سرکاری قیدی (29)۔۔وہاراامباکر

اپریل 1859 کو بہادر شاہ ظفر کو نئی رہاش گاہ منتقل کر دیا گیا۔ اس میں چار چھوٹے کمرے تھے۔ ایک سابق بادشاہ کے پاس تھا۔ ایک ان کے بیٹے جوان بخت اور بہو کے پاس۔ ایک زینت محل کے پاس اور ایک چھوٹے بیٹے شاہ عباس اور ان کی والدہ کے پاس۔ ساتھ آنے والے چار خادم واپس انڈیا چلے گئے۔ باقی گھر کے برآمدے میں ہوتے۔ گھرکے اوپر کے منزل کو چق ڈال کر ڈھکا گیا تھا۔ بادشاہ اور بیٹے یہاں بیٹھ کر وقت گزارتے۔ سمندری ہوا کے جھونکے آتے اور اچھا منظر تھا۔ راہگیروں کو گزرتے دیکھنا اور جہاز دیکھنا مقید زندگی کی یکسانیت توڑتا تھا۔ دو سے تین سنتری پہرے پر مقرر تھے۔ اس سب کے لئے گیارہ روپے روزانہ دئے جاتے تھے۔ اتوار کو ایک اضافی روپیہ اور پہلی تاریخ کو اضافہ دو روپیے۔

ان سے وہ کچھ سامان خرید لیتے جیسے ٹوائلٹ کی چیزیں۔ قلم، دوات اور کاغذ سختی سے منع تھا۔ بہشتی، دھوبی اور صفائی والا ہندوستانی تھے۔ لوگوں سے میل ملاقات کی اجازت نہیں تھی۔ کام کرنے والے اجازت نامے کے ساتھ ہی جا سکتے تھے۔

اومانی کے جانے کے بعد اگلے جیلر ڈیوئس تھے۔ وہ لکھتے ہیں۔
“ان کی یادداشت اچھی ہے لیکن دانت نہ ہونے کی وجہ سے کئی بار بات سمجھ نہیں آتی۔ ایسا نہیں لگتا کہ وہ اب زیادہ ذہنی توانائی رکھتے ہیں لیکن چھیاسی برس کی عمر کے لحاظ سے صحت اچھی ہے۔ زیادہ وقت گم سم گزارتے ہیں۔ اور بہت دیر سے کسی چیز میں دلچسی نہیں لے رہے”۔

زینت محل سے ڈیوئس کی بیوی نے ملاقات کی اور ان کا کہنا تھا۔
“اچھی صحت ہے اور بتاتی ہیں کہ ان کا بہت سا خزانہ اور زیورات اور جائیداد گم گئے ہیں۔ ہوڈسن نے لکھ کر وعدہ کیا تھا کہ وہ محفوظ رہیں گی۔ ہوڈسن نے تو انہیں سنبھال کر رکھا لیکن دہلی کے کمشنر نے یہ سب ہڑپ کر لیا اور وہ دستاویز بھی۔ یہ سب بیس لاکھ کی مالیت کا تھا۔ میں نے بتایا کہ ان کے شوہر کو سزا ہوئی ہے اور تمام مال بحقِ سرکار ضبط ہو چکا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ میں نے انہیں کوئی امید نہیں دلائی کہ انہیں یہ واپس ملے گا”۔

اس کے بعد شاہ زمانی بیگم کے بارے میں (جو بہادر شاہ ظفر کی بہو تھیں)۔
“نوجوان اور خوبصورت لڑکی ہے جس کی عمر پندرہ سال کے قریب ہو گی۔ دو بچوں کو جنم دیا ہے۔ (شاہ زمانی بیگم کی شادی دس سال کی عمر میں گیارہ سالہ شہزادے جوان بخت سے ہوئی تھی اور یہ دہلی کی تاریخ کا سب سے شاندار فنکشن سمجھا جاتا تھا)۔ قید کی زندگی کا سب سے برا اثر اس پر ہوا ہے۔ ایک بچہ رنگون آمد کے کچھ دیر بعد ہی ہوا تھا لیکن وہ لڑکا بچ نہ سکا۔ زمانی بیگم کا بہت اصرار تھا کہ کبھی کبھار سیر کو جانے کی اجازت دی جائے”۔

بہادر شاہ کے بیٹوں مرزا جوان بخت اور شاہ عباس کے بارے میں۔
“دونوں بیٹے صحتمند ہیں۔ بڑا لڑکا جوان بخت مغرور طبیعت کا ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ ملکہ کا بیٹا تھا جبکہ اس کا چھوٹا سوتیلا بھائی خادمہ کا۔ دونوں بالکل ہی ان پڑھ ہیں۔ بڑا بیٹا فارسی کو تھوڑا سا لکھنا پڑھنا جانتا ہے لیکن عام چیزوں کے بارے میں بھی کوئی معلومات نہیں۔ انہیں اپنے ملک کے بارے میں یا ان کی سرحدوں کا بھی پتا نہیں ہے۔ لیکن وہ سیکھنے میں دلچسپی دکھاتے ہیں۔

میں اس کو اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ حکومت کے علم میں یہ بات لاوٗں کہ دونوں پڑھنا چاہتے ہیں اور خاص طور پر انگریزی زبان۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں پڑھنے کے لئے انگلستان بھیجا جائے۔ دونوں الگ الگ یہ بات کہہ چکے ہیں۔ دونوں ذہین ہیں اور جلد پروگریس کر سکیں گے۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ اگر حکومت نے مدد کی تو وہ پوری محنت کریں گے۔ میں نے انہیں بتا دیا ہے کہ میں ان کی خواہش حکومت تک پہنچا دوں گا۔ بہادر شاہ ظفر اور زینت محل کی بھی یہی خواہش ہے۔ ان کے والد کی زندگی کے زیادہ دن نہیں بچے۔ ہمیں ابھی سوچ لینا چاہیے کہ ان کے بچوں کے ساتھ آخر کرنا کیا ہے”۔

ڈیوئس کی تجویز کو فوری طور پر کلکتہ میں رد کر دیا گیا اور انہیں جھاڑ پلا کر کہا گیا کہ آئندہ خطوط میں ایسے چھوٹے موٹے معاملات کا ذکر نہ کریں جن کا حکومت سے سروکار نہیں۔ ڈیوئس کو اس پر بھی سرزنش کی گئی کہ انہوں نے بہادر شاہ ظفر کے لئے سابق بادشاہ اور زینت محل کے لئے بیگم کا لفظ استعمال کیا تھا اور بتایا گیا کہ انہیں صرف دہلی کا سرکاری قیدی کہا جائے۔

ان دونوں لڑکوں کے پاس کسی بھی قسم کی تعلیم کا واحد راستہ ڈیوئس اور مسز ڈیوئس تھے اور لڑکے ان کے گھر باقاعدگی سے جاتے۔ ان کے لکھے دوسری خطوط جوان بخت کی بڑھتی بے رخی کا ذکر کرتے ہیں۔ شاہ عباس سنتری کے ساتھ سیر پر چلے جایا کرتے۔ جوان بخت نے کسی کی گارڈ میں جانے سے انکار کر دیا۔

بہادر شاہ ظفر کے پاس نہ قلم تھا اور نہ کاغذ۔ ہمیں صرف اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جلاوطنی اور تنہائی کی زندگی میں وہ کیا محسوس کرتے تھے۔ اور ان کی مشہور اداس اور تلخ نظمیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے قید میں لکھیں، غالباً ان کی نظمیں نہیں۔ نہ ہی وہ ان کی دیوان کا حصہ ہیں اور نہ ہی رنگون میں لکھی کسی شاعری کے ریکارڈ ہونے کا امکان تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہادر شاہ ظفر 1862 میں 87 برس کے ہو چکے تھے۔ اگرچہ کمزور تھے لیکن صحت مجموعی طور پر ٹھیک رہی تھی۔ موسمِ برسات کے بعد اکتوبر کے آخر میں ان کی حالت اچانک بگڑ گئی۔ کچھ نگل نہیں سکتے تھے اور کھانا پینا محال ہو گیا تھا۔ انہیں یخنی پلائی جاتی تھی لیکن پھر وہ بھی مشکل ہو گیا۔ 5 نومبر کو سول سرجن نے رپورٹ دی کہ ان کا بچنا مشکل ہے۔

ڈیوئس نے ایک تنہا جگہ پر قبر بنانے کی تیاری کر لی۔ رات بھر کی تکلیف کے بعد بروزِ جمعہ 7 نومبر 1862 کو صبح پانچ بجے بہادر شاہ ظفر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

برٹش مشینری فوری حرکت میں آ گئی۔ یہ خاموشی سے ہو جائے۔ کم سے کم لوگ اس کو دیکھ سکیں۔ شام چار بجے مین گارڈ کے پاس قبر میں انہیں دفنا دیا گیا۔ اس کو ڈھک کر اوپر سے مٹی ڈال کر میدان ہموار کر دیا گیا۔ ساڑھے تین سو سال ہندوستان پر حکومت کرنے والے خاندان کے آخری بادشاہ کی زندگی تمام ہوئی۔ اس علاقے کے گرد باڑ لگا کر الگ کر دیا گیا۔ جب تک یہ باڑ ختم ہوئی، گھاس اگ کر قبر کو بے نشان کر چکی تھی۔

اگلے روز ڈیوئس نے اپنی سرکاری رپورٹ بھیجی، “اس واقعے کا یہاں کچھ اثر نہیں ہوا۔ نہ ہی پسماندگان پر اور نہ ہی یہاں کی مسلمان آبادی پر۔ شاید دو سو کے قریب لوگ دیکھنے والے تھے لیکن یہ راہگیر تھے جو قریب کے صدر بازار سے شہر کی طرف ریس دیکھنے جا رہے تھے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو ہفتے بعد بہادر شاہ ظفر کے موت کی خبر دہلی پہنچی جو غالب نے اودھ اخبار میں بیس نومبر کو پڑھی۔ یہی وہ دن تھا جب جامعہ مسجد مسلمانوں کو واپس کر دی گئی تھی۔ غالب، جو بہت سے لوگوں کی اموات دیکھ چکے تھے، کا ردِ عمل زیادہ نہ تھا، انہوں نے لکھا، “جمعے کے روز سات نومبر اور چودہ جمادی الاول کو، ابو ظفر سراج الدین بہادر شاہ اپنے جسم کی قید سے آزاد ہو گئے۔ بے شک ہم کو لوٹ کر خدا کی طرف ہی جانا ہے”۔

کسی اخبار، نہ برٹش اور نہ انڈین، نے بہادر شاہ کی موت کی خبر کو زیادہ جگہ نہیں دی۔ اس قدر خون بہہ چکا تھا، اس قدر جنازے اٹھائے جا چکے تھے اور ایک طرح سے بہادر شاہ ظفر کا سوگ پہلے ہی منا لیا گیا تھا اور بھلا دیا گیا تھا اور انہیں دہلی سے گئے ہوئے پانچ برس ہو چکے تھے”۔

آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ہی اندازہ ہوا کہ یہ کتنا بڑا خلا تھا۔ انقلاب کے وقت بغیر کسی کے کہے ہندو اور مسلمانوں کا مغلوں کی قیادت میں خودبخود اکٹھے ایک مثال تھی کہ اگرچہ ان کے پاس عملی، سیاسی، عسکری یا اکنامک طاقت تو ایک سو سال سے نہیں تھی لیکن سب کی ہی توقع کے خلاف پادشاہ کی کشش زندہ تھی۔

اور آج کے جدید مورخین بھی یہ نکتہ نظرانداز کرتے ہیں کہ ہندووٗں کے ساتھ بھی اس کی اتنی ہی کشش تھی جتنی مسلمانوں کے ساتھ۔ جدید مورخین کا ٰایک حصہ، خاص طور پر ہندوستان کا رائٹ ونگ، مسلمانوں کو ہندوستان میں آنے والے بیرونی حملہ آور کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن بغاوت کے وقت کے واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ ہندو بھی مغل دربار کی طرف ہی دیکھتے تھے۔ برٹش کالونیل راج کے خلاف مغلوں کے راج کو واپس لانے کی کوشش کی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور بغاوت جہاں ہمیں مغل نام کی طاقت کا دکھاتی ہے، وہیں پر اس میں ناکامی فرسودہ مغل فیوڈل آرڈر کی ناکامی تھی۔ بہادر شاہ ظفر کے دربار میں انتطامی صلاحیت کا شدید فقدان تھا۔ گورننس کا فرسودہ نظام تھا۔ ٹیکس اکٹھا کرنے کا، امن و امان قائم رکھنے کا طریقہ نہیں تھا۔ فوج کو خوراک فراہم کرنے کے لاجسٹکس نہیں تھے۔ بہادر شاہ ظفر خود کمزور حکمران تھے۔ اپنے پیشرووٗں کی طرح ایک اور نااہل حکمران تھے۔ مغل فیوڈل آرڈر جدید دنیا میں کام نہیں کرتا تھا۔

صرف دہلی ہی نہیں، ہندوستان کا سیاسی آرڈر ہر طرح سے ناکام رہا تھا۔ فاقہ زدگی کا شکار صرف سپاہی نہیں تھے۔ ہندوستان کی عظیم اور شاندار سلطنت ہزاروں میل دور سے آنے والے مٹھی بھر سپاہیوں کے ہاتھوں اپنے تابناک ماضی کے ساتھ زمین بوس ہو گئی۔ جب برٹش افواج نے دہلی کا کشمیری دھماکے سے اڑایا تھا تو یہ بس ایک آخری دھکا تھا۔

ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔

(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

ساتھ لگی تصویر ان دو شہزادوں کی جو بادشاہ کے ساتھ جلاوطن ہوئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply