فلسطین (13) ۔ مہاجرین/وہاراامباکر

دوسری طرف فلسطینیوں کے لئے نکبہ ان کی شناخت کا مرکزی ستون بن گیا ہے جو نسل در نسل رہی ہے۔ یہ وہ ٹراما ہے جس نے ہر فلسطینی کی زندگی کو چھیڑا ہے۔ ذاتی طور پر یا آباء کو۔ اس کے بعد تین الگ حکومتوں کے تحت رہنا پڑا۔ اسرائیل، مصر (غزہ میں) اور اردن (مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں)۔ الگ ہو جانے کی اس حالت کو فلسطینی شتات کہتے ہیں۔ تینوں حکومتوں نے فلسطینیوں پر پابندیاں عائد کیں۔ ان کی نقل و حرکت محدود کی۔ شناختی کاغذات نہیں دئے گئے۔ الگ قوانین اور کنڈیشن رہیں۔ اسرائیل میں رہنے والے فلسطینی 1966 تک سخت مارشل لاء کے تحت رہے۔ زمین ضبط کی گئی اور انہیں آہستہ آہستہ آزادی ملی لیکن باقی فلسطینیوں کی حالت ان سے بدتر رہی۔
سیریا، لبنان اور اردن میں جانے والے مہاجرین ان ممالک کے لئے بوجھ تھے۔ ان کے لئے اقوامِ متحدہ نے مہاجرین کیمپ میں رہائش کا بندوبست کیا۔ سب سے زیادہ اردن میں جو بائیس لاکھ ہیں۔ جو زیادہ متمول تھے، انہوں نے مختلف ممالک میں اپنا بندوبست کر لیا۔
اردن کے شاہ عبداللہ اپنی چھوٹی سلطنت کو وسیع کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ انہوں نے 1950 میں مغربی کنارے کو ضم کر کے اردن کا حصہ بنا لیا۔ اس الحاق کو دنیا کے صرف دو ممالک نے تسلیم کیا، جو اردن کے بہت قریبی دوست تھے۔ یہ برطانیہ اور پاکستان تھے۔ شاہ نے اس علاقے میں فلسطینیوں کو اردن کی شہریت کی پیشکش کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردن کا یہ ضم کر لینے کا قدم فلسطینیوں میں مقبول نہیں رہا جو اپنے الگ وطن کی خواہش رکھتے تھے۔ اور خاص طور پر ہاشمی خاندان ان کے لئے پسندیدہ نہیں تھا۔
عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی طرف سے بہترین کارکردگی اردن نے دکھائی تھی اور اسی وجہ سے اسرائیل مغربی کنارے پر قبضہ نہیں کر سکا تھا لیکن فلسطینیوں کی نظر میں، ہاشمی خاندان کے محکوم رہنا، اس کے لئے ادا کی جانے والی قیمت بھاری تھی۔ شاہ عبداللہ برطانیہ کے پکے دوست تھے اور وہ فلسطین کی آزادی کے مخالف تھے۔ انہیں صیہونیوں کا دوست سمجھا جاتا تھا۔ ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ اس الحاق اور مہاجرین کی آمد کے بعد فلسطینیوں کی اردن میں تعداد مقامی اردنیوں سے بھی زیادہ ہو گئی۔ یہ تبدیلی بھی کشیدگی کا باعث تھی۔
جولائی 1951 کو خود اس کی سب سے بھاری قیمت چکانا پڑی۔ انہیں یروشلم میں حرم الشریف میں ایک فلسطینی نے قتل کر دیا۔ وہ اس وقت مسجد الاقصٰی میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد نکل رہے تھے۔
اس قتل نے اردن حکومت اور فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کر دیا۔ کئی فلسطینی اردن کے بڑے کامیاب شہری بنے لیکن کشیدگی جاری رہی اور بالآخر 1970 میں یہ پھٹ کر مسلح جنگ بن گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لبنان میں مہاجرین کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی، لیکن اس کا لبنانی سیاست پر اثر ہوا۔ یہاں پر فلسطینیوں کو شہریت دینے کا سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ لبنان میں بڑا نازک مذہبی توازن تھا۔ سنی، دروز، شیعہ اور بائیں بازو کے سیاستدانوں کو فلسطینی کاز سے تو ہمدردی تھی لیکن مہاجرین الگ معاملہ تھے۔
مہاجرین کو کیمپوں میں رکھا گیا جو لبنانی انٹیلی جنس کی نگرانی میں تھے۔ ملازمت کرنے یا پراپرٹی کی ملکیت پر پابندیاں تھیں۔ تاہم، اقوامِ متحدہ کی طرف سے دی جانے والی سروسز تھیں جس میں تعلیم اور ہنرمندی کی تربیت بھی تھی۔ اس نے لبنان اور دوسروں جگہوں پر فلسطینیوں کو عربوں میں زیادہ تعلیم یافتہ بنانا ممکن کیا۔ اس وجہ سے ان کے لئے امیگریشن کرنا ممکن ہوا۔ خاص طور پر امیر عرب ممالک کی طرف جنہیں تربیت یافتہ لوگوں کی ضرورت تھی۔ اس نے بہت سے نوجوان فلسطینیوں کی مہاجر بستیوں سے نکلنے میں مدد کی۔ فلسطینی نکبہ کے صدمے سے نکلنے لگے اور سیاسی طور پر منظم ہونے لگے۔ اس نے لبنان میں کشیدگی پیدا کی اور یہاں پر بھی حکومت کے ساتھ 1960 کی دہائی کے آخر میں جھڑپیں ہوئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہاجرین کی تھوڑی تعداد سیریا گئی۔ کچھ کیمپوں میں، کچھ دمشق اور دوسرے شہروں میں۔ اس سے کم تعداد عراق میں اور اس سے کم تعداد مصر میں گئی۔ چونکہ یہاں پر ان کی تعداد کم تھ، اس لئے انہیں یہاں فائدہ رہا۔ ان کو قبولیت ملنے میں دشواری نہیں ہوئی۔ اگرچہ شہریت یا ووٹ کا حق وغیرہ نہیں ملے لیکن تعلیم، سرکاری ملازمتوں، علاج اور ملکیت کا حق مل گیا۔ سرکاری سٹیٹس مہاجر کا رہا۔
اس وقت لیبیا اور الجیریا کی تیل کی صنعت ڈویلپ ہو رہی تھی، کئی فلسطینیوں نے یہاں پر ملازمت اختیار کی۔
عرب آبادی میں فلسطینی کاز کے لئے ہمدردی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرب اسرائیل کی 1948 کی جنگ کا ایک ضمنی نتیجہ یہ نکلا کہ فلسطینی عالمی ذہن سے محو ہو گئے۔ ہمیشہ عرب اسرائیل تنازعے کی بات کی جاتی تھی۔ اسرائیل، اردن اور مصر کے قبضے کا ایک اور نتیجہ یہ ہوا کہ 1948 سے پہلے کے فلسطینی راہنماوٗں کا خاتمہ ہو گیا۔ انہوں نے سیاست میں کبھی دوبارہ کردار ادا نہیں کیا۔ یہ اگلی نسل کے پاس آ گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply