لیبر حکومت کی صورت میں مزید دو ریفرنڈم۔۔۔۔طاہر انعام شیخ

2019ء کے الیکشن کے نتائج برطانیہ کیلئے بہت اہمیت کے حامل ہونگے یہ صرف کسی پارٹی کی حکومت سازی کا معاملہ نہیں بلکہ چند ایسے اہم مسائل سے متعلق ہے جس کے ملک کے مستقبل پر گہرے اور مستقل اثرات مرتب ہونگے، کنزرویٹو پارٹی جوکہ سروے پولز میں آگے ہے، اس نے یقیناً حالات اپنے لئے سازگار تصور کرتے ہوئے الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا تھا اگر نتائج اس کی توقعات کے مطابق آتے ہیں تو وہ 31جنوری2020ء کو یورپی یونین سے باہر نکل آئے گی اور یہ کسی ڈیل کے بغیر بھی ہوسکتا ہے، اس سلسلہ میں مذاکرات نکلنے کے بعد ہونگے، جوکہ برطانیہ کیلئے نہایت سخت اور مشکل ہوسکتے ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں کہ الیکشن کے نتائج بھی حسب توقع برآمد ہوں۔ 652کے ایوان میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کیلئے 326نشستیں درکار ہونگی، گزشتہ الیکشن میں کنزرویٹو پارٹی کو 318 نشستیں ملی تھیں اور اس کو شمالی آئرلینڈ کی پارٹی سے اتحاد کرنا پڑا تھا۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ نئے الیکشن کی صورت میں چھوٹی پارٹیاں گزشتہ الیکشن کی نسبت زیادہ سیٹیں حاصل کرسکتی ہیں اگر وہ سو کے قریب نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں تو دونوں بڑی پارٹیوں لیبر یا کنزرویٹو کیلئے اکیلے حکومت بنانا تقریباً ناممکن ہوجائے گا اور کولیشن کی شکل میں ان چھوٹی پارٹیوں کے مطالبات ماننا بڑی پارٹیوں کی مجبوری بن جائے گا، سکاٹش نیشنل پارٹی جوکہ برطانیہ سے سکاٹ لینڈ کی نمائندگی کی علمبردار ہے وہ اس امید پر ہے کہ معلق پارلیمنٹ کی شکل میں ان کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جائے گی، اور وہ کنگ میکر کی حیثیت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ کولیشن کی شکل میں لبرل ڈیموکریٹ گرین اور سکاٹش نیشنل پارٹی، کنزرویٹو کی نسبت لیبر کے زیادہ قریب ہونگی لیکن سکاٹش نیشنل پارٹی اپنے اس متوقع اتحاد کی لیبر سے بھاری قیمت وصول کرنا چاہتی ہے اور وہ سکاٹ لینڈ کی آزادی کیلئے مرکزی حکومت سے دوسرے ریفرنڈم کی قانونی اجازت حاصل کرنا ہے، لیبرپارٹی اگرچہ کہہ چکی ہے کہ وہ آزادی کے دوسرے ریفرنڈم کی صورت میں اسکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کے خلاف مہم چلائے گی لیکن اس ریفرنڈم کی مرکزی حکومت سے اجازت کے متعلق جیرمی کوربن کے بیانات کچھ اتنے زیادہ واضح نہیں ہیں، وہ کہہ چکے ہیں کہ لیبرحکومت کے پہلے چند سالوں میں آزادی کے ریفرنڈم کی اجازت نہیں دیں گے لیکن 2021ء کے اسکاٹش پارلیمنٹ کے الیکشن کے بعد یہ ممکن ہے۔

2014ء میں سکاٹ لینڈ نے آزادی کے ریفرنڈم میں 45کے مقابلے میں 55فیصد سے برطانیہ میں بدستور شامل رہنے کیلئے ووٹ دیا تھا لیکن سکاٹش نیشنل پارٹی نے 2016ء کے اپنے الیکشن منشور میں کہا تھا کہ اگر حالات میں کوئی بڑی تبدیلی آتی ہے یا کہ اسکاٹ لینڈ کو اس کی مرضی کے بغیر یورپی یونین سے نکالا جاتا ہے تو سکاٹ لینڈ کی آزادی پر مئی میں دوسرا ریفرنڈم کرایا جائے گا، سکاٹش نیشنل پارٹی نے یہ الیکشن نہایت ہی بھارت اکثریت یعنی 59میں سے 56نشستیں حاصل کرکے تاریخی کامیابی حاصل کی۔ اسکاٹ لینڈ نے اس کے بعد 38کے مقابلے میں 62فیصد سے بریگزٹ کو ریفرنڈم میں مسترد کردیا تھا چنانچہ سکاٹش نیشنل پارٹی اور حکومت کی سربراہ نکولا سٹرجن نے مطالبہ کیا کہ نئی صورتحال میں چونکہ سکاٹ لینڈ کے مفادات محفوظ نہیں رہے، لہٰذا اب وہ2020ء میں سکاٹ لینڈ کی آزادی کا دوسرا ریفرنڈم کرانا چاہتی ہیں، کنزرویٹو پارٹی کی حکومت نے اسکاٹ لینڈ کو دوسرے ریفرنڈم کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا، اب اسکاٹش نیشنل پارٹی کی تمام تر امیدیں دسمبر سے الیکشن سے وابستہ ہیں اور ان کو خاص امید ہے کہ وہ ویسٹ منسٹر میں اپنے سیاسی تعاون کے بدلے لیبر حکومت سے برطانیہ سے آزادی کے ایک نئے ریفرنڈم کی اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بریگژٹ کے بارے میں بورس جانسن کی کنرزویٹو پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹ دونوں ہی واضح طورپر انتہا پسندانہ موقف اپنائے ہوئے ہیں، کنزرویٹو یورپی یونین سے نکلنے جبکہ لبرل ڈیموکریٹ بدستور پرانی حیثیت سے ممبر رہنے کے حق میں ہیں، جب کہ لیبر نے اس سلسلہ میں ایک درمیانی راستہ اختیار کیا ہے، لیبر پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار میں آکر تین ماہ کے اندر یورپی یونین سے ایک قابل عمل ڈیک کے متعلق گفت و شنید کرے گی، جس میں ایک نئی کسٹم یونین، سنگل مارکیٹ اور حقوق و تحفظ کی گارنٹی شامل ہوگی اور پر اگلے تین ماہ کے اندر ہم یورپی یونین کے ساتھ طے شدہ اس ڈیل کو پبلک ووٹ کیلئے عوام کے سامنے لائیں گے، اس نئے ریفرنڈم میں لوگوں کے سامنے اس نئی ڈیل کو منظور کرنے یا بدستور یورپی یونین کا حسب سابق ممبر رہنے کے متبادل ہونگے اس صورتحال میں نئے الیکشن کے نتائج پر دو نئے ریفرنڈم ایک سکاٹ لینڈ کی آزادی اور دوسرا بریگزٹ پر متوقع ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply