• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تباہی کے دہانے پر کھڑا تعلیمی نظام: ذمہ دار کون؟۔۔قراۃ العین یوسف

تباہی کے دہانے پر کھڑا تعلیمی نظام: ذمہ دار کون؟۔۔قراۃ العین یوسف

چند روز قبل ایک   نجی چینل پہ خبر چل رہی تھی کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو ایک سمری بھیجوائی گئی ہے جس کے مطابق بی۔ایس کے طلبہ ڈائریکٹ پی۔ایچ۔ڈی میں داخلہ لے سکیں گے۔ اس پالیسی کے مطابق پی۔ایچ۔ڈی میں داخلے کے لیے اٹھارہ سالہ ڈگری یعنی ایم۔فل کو ختم کردیا گیا ہے اور اب پی۔ایچ۔ڈی میں داخلے ایم۔فل کی بنیاد پر نہیں ہوں گے۔ علاوہ ازیں طلباء کو کسی بھی مضمون میں پی۔ایچ۔ڈی کا اختیار ہوگا۔ کسی بھی مضمون میں پی ایچ۔ڈی کرنے کے لیے اس مضمون میں ماسٹرز یا ایم۔فل ہونا ضروری نہیں۔

اس خبر کو دیکھ کے اپنے ملک کی زبوں حالی کی وجہ سمجھ میں آگئی کہ کیوں آزادی حاصل کرنے کے برسوں بعد بھی ہم ترقی نہیں کر سکے۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن جس کے ذمے اعلیٰ تعلیم کے تمام معاملات ہوتے ہیں ادھر بیٹھے لوگ کیسی پالیسیاں بنا رہے ہیں جو کم از کم کسی ذی شعور انسان کی سمجھ میں آنے والی تو نہیں۔

پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری سب سے اعلیٰ ڈگری سمجھی جاتی ہے اور اس ڈگری کے حاصل کرنے والے کو ڈاکٹر کا خطاب دیا جاتا ہے۔ کیا اس ڈگری کی وقعت اتنی کم ہوگئی ہے کہ ہر ایک کی پہنچ میں آگئی ہے۔کیا بی۔ایس کے طلباء کو ڈائریکٹ پی۔ایچ۔ڈی میں بھیجنا مناسب ہے۔؟

بی۔ایس کے بعد ایم۔فل میں داخلے کے لئے یونیورسٹی کی طرف سے ٹیسٹ لیا جاتا تھا اور جن کا ٹیسٹ پاس ہوتا تھا ان کو داخلہ مل جاتا تھا۔ دو سالہ ایم۔فل کرنے کے بعد طلباء کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں نکھار آتا ہے اور وہ چیزوں کو بہتر طور پر سمجھنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد پی۔ایچ۔ڈی کرنے کے لئے یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے  سبجیکٹ ٹیسٹ دینا ہوتا تھا اور اس کو پاس کرنے والے ہی آگے داخلے کے اہل ہوتے تھے۔ یعنی ایسے طلباء چنے جاتے تھے جو ذہنی طور پر پختہ ہوتے تھے اور واقعی” ڈاکٹر” کا خطاب پانے کے اہل تھے۔

بی۔ایس سے لے کر پی۔ایچ۔ڈی تک کی چھانٹی میں سارا کچرا نکل جاتا تھا اور پی۔ایچ۔ڈی میں داخلہ صرف ان گنے چنے طلباء کو ملتا تھا جو واقعی اس کے اہل ہوتے تھے۔ سارے ان سکریننگ کے مراحل کو ختم کرنے کے بعد اب ہمارے پالیسی میکرز ایسی پالیسی بنا رہے ہیں جس میں سے پی۔ایچ۔ڈی کرنے والے “ڈاکٹر” نہیں بلکہ “کچرا” کہلائیں گے۔

ایسی کھیپ تیار ہونے والی ہے جو ” کام کے نہ کاج کے البتہ دشمن اناج” کے ہوں گے۔
اور ایسی ڈگری جاری کر کے ہم کسی بھی دوسرے ملک کے تعلیمی نظام میں کیسے جگہ بنائیں گے؟ ایسی ڈگری جس کو کوئی بھی انٹرنیشنل یونیورسٹی تسلیم نہ  کرے ،اس کو کیا طلباء مردانہ کمزوری دور کرنے اور رنگ گورا کرنے والی کریموں کے اشتہاروں کے ساتھ لگائیں گے؟

تعلیم کے لیے مختص بجٹ کو دیکھ کر حکومت کی تعلیم کے شعبے میں سنجیدگی واضح نظر آرہی ہے۔آن لائن کلاسز سے لے کے نئی پالیسیاں بنانے تک ایچ۔ای۔سی میں بیٹھے ہوئے مفکروں کی سوچ اب سب پر عیاں ہو چکی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تمام پروفیسرز کو اور ریسرچرز کو اس معاملے کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ اب یہ معاملہ حد سے بڑھ چکا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply