سوالیہ نشان۔۔۔عبیداحمد

14اگست1947 کو ہمیں اللہ تعالی نے اس خوبصورت وطن سے نوازا۔ 1947 کا وہ سال جس میں بہت کوششوں اور کاوشوں سے ہم نے یہ  ارض پاک حاصل کی ۔ برصغیر میں موجود ہر مسلمان اب فطری، آئینی،ذہنی اور جسمانی طور پر آزاد ہوچکا تھا۔ اور اس وطن کے حصول کی صرف ایک وجہ بتائی جاتی ہے وہ ہے اسلام۔ آج 2018 چل رہا ہے۔ اس ملک کو بنے 72 برس بیت چکے ہیں مگر اسلام اس ملک میں نام کے سوا کہیں نہیں دکھتا۔ اسلام اس ملک میں موجود کسی طبقے میں نہیں ملتا۔ ملتی ہے تو صرف نفرت، مفاد، رسوائی۔ میں اکثر سوچتا ہوں کیا وجہ ہے کہ ہم اور ہمارا پڑوسی ملک صرف ایک دن کے فاصلے پر آزاد ہوئے مگر ہم خود میں الجھ کر رہ گئے اور وہ ترقی  اور زندگی کے کسی لمبے سفر پہ نکل پڑے۔  جہاں سوچ جنم لیتی ہے وہاں نتائج ابھرتے ہیں۔ مگر بدقسمتی   سے میراذہن ایسے نتائج سے دو چار ہوجاتا ہے کہ مجھے خون کے آنسوں رونے پہ اکساتا ہے۔ دنیا کی تمام عظیم قوموں کو  دیکھ لیجیے۔ سب عظیم قوموں میں ایک چیز مشترک نظر آئیگی۔ استاد!

 استاد وہ ہوتا ہے جو نہ صرف راستہ دکھائے بلکہ استاد اس راستے پر  چلنا بھی سکھاتا ہے۔ مگر! اب اس استاد کو ہم اپنے درمیان دیکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں استاد وہ ہے جسے اور کہیں نوکری نہیں ملتی اور وہ بچوں کو پڑھانا شروع کر دیتا ہے۔ ہم میں استاد وہ ہے جو پہلے اسلامیات کی کلاس میں بچوں کو پڑھاتا ہے۔ بچو ہم سب اور اس کائنات کو اللہ نے بنایا ہے۔ مگر سائنس کی کلاس میں وہی استاد کچھ یو کہنے لگتا ہے۔ ہزاروں سال پہلے ایک سیارہ ٹکرایا بیگ بینگ ہوا اور کائنات بن گئی۔ اب کوئی معصوم بچہ اگر پوچھ بیٹھے کہ ابھی تو آپ کہہ رہے تھے اللہ نے بنایا اور ابھی آپ کچھ اور کہہ رہے ہیں تو استاد محترم برا مان جاتے ہیں اور اپنی ناراضگی کے اظہار میں بیچارے بچے کو تھپڑ رسید کر دیتے ہیں۔ اور وہ بچہ پھر زندگی بھر کسی سے سوال نہیں کرتا۔ سوال علم کی سانسیں ہیں جب تک سوال ہیں علم جاری ہے مگر ہمارے استاد محترم نے اس بچے سے اسکی کریٹیوٹی چھین لی۔ اب اس بچے کے ذہین میں سوال ابھریں گے مگر وہ کبھی کسی سے پوچھ نہیں سکے گا۔ اور آہستہ آہستہ سوال ابھرنا بھی بند ہوجائیں گے اور وہ بھی استاد بن جائے گا۔ خدا اور بیگ بینگ تو دور کی بات وہ اپنے گھر کے مسائل حل کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ وہ معاشرے کی معروضیت کا شکار بن جائے گا۔ اس کے پاس بھلے ڈگریاں ہوں مگر سب بے مقصد ہونگی۔ کیونکہ وہ سب ڈگریاں تعلیم سے تو بھرپور ہونگی مگر علم سے خالی ہونگی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کے دماغ میں سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوگی۔ اس کی سوچ ایک ڈبے میں قید سوچ ہوگی۔ اسکے دماغ میں کبھی کوئی انقلابی خیال جنم نہیں لےگا۔ اور آہستہ آہستہ اس پر  وہی دو وقت کی روٹی کی پریشانی  آن  پڑے گی۔ ڈگریوں کا استعمال کرتے ہوئے وہ بھی استاد بن جائے گا اور یہ سایئکل ایسے ہی چلتا آرہا ہے  اور چلتا رہے گا۔ استاد محترم پھر اپنی دو وقت کی روٹی کے لئے پوری قوم کی شاخیں کاٹنے میں لگ جائیں گے۔ یہ تمام نظام ایسے ہی حالات کی دین ہے۔ ہم باکمال ڈگریاں اور بے اثر ہنر رکھنے والے زندگی کے جس شعبہ میں جاتے ہیں اپنی کارکردگی چھوڑ آتے ہیں۔ ہم ایک ڈبے میں بند زندگی گزار رہے ہیں جہاں ہمارا سب سے بڑا روگ دو وقت کی روٹی ہے۔ اس روگ کی وجہ سے یوں محروم ہیں کہ روٹی حلال کرنا ہی بھول جاتےہیں۔ حلال کی سمجھ سے ہی پیدل ہیں۔ جیب میں حرام لیے حلال گوشت تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ استاد کو ترقی  یافتہ ممالک میں دیکھیں تو کچھ یوں ہے۔ جاپان میں نصابی تعلیم بہت بعد میں شروع کروائی جاتی ہے۔ سب سے پہلے انہیں اخلاقیات سکھائی جاتی ہیں جو کہ ہمارے پورے دین کی بنیاد ہے۔ ان بچوں سے سکول کی صفائی کروائی جاتی ہے اور وہ صفائی ہمارا نصف ایمان ہے۔ پھر انہیں سکھایا جاتا ہے سوچنا کیسے ہے۔ اس ماحول سے نکل کر بچہ ماؤ زے   ہی بن سکتا ہے۔ امریکا میں 2008 میں ایک ریسرچ کی گئی جس کے نتائج میں یہ سامنے آیا کہ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد انسان اس قابل ہوتا ہے کہ فرسٹ گریڈ کے طالبعلم کو ڈیل کر سکے۔ مگر ہمارے ہاں ایسے  نااہل لوگوں کے ہاتھ ملک تھما دیا جاتا ہے ویسے ہی اس ملک کا اثاثہ بھی نااہل لوگوں کے ہاتھ تھما دیا جاتا ہے۔ ان سب حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر میتھ استعمال کیا جائے تو ہماری ایکویشن بالکل برابر ہے۔ مگر کیا یہی ہونا تھا پاکستان؟ کیا ایسا ہی پاکستانی ہونا ہے ہمیں؟ اگر نہیں تو اس ملک میں موجود ہر چیز پر سوالیہ نشان لگائیں ۔ علم کا آغاز سوال سے ہوتا ہے۔ شاید ہم سب کو جواب مل جائیں ۔

Facebook Comments

Obi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply