• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اے مظلومو ہماری طرف نہ دیکھنا کیونکہ ہم صرف نعرہ باز منافق ہیں ۔۔سیّد عارف مصطفیٰ

اے مظلومو ہماری طرف نہ دیکھنا کیونکہ ہم صرف نعرہ باز منافق ہیں ۔۔سیّد عارف مصطفیٰ

کچھ بھی نہیں بدلا ، سب کچھ پہلے کی طرح ہی ہے ۔نہ تو غزہ میں وحشی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں‌ کا قتل ِ عام کوئی نئی بات ہے، جو کہ ان دنوں پھر سے ہورہا ہے، کیونکہ گاہے بگاہے کچھ ماہ و سال کے بعد ہوتا رہتا ہے اور نہ ہی اس سے متعلق ہماری حکومت کی جانب سے ان کھسرانہ بیانات کی ایک سطر بھی بدلی ہے کہ جن میں یہ کہا گیا ہوتا ہے کہ ” ہم تمہارے ساتھ کھڑے ہیں ۔”

لیکن معاملہ یہ ہے کہ صرف ساتھ کھڑے ہونے سے ہی جارح کی بربریت ختم ہوسکتی اور مسائل اور تنازعات حل ہونے لگتے تو دنیا بھر میں کوئی مسئلہ باقی نہ رہتا اور نہ ہی کسی فوج کی ضرورت باقی رہتی اور نہ ہی اقوام عالم کو جدید سے جدید ہتھیار اور اسلحے کے انبار درکار ہوتے ، لگتا یہ ہے کہ ہماری وزارت خارجہ نے یہ “ساتھ کھڑے ہوئے ہیں “والے بیان کی بہت سی کاپیاں کروارکھی ہیں، جن کے سرنامے پہ خالی جگہ وقتاً فوقتاً اور حسبِ  ضرورت کبھی اے فلسطینیو لکھ دیا جاتا ہے تو کبھی اے کشمیریو ۔۔۔۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہماری لرزتی کانپتی حکومتیں عملی طور پہ کبھی ان مظلوموں کے ساتھ نہ پہلے کبھی تھیں اور نہ ہی آئندہ کبھی ہونگی کیونکہ ان بُرے اور اہم فیصلوں کے لیے جس جرات اور غیرت ایمانی کی ضرورت ہوتی ہے ،حکومتی و دفاعی سطح پہ اسکا عشر عشیر بھی یہاں موجود نہیں ہے۔

یہاں میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میرے نزدیک دھوکے کی ایک گھناؤنی شکل وہ دھوکہ ہے کہ جو اپنے آپ کو دیا جائے اور گھناؤنی ترین شکل وہ دھوکہ ہے کہ جو مدد کے نام پہ مظلوم کو خالی خولی آسرے کی صورت دیا جائے ۔۔ بدقسمتی سے ہماری حکومتیں ان دونوں طرح کے دھوکوں کے ارتکاب کی لمبی تاریخ رکھتی ہیں اور کشمیر ہو یا فلسطین دونوں ہی کے لئے عملی طور پہ کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ انکے ایسے ساتھ کھڑے ہونے پہ ہزار مذمتیں روا ہیں کہ جن کے ہوتے غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور کشمیر میں بھارتی سفاکیت روز بہت سے معصوم بے گناہ شہریوں کو خاک و خون میں تڑپاکے مارتی رہے اور ایک ایٹمی طاقت کہلانے والا ملک اس ظلم کے خاتمے کے لئے بندوق اٹھانے کی ہمت بھی نہ کرسکے۔

مجھے کہنے دیجیے کہ جہاں‌ہماری تاریخ کا سب سے اچھا دن وہ تھا کہ جب ہم نے ایٹمی قؤت حاصل  کی اور اقوام ِ عالم میں سربلند ہوئے ۔۔ تو ساتھ ہی سب سے بُرا دن بھی وہی تھا کہ جس کے بعد اب کسی بھی جارحیت پہ ہماری بے عملی اور منمناتے بیانات کے باعث اب ساری قوم روتی ہے کہ جب ہم نے اسی طرح گھگھیاتے رہنا تھا تو ایٹمی قوت بنے ہی کیوں‌تھے کہ جس پہ اب اقوام عالم میں‌ہماری حیثیت اس طاقتور مگر بزدل رونٹو پہلوان جیسی ہوگئی ہے کہ جو ہر کسی مسئلے کے حل کے لیے  رونا پیٹنا ہی کافی سمجھتا ہے، اسی لیے  اسے مغرب سے ہر آتا جاتا چپت مارنے کو لپکتا ہے۔

اس میں‌کیا شک ہے کہ یہ شرمناک اقدام بھی ہمارے اس بزدلانہ طرزِ  عمل کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے، کہ بھارتی حکومت کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور بھارت میں ضم کرلینے جیسا بڑا فیصلہ بڑی دیدہ دلیری سے کرگزری ۔۔۔ اور کمال بیغیرتی یہ کہ ہم نے اس شرمناک جارحانہ اقدام پہ بھی ہم کشمیریوں کی عملی مدد کے بجائے وہی پرانا راگ الا پنا کافی سمجھا کہ ” ہم تمہارے ساتھ کھڑے ہیں ۔۔” حتیٰ کہ جو غیرتمند مجاہدین وہاں جاکے حریت پسندوں کے ساتھ مل کر بھارت سے دو دو ہاتھ کرنا چاہتے تھے انہیں‌بھی وہاں‌پہنچنے سے روک دیا ۔ یہی بے حسی کم نہ سمجھی گئی ،بلکہ بطور احتجاج بھارت سے نہ تو سفارتی تعلقات ختم کیے  اور نہ ہی مسئلے کے حل تک اس کے ساتھ اپنی فضائی سرحدیں بند کیں ،حتیٰ کہ کھیل کود کے امکانات بھی کھلے رکھے، جس کی ایک مثال گزشتہ برس کبڈی ورلڈ کپ میں بھارت کے  ساتھ پاکستان کی شرکت جیسا افسوسناک اقدام بھی ہے اور یہی نہیں بلکہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کرکٹ کے لیے بھی ٹیم کو بھیجنے کا فیصلہ بھی ہوچکا ہے، بس یہ کرونا نے اس کا شیڈول  ذرا بڑھادیا ہے ۔۔ تو پھر ہم کہاں‌کے غیرتمند ہیں کس طرح‌کی حمیت کے دعویدار ہیں ۔۔۔؟؟

سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے طرزِ عمل سے اہل کشمیر کو صاف دھوکہ دیا ہے اور اس سلسلے میں ہمارے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کا  وہ ویڈیو کلپ ہماری ذہنیت اور پالیسی بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے کہ جس میں وہ سینئر افسران کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر سے سفاکانہ لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے اسے ایک ایسا بوجھ قرار دے رہےہیں‌ کہ جس سے جان چھڑا لینی چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

افسوسناک امر یہ ہے پاکستانی بیانیے کی اس کھلی تکذیب بلکہ قومی مفادات سے مکمل رو گردانی یعنی صریح غداری پہ ان کا بال بھی بیکا نہ ہوا، اور کسی سطح پہ بھی انکا قطعی احتساب نہیں کیا گیا حتیٰ کہ انکے اپنے ادارے نے بھی تادیبی کارروائی تو دور، اس شرمناک بیان کا کوئی نوٹس تک نہیں‌لیا ،جبکہ اس ادارےکا دعویٰ یہ ہے کہ اسکا اپنا ایک فعال نظام احتساب ہے جو کہ نہایت چوکس و مستعد ہے اور ہمہ وقت متحرک و سرگرم عمل رہتا ہے ،تو ایسے طرزِ  فکر کے ہوتے کہاں‌ کی کشمیر پالیسی اور کہاں ان کا ساتھ دینے کا عزم صمیم ۔۔۔ اور  یہ فلسطین کا تو معاملہ ہی بڑے فاصلے کا ہے ۔ جب ہم ادھر اپنے بغل میں‌ہی کچھ نہ کرسکے تو ادھر کئی سمنروں کے اس پارکیا خاک تیر مارسکتے ہیں ۔ یہ سب کچھ بہت دل شکن ہے اور اسے دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے تو غلط کیا ہے، کہ ہم اپنے کشمیری  اور فلسطینی بھائیوں سے صاف صاف یہ کیوں‌ نہ کہہ  ڈالیں‌ کہ” ہمارے بیانئے ، اصول اور پالیسیاں سب مصنوعی ہیں ، یہ سب جائیں بھاڑ میں۔ سچائی یہ ہے کہ اے مظلومو، تم ہماری طرف نہ دیکھنا کیونکہ ہم صرف نعرہ باز منافق ہیں   اور ہماری دلچسپی صرف اپنی بقا  اور ذاتی نمود تک ہی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply