معرکہ نیب آفس۔۔محمد اسد شاہ

نیب نے حسب عادت، حسب روایت اور حسب توقع مسلم لیگ (نوازشریف)کی نائب صدر محترمہ مریم نوازشریف کو 11اگست2020کو ایک بار پھر پیش ہونے کا حکم جاری فرمایا۔محترمہ جب چلیں تو چند مقامی ایم این ایز اور ایم پی ایز کے علاوہ مسلم لیگی کارکنوں کا ایک ہجوم بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔لاہور میں اس دن عوامی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ اس کے باوجود پولیس کے سینکڑوں مسلح جوانوں اور گاڑیوں نے نیب آفس کے راستوں کو گھیر رکھا تھا۔راستوں میں جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ایسا انتظام چہ معنی دارد! پولیس کے جم غفیر نے مسلم لیگی کارکنوں کو بزور قوت روکنا چاہا۔ بہتر ہوتا کہ پولیس اس موقع پر لوگوں کو بتاتی کہ کس قانونی جواز کے تحت وہ ایسا کر رہی تھی، جب کہ اس دن ان سڑکوں پر لوگوں کے چلنے پھرنے پر کوئی عدالتی پابندی بھی نہیں تھی۔ چنا ں چہ لوگ پولیس کی بات ماننے سے انکاری ہو گئے۔ پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال شروع کر دیا۔ یہ ”سہولتیں“ عوام کے پاس تو نہیں تھیں۔ بعض لوگوں نے جانیں بچانے اور بھاگنے کی کوشش کی، لیکن پولیس کے بہادر جوانوں نے ان کا پیچھا کیا اور انھیں پکڑ پکڑ کر ”سبق سکھانے“ کا بھر پور مظاہرہ کیا۔بہت سے لوگوں کے سر پھٹ گئے، کسی کا بازو ٹوٹ گیا، کسی کے کپڑے پھٹ گئے۔ کئی لوگ زمین پر لیٹ گئے۔بعض ٹی وی چینلز پر چلنے والی ایک ایک یا دو دو منٹ کی وڈیوز میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ پٹرول پمپ پر کھڑے ایک نہتے مرد پر ڈندوں کی برسات کی گئی، وہ بے بس ہو کر فرش پر گر گیا اور اس کی بیوی دھاڑیں مار مار کر رو رہی ہے، اپنے خاوند کو اٹھانے کی ناکام کوششیں کر رہی ہے اوردیکھنے والے محسوس کر سکتے ہیں کہ ساتھ ساتھ اس خاتون کی آہیں عرش کی طرف جارہی ہیں۔تمام وڈیوز میں نظر آ رہا ہے کہ پولیس کے مسلح جوان، نہتے مسلم لیگی لڑکوں اور بزرگوں کو تھپڑوں، مکوں اور ڈنڈوں کے ساتھ مار مار کر گاڑیوں میں بند کر رہے ہیں۔لمبے بالوں والے ایک موٹے سے خوب صورت اور صاف ستھرے نوجوان کو پکڑا گیا۔ وہ نہایت فرمان برداری کے ساتھ مسکراتا ہوا پولیس والوں کے ساتھ چل پڑا۔ اس نے کوئی مزاحمت تک نہیں کی۔ لیکن جیسے ہی وہ پولیس وین کے پاس پہنچا، اس پر ڈنڈوں، تھپڑوں اور مکوں کا طوفان برپا کر دیا گیا۔ اس خوب صورت نوجوان نے پھر بھی صبر کا دامن تھامے رکھا۔
محترمہ مریم نواز بلٹ پروف گاڑی میں آئی تھیں۔ ان کی گاڑی کے گر د اس قدر شدید لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ اور پتھراؤ ہوا کہ وہ بالکل تنہا رہ گئیں۔وڈیوز میں اس دوران ان کی گاڑی پر پتھر گرتے نظر آ رہے ہیں۔ پھر ایک زوردار آواز سے ان کی گاڑی کی ونڈ سکرین ٹوٹ گئی۔ اس دوران محترمہ کو ٹیلی فون پر پیغام دیا گیا کہ نیب آفس ان کا موقف نہیں سننا چاہتا، اس لیے وہ واپس تشریف لے جائیں۔اس خوف ناک ماحول میں حیرت انگیز دلیری کے ساتھ محترمہ مریم نواز اپنی گاڑی سے باہر آگئیں اور اعلان کیا کہ وہ واپس جانے کی بجائے اپنا موقف پیش کرنا چاہتی ہیں کیوں کہ نیب نے خود انھیں بلوایا تھا۔
شام کودو صوبائی وزراء، ایک وفاقی وزیر اور ایک وفاقی مشیر نے محترمہ مریم نواز کے خلاف الگ الگ پریس کانفرنسز کیں۔وزراء نے الزام لگایا کہ محترمہ کے کارکن پولیس والوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پتھر ساتھ لائے تھے۔ لیکن ان وزراء نے یہ نہیں بتایا کہ اگر مسلم لیگی کارکن پتھر لائے تھے تو وہ کہاں غائب ہو گئے کہ کسی پولیس والے کو تو کوئی خراش تک نہیں آئی اور نہ ہی ایسی کوئی تصویر سامنے آئی۔ البتہ تشدد زدہ مسلم لیگی کارکنوں، نوجوانوں، بزرگوں اورخواتین کی وڈیوز اور تصاویر سب دیکھ چکے ہیں۔ ایک مضحکہ خیز ترین الزام یہ بھی لگایا گیا کہ محترمہ کی گاڑی کا شیشہ پتھر لگنے سے ٹوٹا، اور یہ کہ اس کام کے لیے خود محترمہ نے ہی ایک شخص کو پچیس ہزار روپیہ ایڈوانس دیا تھا۔ جب کہ دوسری طرف مسلم لیگی حلقوں اور دیگر ماہرین کی رائے ہے کہ بلٹ پروف گاڑی کی ونڈ سکرین کسی پتھر یا روڑے وغیرہ سے نہیں ٹوٹ سکتی۔ ان کا خیال ہے کہ خدانخواستہ محترمہ کی جان لینے کی کوشش کی گئی ہے۔رکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ خان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شاید ارد گرد کی کسی عمارت کی چھت سے لیزر گن کا فائر کیا گیا ہو، جس کا مقصد محترمہ مریم نواز کو جان سے مارنا تھا۔
نئی نسل شاید نہ جانتی ہو، لیکن باشعورقارئین جانتے ہیں کہ جنرل ایوب خان کی حکومت نے بانیان پاکستان میں شامل محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کیا سلوک کیا۔جنرل ضیاء کی حکومت نے بے نظیربھٹواور نصرت بھٹو پر کیا کیا مظالم ڈھائے۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے ڈاکٹر کلثوم نواز، محترمہ مریم نواز اور شریف خاندان کی دیگر خواتین اور بچیوں تک کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اب عمران خان کی حکومت ہے۔ خان صاحب کو حکومت ملتے ہی، تما م ٹی وی چینلز پر محترمہ مریم نواز کی لائیو کوریج پر پابندی لگا دی گئی اور ان کی بعض انتہائی شاندارتقاریر اور جلسے وغیرہ بھی نہیں دکھائے جا سکے۔ یاد رہے کہ انھی محترمہ مریم نواز کے والد صاحب کی حکومت نے عمران خان کی تقاریر اور جلسے دکھانے پر کبھی ایک لمحے کی بھی کوئی پابندی نہیں لگائی تھی۔خان صاحب کو ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اپنی حکومت کو ”جمہوری“ ثابت کریں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ محترمہ مریم نواز سے شدید خوف زدہ ہیں، بعینہٖ اسی طرح جیسے جنرل ایوب کو محترمہ فاطمہ جناح سے، جنرل ضیاء کو بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو سے، اور جنرل پرویز کو ڈاکٹر کلثوم نواز اور محترمہ تہمینہ دولتانہ سے ڈر لگتا تھا۔لیکن ہمارا خیال ہے کہ عمران خان کو چاہیے کہ بہادر بنیں، اور تما م میڈیا کو آزادی کے ساتھ محترمہ مریم نواز کی تقاریر اور جلسے نشر کرنے کی اسی طرح اجازت دیں، جس طرح میاں محمد نواز شریف نے عمران خان کے جلسے نشر کرنے کی مکمل آزادی دے رکھی تھی۔اور تمام سیاسی راہ نماؤں کے مقام و مرتبے کا خیال رکھتے ہوئے ان کی سیکورٹی کے حوالے سے بھی انھیں مطمئن کریں۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply