آج سے تین،چار سال پہلے میں نے جناب عزت ماب مولانا فضل الرحمن پر ایک تنقیدی پوسٹ کی تھی جس میں ان کے سیاسی کردار کے بارے میں چند حقائق بیان کیے گئے تھے مگر بجائے میری بات کا دلائل سے رد کرنے کے میرے چند بہت قابل احترام برادران نے مجھے ان کی اسلام کے لیے خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے مجھ پر تیروں کی بوچھاڑ کردی تھی۔
مگر ان الیکشن کے بعد فضل الرحمن کے رویے نے ثابت کر دیا کہ بھلے ہی ان کی اسلام کے لیے ہزار ہا خدمات ہوں سیاست میں انہوں نے کوئی قابل قدر کارنامہ سر انجام نہیں دیا،نہ دے پائیں گے۔۔
جو چند سال پہلے کہتے تھے کہ ہر ہارنے والی پارٹی دھاندلی کا شور مچاتی ہے ان کے شور پر کان نہیں دھریں گے اب کیوں رولا ڈال رہے ہیں۔۔؟
الیکشن کا بائیکاٹ بھی ان کے ساتھ مل کر کر رہے ہیں جنہوں نے بہت سی جگہ پر خود ان کے امیدواروں کو شکست دی ہے، ویسے تو اس احتجاج کا کوئی مقصد ہی نہیں ہے ایک ایک سیٹ جیتنے والی پارٹی کس منہ سے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی بات کر رہی ہے نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے اس بائیکاٹ کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کر کے ان کے غبارے میں سے ہوا نکال دی ہے جہاں تک حلف نہ لینے کی بات ہے تو اس اے پی سی میں سے وہ کون تھا جس نے اسمبلی میں جا کر حلف لینا ہے۔۔۔؟
گزشتہ پانچ سال جو عمران خان کی تحریک اور دھرنے کو جوتے کی نوک پر رکھ رہے تھے اب ویسی ہی حرکتیں انہوں نے خود شروع کر دی ہیں جبکہ عمران نے یہی کہا تھا کہ چار حلقے کھول دو اور جب وہ حلقے کھولے گئے تو ثابت بھی ہوا کہ عمران خان درست کہہ رہا تھا۔
اب تو عمران نے خود کہہ دیا ہے کہ بتائیں کون سا حلقہ کھولیں۔۔؟
مجھے فہد مصطفے کا شو “جیتو پاکستان” یاد آ رہا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ کون سا ڈبہ کھولیں۔۔۔اور پھر کہتا ہے “سوچ لیں”۔۔۔
اب عمران بھی کہہ رہا ہے کہ کون سا ڈبہ کھولیں مگر ڈبہ کھلوانے سے پہلے سوچ ضرور لیں کہیں اس میں سے چوں چوں کرنے والا پلاسٹک کا چوزہ ہی نہ نکل آئے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں