استقبالیہ دیا۔ سٹاف نے مہمانوں کے لیے کاریں رینٹ پر لینے اور گرمی کی وجہ سے چھتریاں خریدنے کی اجازت طلب کی۔ قائداعظم محسن انسانیت اور رحمتہ الالعالمینﷺ کے نقش قدم پر چلنے والے سیاسی رہنما تھے۔ آپ نے یوم آزادی پر بیت المال (قومی خزانے) کے محتاط خرچ کی شاندار روایت کا آغاز کیا اور سٹاف سے کہا کہ مسلم لیگ کے لیڈروں سے کاریں اور وائی ایم سی اے ہال سے چھتریاں عارضی طور پر حاصل کر لی جائیں۔ قائداعظم کے بعد ہم مجموعی طور پر قول و فعل کے تضاد کا شکار ہوگئے ہیں۔ آزادی کی روح کو فراموش کربیٹھے ہیں جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے مگر ہم تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یوم آزادی کا سبق اور پیغام یہ ہے کہ نوجوان قائداعظم کی اساسی تعلیمات اور آزادی کی روح کے مطابق پاکستان کی تشکیل نو کی جدوجہد کا آغاز کریں اور سیرت رسولﷺ کے خلاف چلنے والوں اور قائداعظم کے ذہنی اور فکری مخالف عناصر کا بے دریغ اور بلاامتیاز کا قلع قمع کرکے آزادی کی روح کو بازیاب کرائیں۔ انقلابی عوامی جدوجہد کے بغیر پاکستان کو غاصبوں اور ظالموں کے قبضے سے نجات دلانہ ممکن نہ ہوگا۔جب تک آزادی کی روح بحال نہ ہوجائے ہم اپنے مسائل سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔
تم جسم کے خوش رنگ لباسوں پہ ہو نازاں ۔۔۔ میں روح کو محتاج کفن دیکھ رہا ہوں
بشکریہ نوائے وقت!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply