عائشہ عارف خان اور عالمی یوم خواتین۔۔عمران علی

پروردگار عالم کی تخلیق کردہ کائنات کا ذرہ ذرہ بے مثال ہے، لیکن خالق کائنات نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا فرمایا، انسان کو اپنی پوری مخلوق میں  عزت و تکریم سے نوازا، اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا، انسان کو علم کی دولت سے مالا مال کرکے فہم و فراست عطاء فرمائی،
انسان کو جو عقل و دانش عطاء ہوا ہے وہ پوری کائنات میں بے نظیر ہے،
انسان اسی علم و حکمت، فہم و فراست کو بروئے کار لا کر، حیران کن ایجادات اور دریافت کی لا محدود منازل طے کر رہا ہے اور یہ تشنگی ابھی بھی باقی ہے، اسی وجہ سے کائنات کو تسخیر کرنے کا سفر جاری و ساری ہے،
انسان اپنے ساتھ بسنے والے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر ایک معاشرے کی بنیاد رکھتا ہے، اس بناء پر انسان کو معاشرے کی اولین اور بنیادی اکائی گردانا جاتا ہے،
انسانی معاشرے میں مرد اور عورت دونوں ہی لازم و ملزوم اور نہایت اہمیت کے حامل ہیں،
پروردگار نے مرد اور عورت کے ذریعے سے انسانی نسل کے پروان چڑھانے کا سلسلہ اسی بناء پر رکھا ہے تاکہ دونوں مل کر خاندانی نظام کو نہ صرف آگے بڑھائیں بلکہ اپنی آنے والی نسل کو بطریق احسن تربیت دے کر معاشرے کے لیے ذمہ دار اور بہتر شہری بنائیں،
انسانی رشتوں میں ویسے تو تمام رشتے اہم ہوتے ہیں مگر سب سے اہم رشتہ شوہر بیوی کا ہوتا ہے،
مشرقی معاشروں میں آج بھی خاندانی نظام کسی نہ کسی حد تک موجود ہے,مگر پچھلے چند عشروں سے مرد اور عورت کو لے کر ایک لاحاصل بحث چل پڑی ہے،اسلام میں عورتوں کے حقوق کے حوالے واضع احکامات موجود ہیں،
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معاشرے میں ایک طبقہ جو کہ اپنی ذہنی پسماندگی کی وجہ سے خواتین کو ان کا جائز مقام اور عزت دینے کے حق میں نہیں ہے، مگر اس سوچ کی تمام تر ذمہ داری صرف اور صرف مردوں پر عائد نہیں کی جاسکتی،
اکثر اوقات مشاہدے میں آیا ہے کہ خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم میں بالواسطہ یا بلا واسطہ دوسری خواتین کا کردار ہوتا ہے، خاص طور پر اگر کسی خاتون کے ہاں بیٹیوں کی پیدائش ہو تو وہاں ساس کا اپنی بہو سے بیٹا جنم نہ دینے پر تنازعہ دیکھنے کو ملتا ہے، جس کی وجہ وہ تنازعہ تشدد کی شکل اختیار کرلیتا ہے،
جہیز کے لین کے حوالے سے بھی یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکے والے کی جانب سے جب زیادہ جہیز کی مانگ کی جارہی ہوتی ہے تو لڑکے والوں کی طرف سے خواتین کا کردار بجائے مثبت ہونے کے منفی نظر آتا ہے،
حال ہی میں،جہیز کے نام پر تشدد سے تنگ عائشہ عارف خان نامی لڑکی کی خودکشی بہت سارے نہ  ختم ہونے والے سوالات کو جنم دے دیا ہے،
بھارت کی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد کی رہائشی خاتون عائشہ نے سلبر متی ندی میں کود کو خودکشی کرلی، عائشہ کی جانب سے خودکشی سے قبل شوہر عارف خان کو بھیجا جانے والا ویڈیو پیغام بہت سی کہانیاں سناتا ہے۔
عائشہ کے والد لیاقت علی کا کہنا ہے کہ 2018 میں بیٹی کی شادی عارف خان سے کی تھی، شادی کے دو ماہ بعد عارف کا کسی لڑکی سے کچھ معاملہ تھا، بیٹی کو جب یہ پتا چلا تو اس نے اپنے سسرال والوں کو اس سے آگاہ کیا، سسرال والوں نے بیٹے سے پوچھ گچھ کرنے کی بجائے عائشہ کو ہی پریشان کرنا شروع کردیا اور مزید جہیز کا مطالبہ کرنے لگے۔
عائشہ کے والد لیاقت مکرانی کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی تعلیم یافتہ اور سمجھ دار تھی، وہ نوکری بھی کررہی تھی اسی دوران 25 فروری کو 72 منٹ تک اس نے اپنے شوہر عارف سے بات کی۔
انہوں نے کہا کہ شوہر سے بات کرنے کے بعد بیٹی نے ہمیں فون کیا، ہم نے اسے خودکشی کرنے سے بہت روکا لیکن اس نے ہماری ایک نہ سنی اور ندی میں کود کر خودکشی کرلی۔
والد کے مطابق ہم لوگ بار بار فون لگاتے رہے بعد میں کسی نے فون اٹھایا تو پتا چلا کہ فون، بیگ اور جوتے ندی کے قریب سے ملے ہیں،
عائشہ عارف خان خود تو دنیا سے رخصت ہوگئی مگر جاتے جاتے اپنے ظالم شوہر اور گندے سماج کا منہ کالا کر گئی، وہ ایسی وفادار نکلی کہ مری بھی تو اپنے شوہر عارف خان کے نام پر،
بات بھارت یا پاکستان کے معاشرتی مسائل کی نہیں ہے، اس جیسے ہزاروں، لاکھوں واقعات رونماء ہو چکے ہیں،ایسے  بہت سارے  معاملات تو رپورٹ تک نہیں ہوئے ہیں،یہ  مسئلہ کسی ایک فرد کا نہیں ہے پورے معاشرے کو اپنا جائزہ لینا ہوگا،
مردوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی بہن، بیٹی، ماں اور بیوی کو مکمل عزت و احترام دینے کے ساتھ ساتھ انکے تمام جائز حقوق پورے کرے،
لیکن دوسری جانب خواتین کو اپنی مکمل ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا،
خواتین کو اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا ہونگے، اپنی گود میں پلنے والے مرد بچوں کی ایسی جاندار تربیت کرنا ہوگی کہ وہ معاشرے میں موجود دوسری خواتین کو نہ صرف عزت کی نگاہ سے دیکھیں بلکہ،، ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں،
خواتین کو اپنی اولاد کو بچپن سے لالچ سے نفرت کا درس دینا ہوگا تاکہ وہ بڑے ہوکر جہیز کی لالچ کا شکار کسی اور عائشہ عارف خان کو نہ بنائیں، 8 مارچ عالمی یوم خواتین، پوری دنیا کی خواتین کی محنت مشقت، اور قربانیوں کے اعتراف کا دن ہے،
پاکستان میں خواتین کی آبادی 50 فیصد سے زائد ہے، آبادی کے اس اہم حصے کو ملکی ترقی کے عمل میں شامل کیے بغیر پائیدار ترقی کا حصول ناممکن ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ خواتین کے تمام جائز حقوق کی فراہمی کے لیے نہ صرف مؤثر قانون سازی کرے بلکہ ان پر من و عن عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے،
خاص طور پر پر جہیز کے نام پر جاری خواتین کا معاشرتی و معاشی استحصال روکنا ناگزیر ہوچکا ورنہ  نجانے ہماری کتنی اور بیٹوں کو اپنی قیمتی جانیں گنوانی پڑیں، معاشرے کے ایک ایک فرد کو اسی معاشرتی بگاڑ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کرنا پڑے گا، تاکہ ہم اپنی بہنوں، بیٹیوں اور معاشرے کی تمام خواتین کو نہ صرف تحفظ کو یقینی بنائیں، بلکہ ان کی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں ان کی بھرپور معاونت کریں تاکہ وہ اقوام عالم میں ملک پاکستان کا نام روشن کریں۔

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply