شکریہ پاکستان، پاکستان شکریہ۔۔۔اسامہ اقبال خواجہ

میٹرو کے دو رویہ پُل کے نیچے کھڑا، وہ سبز کپڑوں میں ملبوس تھا۔ یوم آزادی قریب آ رہا تھا، مگر دلچسپ بات یہ تھی کہ سبز کے ساتھ اس نے سفید کی بجائے سرخ رنگ کا جوڑ بنا رکھا تھا۔ شاید اُسے سابقہ مشرقی پاکستان کا سابقہ یومِ  آزادی بھی منانا تھا، یا شاید دھندے کا تقاضا تھا۔ خیر لباس بھڑکیلا تھا سو جچ تو خوب رہا تھا۔ ہاں مگر سبز و سفید ہی موقع کی مناسبت تھی، خیر باقی کاموں کی طرح اگر یہ بھی نرالا ہو گیا تو اس میں مضائقہ ہی کیا تھا۔ اس کی پیدائش سے پرورش تک  سب کچھ الگ ہی تو تھا۔ سب سے منفرد، سب سے نرالا۔

الفاظ کے ہیر پھیر نکالیں تو یہ سب تکلیف دہ بھی تھا۔ اس کی جسمانی ساخت، اس کی گفتگو، اس کی چال ڈھال کسی کھاتے میں نہ آتی تھی۔ بچپن میں گھر کی چار دیواری نے اسے محفوظ رکھا مگر مٹی کے اس ڈھیر میں کچی سی چار دیواری کے سوا تھا ہی کیا۔ مرے ہوئے باپ کی تصویر یا قریب المرگ ماں، رشتوں کے نام پر ملے ہوئے کچھ طعنے، زہر آلود طنزیہ نشتر اور چند چست جملے۔ خیر ماں کا جنازہ اٹھا تو اسے بھی محلے سے اٹھ کر اڈے پہ آنا پڑا۔ یہاں تو اُس کے لیے ایک نئی ہی دنیا آباد تھی، گُرو ،اس کے کارندے اور گاہک۔ شروع شروع میں تو وہ نیا تھا سو دام بھی اچھے ملتے تھے مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا دام گرتے گئے۔

پہلے پہل تو وہ حیران ہوتا تھا کہ  اب تو اس کی جانب سے کوئی مزاحمت بھی نہیں ہوتی، پھر ریٹ کیوں کم ہو رہا ہے۔ مگر یہ ڈالر تو تھا نہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ مہنگا ہوتا۔ آخر وہ دن بھی آیا جب اُس کو خود گاہک ڈھونڈ کر لانے کو کہا گیا۔ اُسے اچھی طرح یاد تھا پہلے روز اُسے کوئی گاہک نہ ملا تھا ،مگر واپسی کے لیے اس کے قدم اڈے کی بجائے اپنے پرانے محلے کی طرف اُٹھ گئے تھے۔ وہاں بہت سے نئے کرایے دار آ چکے تھے، سو بہت سی نئی آنکھوں نے بھی اُس کا طواف کیا۔ مگر زنگ آلود تالہ کھول کر جب وہ اپنے بدبودار کوٹھے میں داخل ہوا تو کافی پُر سکون ہو گیا۔ رات جیسے تیسے گزار کر سورج نکلنے سے پہلے پہلے وہ اڈے پر لوٹ گیا اور اپنی جمع پونجی سے اس  روز کا حساب کر دیا۔ مگر یہ سلسلہ کب تک ٹھہرتا، سو دھندہ دوبارہ شروع کرنا ہی پڑا۔ بڑے دن آتے، یا چھٹی وغیرہ تو کام جلدی مل جاتا اور پیسے بھی اچھے، وگرنہ تو کمیشن نکال کر گزارہ ہی کر پاتا تھا۔

ابھی پچھلی چاند رات اُسے اچھی طرح سے یاد تھی۔ جب “گُرو” انہیں لے کر ایک بڑی سی حویلی میں گیا تو وہاں   چاند رات ہی کو عید کا سماں تھا۔ ٹھنڈی ہوا والی مشینیں تھیں مگر جام لنڈھانے والوں نے ماحول کو گرما رکھا تھا۔ اس رات انہیں اچھی طرح ادھیڑا گیا اور جس  وقت  سورج کی کرنیں پھوٹیں تب کہیں انہیں آزادی ملی۔ عید کا سارا دن اس نے یہ دعا مانگتے گزارا کہ  آئندہ اسے اسپیشل بکنگ کےلیے نہ  ہی بھیجا جائے۔ خیر ابھی معاملات معمول پر آئے ہی تھے کہ  ایک روز ہنگامہ برپا ہو گیا، چند میڈیا والےادھر کو گھس آئے تھے۔ آخر کچھ دیر بعد جب طوفان تھما تو معلوم ہوا کہ  انہوں نے انٹرویو لینا ہے، گُرو نے کچھ اپنے اور کچھ ان کے مسائل گنوائے اور طوفان ٹلا۔ کیا پتا اب کی بار لوگ ہمیں قبول کرنا شروع کر ہی دیں، اس نے اپنا ایکسپائرڈ شناختی کارڈ دیکھتے ہوئے سوچا۔ ویسے عجیب بات تھی کیمرہ اٹھائے کیمرہ مین ہو یا اسکرین پر انہیں دیکھنے والے ، سب کی آنکھوں میں بے جا تحقیر نمایاں تھی۔

اب جو اُسے پتا چلا کہ  اس بار 14 اگست اور عید ایک ساتھ آرہے ہیں تو پہلے وہ  ہچکچایا  لیکن پھر اس امید پر کہ چلو آخری بار سہی۔ اب وہ اتنے پیسے ضرور بچا لے گا جس سے اپنے کوٹھے کی ضروری مرمت کرا سکے۔ یوم آزادی میں ابھی دو روز باقی تھے، جھنڈے بیچنے والوں سے فٹ پاتھ بھر چکا تھا۔کوٹھا کرایہ پر چڑھانے کے خیال میں اس روز وہ کچھ زیادہ ہی کھو گیا تھا کہ  معمول کی طرح ایک کار اس کے پاس آکر آہستہ سے رُکی۔ اگلی سیٹ پر نوجوان ڈرائیور کے ساتھ گُرو بیٹھا ہوا تھا جس نے اشارےکے ساتھ کہا، 14 اگست کا ارجنٹ پروگرام ہے، پیچھے بیٹھو۔
وہ اپنے باقی 2 دوستوں کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھا تو گاڑی چل پڑی۔ جب گاڑی کچھ جانے پہچانے رستوں پر جانے لگی تو اس کا دل ایک بار پھر  زور سے  دھڑکا۔ یہ ہم کدھر کو جا رہے ہیں، اس نے گُرو سے سوال کیا۔ ارے اپنے پرانے قدر دان ہیں، سال دو سال ہی تو ہوئے چیئرمین بنے ہیں علاقے کے۔ اُنہی کے ہاں پروگرام ہے۔ مگر ابھی وقت ہے تھوڑا، سو چئیرمین صاحب کے بیٹے کی طرف چلتے ہیں، اُس نے ایک نیا مورچہ بنایا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر کو میزبان ڈرائیور نے گاڑی تنگ سی گلی میں موڑی اور بریک لگائی۔ یہ کیا سامنے تو اس کا اپنا ہی کوٹھا تھا۔ تالہ غائب تھا، البتہ تازہ پینٹ کی خوشبو محسوس کی جا سکتی تھی۔ دوسری منزل کے کنارے بنے ہوئے چوبارے پر جھنڈہ لہرا رہا تھا۔ ابھی وہ اس حیرت سے باہر ہی نہ نکلا تھا کہ  اسے لانے والے نے کوٹھے کا دروازہ بجایا۔ دروازہ کھلا تو ڈیک کے شور میں چیئرمین کے بیٹے کی آواز کچھ کچھ سنائی دے رہی تھی جو گنگنا رہا تھا “شکریہ پاکستان، پاکستان شکریہ”۔

Facebook Comments

Usama Iqbal Khawaja
صحافی بننے کی کوشش میں، بول نیوز کے ساتھ منسلک ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply