یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو ۔۔۔ محمد منیب خان

میں کوئی کاہن، نجومی یا جوتشی نہیں جو بتا سکوں کہ چند دن بعد عوام الیکشن میں کیا فیصلہ کریں گے نہ ہی میں اس وقت ارض وطن میں موجود ہوں جس سے عوام کی سیاسی نبض پہ ہاتھ کا جھوٹا دعوی کر کے مرضی کے تجزیے آپ کی بصارتوں پہ بھاری کروں۔ میں صرف وہی لکھ رہا ہوں جو محسوس کر رہا ہوں۔

پاکستان میں سیاسی انجنئیرنگ ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ اس کی بڑی مثالیں بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم اور آئی جے آئی کا اتحاد ہے۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاتا صرف اتنا سوال پوچھتا ہوں کہ نظام مصطفی تحریک کا نتیجہ کیا نکلا؟ کم از کم نظام مصطفی قائم نہیں ہوا کیونکہ اگر وہ نظام قائم ہوا ہوتا تو میں آج اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ رہا ہوتا۔ تو ہوا کیا؟ صرف ایک پاپولر لیڈر بھٹو سے جان چھڑوائی گئی اور عوام کو اسی مقام پہ رکھا گیا کہ ان کی سوچ کو دائیں اور بائیں موڑنے والا گروہ طاقتور رہے۔

پھر آئی جی آئی کی تشکیل ہوئی۔ دائیں بازو کی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم دیا گیا لیکن نتیجہ نداراد۔ صرف دو سال اپنا پیدا کیا ہوا اتحاد برداشت ہوا اور جونہی یہ گمان گزرا کہ ووٹ لینے والے کہیں خود مختار نہ ہو جائیں تو اسی لمحے وزیراعظم کو کرپشن الزامات پہ چلتا کیا۔ طاقت کے اصل سر چشمے نے اپنی طاقت کو منوا لیا۔ میں اس جیسی کم از کم دس مثالیں دے سکتا ہوں لیکن بارہا تاریخ میں جانا مجھے کہیں حال سے غافل نہ کر دے۔ اب میں حال سے غافل نہیں رہنا چاہتا۔

حال بے حال ہو چکا ہے۔ اور کیوں بے حال ہے؟ دوہزار آٹھ کسے یاد نہیں۔ اسی طرح الیکشن کا میلہ سجا تھا کہ محترمہ بینظیر کو شہید کر دیا۔ عوام نے اپنا غم و غصہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کر نکالا۔

پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت ملی لیکن اس کے بعد سے دوہزار تیرہ تک کے حالات کو میں ایک لمحے کے لیے حذف کر دوں اور آپ سے سیدھا پوچھوں کہ دوہزار تیرہ کا پاکستان کیسا تھا؟ یادداشتوں کو تھوڑا کھنگالیں، سوچ کو ذرا پیچھے لے کر جائیں۔ کم از کم دو باتیں شاید ہی کوئی ذی شعور بھول سکتا ہو۔ ایک دہشت گردی اور دوسرا لوڈ شیڈنگ۔ یہ دونوں عذاب کی صورت میں ہم پہ مسلط تھے۔ لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ میں صدق دل سے کہہ رہا ہوں کہ اس دوران میں نے لوگوں کی نفسیات بدلتے دیکھتی۔ لوگوں کے مزاج اور رویے بدل گئے تھے۔ یہ سب صرف ان دو باتوں کی وجہ سے تھا۔

پھر الیکشن میں عوام نے اپنا فیصلہ سنایا اوور مسند اقتدار پہ ن لیگ کو بیٹھایا۔ میں اس وقت ملک میں موجود نہیں لیکن اس وقت ملک میں رہنے والے لوگ بتا سکتے ہیں کہ ان دو عذابوں کی اب کیا صورتحال ہے۔ میں ہر گز اس بات کا قائل نہیں کہ یہ فرد واحد کی وجہ سے ہے لیکن اس سارے معاملے میں جو سیاسی دانش اور فیصلہ سازی چاہیے تھی اور اس دوران مہیا کی گئی۔ اس سب کے باوجود آج جب پانچ سال بعد ایک نئے الیکشن کی طرف جا رہے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ جس جماعت نے ان دو بحرانوں کو قابو کیا وہی اس وقت معتوب بنا دی گئی ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلی کی تبدیلی سے شروع ہونے والی انجنئیرنگ اب انفرادی شخصیات کی نااہلی اور سزاؤں تک آ گئی ہے۔ مزید یہ کہ اب فضا یہ بنائی جا رہی کہ چونکہ ان کو تو الیکشن جیتنے نہیں دینا اس لیے لوگ ان کو اپنا ووٹ ہی نہ دیں۔ یہ ماحول اور یہ فضا کون بناتا ہے؟ وہی جو خود کو طاقتور گروہ سمجھتے ہیں اور ماضی میں سیاسی جوڑ توڑ کرتے رہے۔ لیکن کیا اب کی بار ووٹر ایسا سمجھ لے گا؟ اصل فیصلہ تو پچیس جولائی کی شام کو معلوم ہو جائے گا لیکن میرا  گمان ہے کہ ووٹر کی ایک بڑی تعداد جو ابھی تک خاموش ہے وہ ن لیگ کے حق میں اپنا فیصلہ سنا کر ان کو سادہ اکثریت دلانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ یہی عمل ہمارے ملک کے مستقبل کو نئی سمت دے گا ورنہ اگر ہم اس بار بھی طاقتور گروہ کی پیدا کی گئی ہوا میں اڑ گئے تو “یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply