• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • موبائل فون کا استعمال کیا ہماری زندگی سے زیادہ اہم ہے ؟۔۔عاصمہ حسن

موبائل فون کا استعمال کیا ہماری زندگی سے زیادہ اہم ہے ؟۔۔عاصمہ حسن

اگر ہم آج اور حالیہ گزرے ہوئے وقت کی بات کریں تو سب سے بڑا فرق جو دیکھنے میں آتا ہے وہ موبائل فون کا استعمال ہے جو اب بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور مزید بڑھتا ہی چلا جائے گا ـ 1990 کی دہائی کی بات ہے جب صرف چند لوگوں کے پاس موبائل فون ہوتا تھا لیکن اب تقریباً ہر شخص کے پاس موبائل فون ہے چاہے کمپنی کا مالک ہو یا چوکیدار ‘ گھر کا سربراہ ہو یا باغ کا مالی ‘ ڈاکٹر ہو یا اس کا ڈرائیور ‘ رکشہ چلانے والا ہو یا وین چلانے والا ‘ گھر کی صفائی کرتا ہو یا جوتے کی مرمت غرض یہ کہ ہر حیثیت اور ہر پیشہ سے تعلق رکھنے والا موبائل فون کی زد میں ہے ـ۔
سستے موبائل’ انٹرنیٹ ڈیٹا’ میسج اور کالپیکج نے لوگوں کی مشکل آسان کر دی ہے اب لوگ ہر وقت موبائل پر مصروف نظر آتے ہیں ـ۔

اب چونکہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور جب کہ ہر سہولت ایک اینڈرائیڈ موبائل پر میسر ہے تو زندگی آسان ہو گئی ہے رہی سہی کسر کرونا وائرس نے پوری کر دی جس نے چھوٹے بڑے سب کے ہاتھوں میں موبائل’ آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ پکڑا دئیے ہیںـ اب تو درس و تدریس بھی آن لائن ہوتی ہے جس کی وجہ سے بچے ہر وقت مختلف ایپس کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں ـ جس کے اپنے بہت سے نقصانات دیکھنے میں آرہے ہیں ـ ہر وقت موبائل کا استعمال نہ صرف ذہنی اور دماغی صلاحیتوں کو مفلوج کرسکتا ہے بلکہ بینائی پر بھی برا اثر ڈالتا ہے اسکے ساتھ ساتھ بچوں کا قیمتی وقت بھی ضائع ہوتا ہے جس کی ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی ـ۔

آجکل کا المیہ یہ ہے کہ ایک ساتھ ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو وقت نہیں دے پاتے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ سوشل میڈیا ہے جس پر ہر عمر کا بندہ ہر وقت مصروف نظر آتا ہے ـ موبائل فون اور سوشل میڈیا کے استعمال نے چھوٹے بڑے بزرگ سب کا فرق ختم کر دیا ہے کیونکہ سب ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں ـ اب وہ زمانے گئے جب کسی رشتے دار سے ملنے جایا کرتے تھے ‘ بیماروں کی تیمارداری اور مزاج پرسی کیا کرتے تھے ہمساؤں کے دکھ درد کا خیال کیا کرتے تھے اب تو یہ حال ہے کہ سوشل میڈیا پر سٹیٹس ڈال دیا جاتا ہے وہیں سے معلومات حاصل ہو جاتی ہیں ـ حتی کہ فوتگی کی اطلاع اور تفصیلات بھی سوشل میڈیا پر ڈال دی جاتی ہیں ـ کہنے کو وقت نہیں لیکن گھنٹوں موبائل پر مختلف گیمز کھیلی جا سکتی ہیں اور سوشل میڈیا پر وقت ضائع کیا جا سکتا ہے ـ ہم اپنا قیمتی وقت وہاں ضائع کرتے ہیں جس کا بظاہر کوئی حاصل مقصد نہیں ہے ـ۔

ہر چیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں اب ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس کا کیسے استعمال کرتے ہیں ـ لیکن ہمیں اس موبائل فون اور سوشل میڈیا کی اس قدر عادت ہو گئی ہے کہ ہم نہ صرف اپنے قیمتی وقت بلکہ اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے ـ کچھ دن پہلے ایک صاحب کو دیکھا جو ایک ہاتھ سے موبائل فون پکڑ کر بات کر رہے تھے اور دوسرے ہاتھ سےموٹر بائیک چلا رہے تھے ـ اب کال بھی کوئی ایمرجنسی کی نہیں لگ رہی تھی کیونکہ چہرے پر مسکراہٹیں بکھری ہوئی تھیں اور قہقہے تھے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے اب اللّٰہ پوچھے کہ بھائی اپنی جان پر ہی تھوڑا ترس کھا لو لیکن نہیں ہمیں پرواہ ہی نہیں ـ اسی طرح گاڑی چلانے والے حضرات بھی فون کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں باہر کے ممالک میں ڈرائیونگ کے دوران موبائل کے استعمال پر پابندی ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو نہ صرف بھاری جرمانہ ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ لائیسنس منسوخ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ پاکستان میں قانون تو ہے لیکن اس کی دھجیاں اڑانا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں اور کوئی سزا یا جرمانہ عائد نہیں ہوتا لہٰذا ڈرائیونگ کے دوران ہم پیغام رسانی یعنی میسیجنگ بھی کر لیتے ہیں سیلفی ‘ وڈیوز کے ساتھ ساتھ بومرنگ اور سنیپ سٹریکس بھی بنا لیتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ڈال کے تبصرہ یعنی کومنٹس کا جواب بھی باآسانی کر دیتے ہیں ـ یہ بھی ہمارا ہی کمال ہے ـ کہتے ہیں کہ اگر ہم رسک نہیں لے سکتے تو زندگی میں کچھ کر نہیں سکتے لیکن موبائل فون کے استعمال میں ہم اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگیوں کا بھی رسک لیتے ہیں جو کہ سراسر ناجائز ہے ـ

اس دوڑ میں خواتین بھی کسی طور پر پیچھے نہیں ہیںـ اب دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ خواتین بچوں کو اسکول چھوڑنے اور لینے آتی ہیں اس دوران موبائل فون پر بات کرتے ہوئے ڈرائیونگ کرتی ہیں یا بات کرتے کرتے غلط گاڑی کھڑی کر کے چلی جاتی ہیں جس سے ٹریفک بلاک ہو جاتا ہے اور سب کو بہت زیادہ مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ـ

اگر بات کرنا بہت ضروری ہے تو اس کا دورانیہ کم رکھا جائے اور ہینڈ فری کا استعمال کیا جائے تاکہ ڈرائیونگ میں مشکل نہ ہو ـ ویسے تو ساری توجہ ڈرائیونگ پر ہونی چاہیے تاکہ کسی ناخوشگوار واقعے سے بچا جاسکےـ۔

ہمیں اپنی اور اپنی زندگی سے جڑی زندگیوں کا خیال رکھنا چاہیے ـ زندگی ایک بار ملتی ہے اس کی قدر کرنی چاہیے ـ زندگی گزارنے کے کچھ اصول ہونے چاہیے جن پر عمل کر کے ہم اپنے اور دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کر سکیں ـ ہر چیز کو اعتدال میں استعمال کرنا ہی بہتر ہے ـ چیزوں کے مثبت پہلوؤں پر زیادہ کام ہونا چاہیے۔ ـ

Advertisements
julia rana solicitors

ٹریفک کے قوانین میں موبائل فون استعمال پر پابندی ہے لیکن غالباً اس پر عمل درآمد نہیں ہو پا رہا ،ان قوانین پر عمل کروانے کے لئے سختی کی ضرورت ہے ‘ جرمانہ کی رقم میں اضافہ کیا جائے اور قانون توڑنے والے کو سخت سزا دینی چاہیے کیونکہ ایسے لوگ نہ صرف اپنی زندگی بلکہ دوسروں کی زندگی کے لئے بھی خطرہ اور وبالِ جان ہوتے ہیں ـ عوام الناس کو بھی چاہیے کہ دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال نہ کریں کیونکہ زرا سی غفلت کئی زندگیاں نگل سکتی ہے ـاس کے علاوہ ہمارے الیکٹرانک’ پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کو بھی چاہیے کہ اس مسلئے کو اجاگر کرے اور اپنا مثبت کردار ادا کرےـ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply